ہوا کی سرسراہٹ پودوں کو جھومنے میں مجبور کررہی تھی۔ آج ٹھنڈی ہوا کے ساتھ دھوپ کی آمیزش بھی تھی۔ موسم کبھی ابر آلود ہوجاتا، کبھی ہلکی دھوپ اسے تھپکی دے جاتی تھی، لیکن ہوا نے اپنا کام نہیں چھوڑا تھا، وہ مسلسل پودوں کو جھومنے میں مصروف رکھے ہوئے تھی۔
ڈاکٹر حمیرا اس موسم سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ اس موسم کی مانند اُن کی زندگی کی نیّا پار لگ چکی تھی، ملک و قوم کے لیے کچھ کردکھانے کا جذبہ خواب کی تعبیر اختیار کرچکا تھا۔ بیرونی ممالک سے بہت سی آفرز کے ساتھ ایک اچھی پُرکشش جاب کی بھی آفر آئی تھی، لیکن ملک کی محبت کے آگے تمام آفرز کو ٹھکرا چکی تھیں۔ اسی دیانت داری کی بہ دولت عوام کا رش ان کے کلینک میں ہر وقت رہتا تھا۔ ڈاکٹر حمیرا عوام کی محبت دیکھ کر پھولے نہ سماتی تھیں۔
میڈیکل کی ایک ٹیم بھی اپنی میڈیسن پروموشن کے لیے ڈاکٹر حیمرا سے ملی۔ ’’سر یہ میڈیسن بچوں کے جگر کے لیے نقصان دہ ہے، یہ میں اپنے کلینک میں نہیں رکھ سکتی، اتنی پاور کی ڈوز میڈیکل کی رو سے نقصان دہ ہے۔‘‘
’’میڈم ہم آپ کو اس کا منہ مانگا منافع دیں گے، بس آپ کو یہ اپنے مریضوں کو دینی ہے۔‘‘
’’یہ تو سراسر غیر قانونی ہے… سوری میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتی… میں اپنے پروفیشن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتی۔‘‘
’’سوچ لیں میڈم! اس کا آپ کو بہت نقصان ہوگا۔‘‘
’’جی میں اپنے نقصان کے لیے عوام کو موت کے منہ میں نہیں دھکیل سکتی، میڈیکل کی رو سے یہ جرم ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر میڈیکل ٹیم چلی گئی۔
چند دنوں بعد حمیرا کو دھمکی آمیز کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ’’اپنا کلینک بند کرو ورنہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
حمیرا نے ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا۔ چند دن بعد کچھ پولیس افسران کلینک بند کرنے کا نوٹس لے کر آگئے… اور یہ ثابت کردیا کہ یہ کلینک غیر قانونی زمین پر بنایا گیا ہے۔
حمیرا نے تمام دستاویزات ان کے سامنے رکھیں، لیکن قانونی لحاظ سے یہ زمین غیر قانونی تھی۔ آخرکار حمیرا کو یہ کلینک بند کرنا پڑا۔ کلینک بند کرنے کے بعد حمیرا کے پاس وہی دھمکی آمیز کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ’’اگر ہماری مرضی کے مطابق کام کرو گی تو تم یہ کلینک دوبارہ قائم کرسکتی ہو۔‘‘ لیکن حمیرا نے ان کی بات نہیں مانی اور بیرونِ ملک کی آفر قبول کرکے وہاں رہائش اختیار کرلی، لیکن ان کے دل میں یہی احساس تھا کہ وہ مٹی کا قرض نہیں اتار سکیں۔