میاں بیوی کے نئے رشتے کی بنیاد اعتبار پر رکھی گئی ہے
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے یہ محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے بلکہ ایک اہم فطری ضرورت ہے، نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ؐہے ’’نکاح کرنا میری سنت ہے۔‘‘
حضرتمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف ایمان بھی قرار دیا ہے ’’ جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے نوازا۔ارشاد نبوی ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں شرم و حیا،مسواک ، خوشبواور نکاح کا التزام کر ناہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے (یعنی نظرکو بہکنے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ بعض صحابہ کرام نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا دیا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’کہ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال) یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منہ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
نکاح کے لیے شرط ہے کہ کسی مرد یا عورت کی مرضی و اجازت کے بغیر نکاح قرار نہیں پاسکتا ارشادِ ربانی ہے ‘ اے ایمان والو تم کو حلال نہیں کیا کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اسی طرح کسی مرد کا نکاح کسی عورت سے اس کی مرضی و اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا چونکہ عموماً عورت بااختیار نہیں ہوتی ۔ اس لیے عورت کی اجازت و مرضی کا ذکر وضاحت سے کردیاگیا ہے اوراس سے بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے نکاح میں عورت کو رضامندی پسند ناپسند کا پورا حق دیا ہے۔نکاح ایک طرح کی لائف پاٹنرشپ ایگریمنٹ ہے ، ایسا نباہ یعنی ایسا تعلقات کا تسلسل جس میں لڑکا اپنے پارٹنر کے نان نفقہ اہل خانے کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور لڑکی اس سے وفا داری کا وعدہ کرتی ہے اسی وفاداری کے تمام اوصاف کی وجہ سے بھرو سہ اور اعتماد کے مقام کو حاصل کرسکتی ہے۔ وفاداری کے جذبے سے ہی سرشار خاندان خوش و خرم رہ سکتا ہے۔جبکہ لڑکا نان نفقہ کی ذمہ داری پر لڑکی سے تین چیزوں کا طلب گار ہوتا ہے کہ لڑکی اس پربھروسہ کرے دوسرا اس کو اس کی فطرت کے ساتھ برداشت کیا جائے اور تیسرا اس کے نان نفقہ اور دیگر کاموں کوسراہااور احترام کیا جائے،اسی طرح لڑکی جب لڑکے کو وفا داری کا حلف دیتی ہے تو وہ بھی لڑکے سے تین چیزوں کی خواہش مند ہوتی ہے پہلی لڑکا اپنی جان اور مال سے اس کی حفاظت کرے دوسرا اس کی باتوں اور مشوروں سے ہم آہنگی کا اظہار کرے۔تیسرا اسے اور اس کے خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے یعنی عزت کی جائے۔ جب ان چیزوں پر لڑکااور لڑکی رضامند ہوتے ہیں تو پھرمرد اور عورت کو نکاح کے مہذب بندھن میں باندھنا لازمی سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ ایک خاندان کو وجود بخشنا ہوتا ہے ۔ اسی لیے نکاح سماج کا تصور دیتا ہے۔ گھرگرہستی کا نظام قائم کرتا ہے۔ اوراسلام نکاح کے ذریعہ ہی نسل آدم کی تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی علیحدگی کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے، وہی اللہ ہے جس نے انسان کو پانی (یعنی ایک قطرہ بوند) سے پیدا کیا (اور اس کے ذریعہ) نسل آدم کو چلایا اور اسے خاندان اور سسرال والا بنادیا اور تمہارا رب واقعی بڑی قدرت والا ہے، اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اوراسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔دونوں جب نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اللہ تعالی قرآن میں بتاتا ہے کہ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘بظاہر لباس کا مطلب وہ کپڑاہے جو انسان اپنے جسم پر پہنتا ہے۔جس طرح لباس گرمی اور سردی سے بچاتا ہے۔ جسم کے پوشیدہ رازوں کو چھپاتا ہے اور خوش نما لباس معاشرے میں عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے اسی طرح میاں اور بیوی ایک دوسرے کے پوشیدہ رازوں کو اپنے اپنے تعلق واسطے والے لوگوں سے چھپاتے ہیں اور ایک دوسرے کو پریشانیوں اور مشکلات میں سہارہ دیتے ہیں ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں جب ایک قلب ایک جسم ایک جان بن جاتے ہیں تو معاشرہ بھی ایسے جوڑے کی تعریف کرتا ہے۔ انسان آرام طلب اور فطری طور پر راحت وسکون کا محتاج ہے اسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایا’’عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیوں کہ عورت کو پسلی سے پیداکیاگیاہے اورپسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھاپن اس کے اوپروالے حصے میں ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگ جاؤگے،تواسے توڑ بیٹھو گے اور اگر اس کو یوں ہی چھوڑدوگے،تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے ’’عورت پسلی کی مانند ہے۔اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے،تواسے توڑ بیٹھوگے۔اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہو،تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو‘‘۔ ایک دوسری روایت میں ہے’’عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ کسی طریقے سے بھی تمہارے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کاارادہ رکھتے ہو، تو ٹیڑھے پن کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے میں لگ گئے، تو اسے توڑ بیٹھوگے۔ اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،تو اس میں موجود کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھانا ہوگا۔جتنا فائدہ حاصل ہو جائے، اسی پر راضی ہونا ہوگا۔اگر وہ اسے اپنی مرضی پر چلا نے کی کوشش کرے گا،تو وہ نہیں چلا سکے گااوراپنی کوشش میں ناکام رہے گا۔دین کے معاملے میں درست ہو بھی جا ئے تو طبعی میلانات کے معاملے میں کجی باقی رہے گی۔ ہر بات میں شوہرکی چاہت پرپوراترا ناممکن نہیں ہے بلکہ مخالفت اورکوتاہی ناگزیرہے۔ جوکجی ہے،وہ رہنی ہی ہے اگر آپ اسے سیدھاکرنے جائیں گے تواسے توڑ بیٹھیں گے۔یہاں توڑنے سے مراداسے طلاق دے بیٹھیںگے ۔میاں بیوی کے رشتے کی بنیاد اعتبار پر رکھی گئی ہے۔ یقین اور بھروسہ اس رشتے کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو توڑ نہیں سکتا اسی طرح مرد کی فطرت میں اللہ تعالی نے اپنی ایک صفت شامل کی ہے اللہ تعالی کو شرک پسند نہیں اس لیے میاں بیوی کے درمیان کسی تیسرے شخص کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن جب میاں بیوی کے درمیان تیسرا شخص آجاتا ہے تو اس رشتے کی جڑیں کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اعتماد کی دیواریں گرنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر اس سے بڑے بڑے نقصان اٹھانے پڑ تے ہیں۔ اس سے نقصان صرف متعلقہ شخص کا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی لپیٹ میں پورا خاندان آجاتا ہے۔ اگر ان پہلوں کو مد نظر رکھا جائے تو زندگی خوشگوار گزرے گی۔