فانی بد ایونی ایک عظیم شاعر

681

اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
….
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
….
یہ کوچۂ قاتل ہے آباد ہی رہتا ہے
اک خاک نشیں اٹھا اک خاک نشیں آیا
….
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قیدِ حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

ان اشعار کے خالق فانی بدایونی ہیں۔ ہر شاعر کی محسوسات کی اپنی دنیا ہوتی ہے، وہ اپنے دور کی سماجی، معاشرتی ناہمواری، سیاسی حسن و قبح، سماجی شکست و ریخت اور زمانے کے حوادث سے کیسے دور رہ سکتا ہے! فانی کی پوری زندگی المیوں میں گھری رہی۔ آپ کی شاعری کا بنیادی عنصر حزن، یاس، رنج و الم ہے، لیکن اس میں جمالیاتی ذوق بھی نمایاں ہے، اور غم و عشق کے ساتھ فلسفہ و تصوّف بھی نمایاں ہے۔ اس میں محبت، روحانیت اور زندگی کی عارضی نوعیت کے موضوعات کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ فانی کے اشعار ان کی غزلیاتی خوبصورتی، بھرپور استعارے اور پیچیدہ منظرکشی سے بھی نمایاں ہیں۔

اردو شاعری کے دائرے میں شوکت علی فانی بدایونی ایک ایسی روشنی کے طور پر کھڑے ہیں جن کے اشعار آج بھی پڑھنے والوں کے دلوں کو چھوتے ہیں۔ آپ 1879ء میں بدایوں میں ایک فارسی بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل وطن کابل تھا اور نسلاً پٹھان تھے۔ آپ کے اجداد خاصی بڑی جاگیر کے مالک تھے۔ فانی خود کہتے ہیں کہ دربار دہلی نے انہیں اور ان کے جانشینوں کو بہت نوازا اور ممتاز عہدو ں پر فائز کیا۔

آپ کے دادا غلام علی خان صوبہ بدایوں کے گورنر تھے۔ جائداد ان سے 1857ء کے ہنگاموں کے بعد انگریزوں نے چھین لی، جس کے بعد کچھ معمولی زمینیں ہی رہ گئی تھیں۔ آپ کے والد شجاعت علی خان بدایوں میں تھانیدار تھے۔ وہ بڑے سخت گیر تھے، بقول فانیؔ قلیل آمدنی ہوجانے کے باوجود والد نے ساری زندگی شرافت، دیانت، غیرت اور جرات سے گزاری۔

فانی بدایونی کی ابتدائی تعلیم گھر اور مکتب میں ہوئی، 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور1897ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کرکے 1901ء میں بریلی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے گیارہ سال کی عمر میں ہی شاعری شروع کردی تھی اور1898ء میں ان کا پہلا دیوان مرتب ہوگیا تھا لیکن اس کا علم گھر والوں کو نہیں تھا اور آپ نے اسے چھپائے رکھا۔ کیونکہ آپ کے والد آپ کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہوں نے فانی کو بہت روکا کہ وہ اس کام سے باز آجائیں، لیکن فانی نے شاعری نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ بعد میں والد نے ان کا دیوان ہی جلا دیا۔ فانیؔ کو اپنے عشق کے حصول میں بھی ناکامی ہوئی، کیونکہ وہ بی اے مکمل کرکے ہی شادی کرنا چاہتے تھے جب کہ لڑکی والے جلد شادی پر اصرار کررہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہوگئی اور کچھ دنوں بعد اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ آپ کو اس کا رنج، غم اور صدمہ رہا، جو زندگی کے سفر میں ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ایک دور میں اٹاوہ اور پھر بعد میں جب سب انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے گونڈہ پہنچے تو وہاں بھی دوسری جگہوں کی طرح فانی طوائفوں کے چکر میں بھی پھنسے رہے۔ والد نے 1902ء میں شادی کردی تھی، جس سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئی تھی۔

بعد کی زندگی میں فانی نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی اور علی گڑھ سے جب تعلیم مکمل ہوئی تو فانی نے لکھنؤ میں پریکٹس شروع کی، اور ان کو اتنی بڑی تعداد میں مقدمات ملنے لگے تھے کہ وہ دوسرے وکیلوں کو دینے لگے تھے، لیکن پھر شاعری آپ پر حاوی رہی اور آپ شاعری کے ہی ہوگئے۔ مقدمے سے بے پروا شعر و شاعری میں دلچسپی لیتے، اور کہتے ہیں کہ گرمی کے زمانے میں تو بار سے ہی باہر نہیں نکلتے تھے، ایسے میں یہ سلسلہ کس طرح سے چل سکتا تھا؟ جب کہ وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے ایک اچھا وکیل بننے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن درحقیقت ان کو وکالت سے دلچسپی ہی نہیں تھی، کہتے تھے کہ کچہری اور پاخانے مجبوراً جاتا ہوں۔ ایک سال کے اندر ہی ان کے والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا۔ یہ صدمے فانی کے لیے بڑے تھے، دل برداشتہ ہوئے اور وکالت سے دور ہوگئے، پھر مالی پریشانی بھی بہت بڑھ گئی، قرضوں میں  ڈوبے تو تخیل و جذبیت کی ایک دنیا بسا لی۔

جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے: ’’ان کی وکالت کبھی نہ چلی، اس لیے کہ شعر خوانی اور دل کی رام کہانی کا سلسلہ وہ توڑ نہیں سکتے تھے، اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ غمِ دوراں کے ساتھ غمِ جاناں نے بھی رہی سہی کسر پوری کردی، ان کا ذوقِ سخن ابھرتا اور شیرازئۂ وکالت بکھرتا گیا۔ اور غریب کو پتا بھی نہ چلا کہ میری معیشت کا دھارا ایک بڑے ریگستان کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ وہ پریکٹس کی جگہیں بدلتے رہے لیکن نتیجہ ہر جگہ وہی تھا، گھوم پھر کر وہ ایک بار پھر لکھنؤ پہنچے اور اس بار غمِ دوراں کے ساتھ وہاں غمِ جاناں بھی ان کا منتظر تھا۔“ طیہ تقّن نام کی ایک طوائف تھی جو ایک رئیس کے لیے وقف تھی۔ جوش کے الفاظ میں ”معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ بیچارے کے معاشقہ میں بھی فساد رونما ہونے لگا، چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا، ایک طرف تو معاشی زندگی کی نبضیں چھوٹیں اور دوسری طرف عاشقانہ زندگی میں ایک رقیبِ روسیاہ کے ہاتھوں ایسا زلزلہ آیا کہ ان کی پوری زندگی کا تختہ ہی الٹ کر رہ گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے بوریا بستر باندھ کر لکھنؤ سے آگرہ چلے گئے۔“

غم عشق اور غم روزگار کے ساتھ فانیؔ زندگی کی تلاش میں بھاگے بھاگے پھرتے رہے، آخر میں حیدرآباد چلے گئے جہاں مہاراجا کشن پرشاد ان کے مدّاح تھے۔ مہاراجا کرشن پرشاد داغؔ کے شاگرد تھے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے، دربار میں شعرا اور مصنفین کا ہمیشہ جمگھٹا رہتا تھا۔ وہ فانی کی شاعری کو بہت پسند کرتے تھے۔ ایک دن فانی سے غزل کی فرمائش کی، آپ نے اپنی مشہور غزل سنانا شروع کی:

دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

جب فانیؔ اس شعر پر پہنچے :

جگ سُونا ہے تیرے بغیر، آنکھ کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بنتی تھی اب بھی دنیا بستی ہے

تو مہاراجا کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے، جس پر فانی کہتے ہیں ”مجھے ایسی داد کبھی نہیں ملی جو مہاراجا سے حاصل ہوئی“۔

فانی نے اپنی زندگی کے کچھ بہترین اور بالآخر بدترین دن حیدرآباد میں گزارے۔ فانی معظم جاہ کے دربار میں بھی ملازم رہے۔ درباروں کے آداب و طریقے سے واقفیت نہ تھی، خوشامدی اور رقابت رکھنے والوں کی وجہ سے زیادہ وقت ملازمت نہیں رہی، اس دوران بیوی بھی بیمار رہی اور علاج مشکل ہوگیا۔ فانی کی بیوی نے ان کا بہت ساتھ دیا اور مشکل حالات میں بھی وہ ان کی ہمت بندھاتی رہتی تھی، لیکن بیماری نے اسے مزید زندہ نہیں رہنے دیا۔

ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ”فانی کے خیال میں شاعر خدا کا شاگرد ہوتا ہے اور جو شعر وہ لکھتا ہے وہ خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوتے ہیں، اگر وہ سچا شاعر ہے تو اس کو نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ وہ اپنے آپ یا اپنے فن کو بیچنے کے لیے تیار ہوگا۔ وہ کہتے ہیں حقیقی شاعری کبھی زمانے کے ساتھ نہیں بدلتی، ہاں زمانے کو کبھی کبھی بدل دیا کرتی ہے۔“

فانی کے مطابق ”اگر شاعر کا صرف ایک شعر اس معیار پر ٹھیک اتر جائے تو وہ یقیناً شاعر کہلائے جانے کا مستحق ہے، برخلاف اس کے کوئی شاعر دو سو اشعار روز ڈھال لینے کی قدرت رکھتا ہو، وہ مجموعہ کلام تو لاسکتا ہے، شمار نہیں کیا جاسکتا“۔ فانی دو باتوں پر زور دیا کرتے تھے، ایک تو یہ کہ انسان کے اندر اخلاق کا ہونا ضروری ہے، اور دوسرے اپنی مدد آپ کرو کا جذبہ ہونا چاہیے، روزانہ کی زندگی پر غور کیجیے کہ کیا واقعی جو باتیں ہم کہتے ہیں وہ ہمارے دل میں بھی موجود ہیں؟ ہم کہتے وہ ہیں جو دوسروں کو خوش کرسکے، خواہ وہ کتنا ہی بڑا جھوٹ ہو۔ دل میں کچھ ہو اور زباں پر کچھ، اس کو منافقت کہتے ہیں۔“

فانیؔ شاعر ہی نہیں انسان بھی بڑے تھے، وہ شہرت سے بھاگتے تھے۔ قاضی عبدالغفار نے ان کے بارے میں لکھا کہ ”ان کے آنے سے پہلے میں ان کا کلام سنا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا شاعر اچھا ہے، معلوم نہیں آدمی کیسا ہے! جب ان سے ملا تو معلوم ہوا کہ جتنا کہ وہ شاعر ہے اُس سے زیادہ انسان ہے۔“

فانیؔ مشہور فارسی اور اردو شاعروں جیسے مرزا غالب، میر تقی میر، اور سراج اورنگ آبادی کی تخلیقات سے بہت متاثر تھے۔ فانی بدایونی فارسی شاعری میں کمال درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔ غزلیں، قصیدے اور رباعیاں تحریر کیں، جن میں گہرے جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت نظر آتی ہے۔ فراقؔ نے کہا تھا کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی شاعری میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرہ کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔“

ڈاکٹر معراج الحسن لیکچرر گورنمنٹ انٹر اردو کالج مراد آباد فانی بدایونی پر اپنے پی ایچ ڈی مقالے ”فانی کی حزنیہ شاعری کا تجزیہ… مطالعہ“ میں ڈاکٹر نیپال سنگھ اترپردیش ہندوستان میں وزیر تعلیم اردو زبان رہے ہیں، کا کہا لکھتے ہیں کہ ”دور جدید میں اصغر، حسرت، فانی، اور جگر اردو غزل کے عناصر اربعہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان میں فانی کو اپنی مخصوص حزنیہ لَے کی وجہ سے انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا غصہ، غم و فلسفہ، الم سب سے الگ اور جداگانہ ہے۔ فانی کی شاعری میں لطافتِ زبان، نزاکتِ ادا، پُرگزار متانت اور گہری سنجیدگی نے ان کی شاعری کو بلند کیا ہے، فانی کو اظہار و ابلاغ پر قدرت حاصل ہے۔“

معاصر ادیب اور نقاد خالد حسن نے فانی بدایونی کی شاعری کو ”جذباتی گہرائی اور فکری نفاست کا نایاب امتزاج“ قرار دیا۔ انہوں نے لکھاکہ ”بدایونی کی شاعری نہ صرف جذبات کو متاثر کرتی ہیں بلکہ فکری غور و فکر کو بھی ابھارتی ہے، جو انہیں جمالیاتی لذت اور فکری محرک دونوں کے خواہاں قارئین کے لیے ایک خزانہ بناتی ہے۔“

معروف ہندوستانی شاعر اور گیت نگار راحت اندوری نے فانی بدایونی کی شاعری کو ”جذبات کا سمندر“ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”جب میں فانی بدایونی کو پڑھتا ہوں تو مجھے ایک ایسی دنیا میں لے جایا جاتا ہے جہاں جذبات زندگی اور محبت کے جوہر لے کر ندیوں کی طرح بہتے ہیں۔ ان کی شاعری لفظوں کی لازوال طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے“۔ فانی بدایونی کی شاعرانہ میراث آج بھی پڑھنے والوں کو متاثر اور مسحور کرتی ہے۔ اردو ادب کی دنیا پر ان کا اثر ان کے اپنے زمانے سے بھی بڑھ کر شاعروں اور ادیبوں کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔

ماہر القادری کے مطابق ان کی بسا اوقات ایک ایک غزل کئی کئی دنوں میں مکمل ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے: ”پڑوس میں ریڈیو تھا، کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا: مشاعرہ تو ابھی جاری ہے۔ مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہوچکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں تو تعجب کی بات نہ ہوگی۔

فانیؔ اور ان کی شاعری کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ان کی چند رباعیاں اہم حیثیت رکھتی ہیں:

عالم بدلا فضائے عالم بدلی
ہر شے بے اختیار و پیہم بدلی
ہاں اِک مری تقدیر کہ بدلی ہی نہیں
اِک میری طبیعت کہ بہت کم بدلی

آل احمد سرور نے اس پر کہا کہ ” چونکہ فانیؔ کی طبیعت بہت کم بدلی، اس لیے ان کی تقدیر بدلی ہی نہیں۔ اگرچہ خود فانیؔ کو اس بات کا احساس نہ ہوسکا۔ ان کی طبیعت کے بہت کم بدلنے میں ان کی طاقت اور کمزوری دونوں کا راز پوشیدہ ہے۔ دوسری رباعی یہ ہے:

بجھتی ہی نہیں شمع جلے جاتی ہے
کٹتی ہی نہیں رات، ڈھلے جاتی ہے
جاری ہے نفس کی آمد و شد فانیؔ
سینے میں چھری ہے کہ چلے جاتی ہے

اس میں فانیؔ کے اسلوب کی نشتریت، اس کی روانی، اس کی تاثیر اور اس کے ساتھ لفظوں میں ایک جہانِ معنی آباد کرنے کی صلاحیت، بھرپور انداز سے جلوہ گر ہے۔ ہم اسے فانیؔ کے رنگ کی نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔“

آپ نے شاعری میں قرآنی آیات کی بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں  جیسے:

لوحِ دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
”کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا
….
طور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

ایک اور شعر اور دیکھیے:

ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

اپنی مشکلات سے پُرزندگی، پریشانی، مصائب جو انہوں نے برداشت کیے اس کا ذکراس طرح کرتے ہیں :

کس خرابی سے زندگی فانیؔ
اس جہانِ خراب میں گزری
کچھ کٹی ہمتِ سوال میں عمر
کچھ امیدِ جواب میں گزری

”کلیاتِ فانی“ کے مقدمہ میں  قاضی عبدالغفار نے لکھا ہے کہ انتقال سے چند روز قبل فانی میرے پاس آئے اور کہنے لگے: بھئی قاضی بس ایک چیز سنانے آیا ہوں یہ میرے مرنے کی تاریخ ہے۔

اُواز جہاں گذشت کہ آخر خدا نبود
اُو ایں چنیں بزیست کہ گویا خدا نداشت
طغیان نازبیں کہ لوح مزار او
ثبت است سالِ رحلتِ فانی ”خدا نداشت“

ترجمہ: وہ (فانی) اس جہان سے رخصت ہوا جیسے اس کا کوئی خدا نہ تھااور اس نے زندگی یوں گزاری کہ جیسے خدا کا وجود نہ تھا،اس کے ناز کی طغیانی تو دیکھو کہ اس کے مزار پر اس کی وفات کی تاریخ ثبت ہے کہ ”خدانداشت“۔وہ خدا نہیں رکھتا تھا۔

جب فانی بیمار تھے تو نواب نثار یار جنگ دیکھنے گئے اور کہا ”فانی تم مر نہیں سکتے“۔یہ جملہ سن کر فانی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ا ور آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی،مگر یہ چمک ایسی ہی تھی جیسے چراغ کے بجھنے سے پہلے لو تیز ہوجاتی ہے۔ آپ کا انتقال 27اگست 1941ءکو تقریباً ساڑھے 62سال کی عمر میں ہوا۔

حصہ