مزاح نگار بہت غمگین آدمی ہوتا ہے،مجتبیٰ حسین کا ایک یادگار انٹریو

497

ایک پاکستانی قاری پوچھ سکتا ہے ’’کون مجتبیٰ حسین؟‘‘

جواب میں عرض کروں گا ’’ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی۔‘‘

عجب نہیں کہ استفسار ہو ’’کون ابراہیم جلیس؟‘‘

وضاحتا ً کہوں گا ’’دس کروڑ بھکاری والے۔‘‘

اب بھلا اس کا کیا علاج ہے کہ کوئی کہے کہ اتنے ڈھیر سارے بھکاری کہاں پائے جاتے ہیں؟

جب لوگ باگ اپنے ادب پڑھنا چھوڑ دیں تو لاعلمی اور بے خبری شخصیت اور طبیعت کو راس آنے لگتی ہے۔

وہ اخبار بیں طبقہ جو اردو ادب اور روزنامہ جنگ کا قاری ابتدا سے رہا ہے‘ اسے معلوم ہے کہ ابراہیم جلیس اردو کے مقبول مزاح نگار اور کالم نگار گزرے ہیں جن کے ایک طنزیہ شہ پارہ ’’دس کروڑ بھکاری‘‘ نے آزادی سے قبل اردو ادب میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ ان ہی ابراہیم جلیس کے دو بھائی اور ہیں۔ محبوب حسن جگر جو حیدرآباد دکن کے مشہور اخبار روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں جوائنٹ ایڈیٹر تھے‘ دوسرے بھائی مجتبیٰ حسین نے اپنے بڑے بھائی ابراہیم جلیس کی طرح مزاح نگاری اور کالم نگاری کی راہ اپنائی۔ مجتبیٰ حسین بھارت کی اردو دنیا میں خوب پہچانے جاتے ہیں۔ 1964ء میں پہلا مزاحیہ مضمون لکھا‘ اب تک ان کی ایک درجن سے اوپر طنزیہ و مزاحیہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ دکن میں طویل عرصے تک مزاحیہ کالم لکھتے رہے۔ انہوں نے ابن انشا کی طرح ظریفانہ اسلوب میں سفر نامے بھی تحریر کیے ہیں۔ مثلاً ’’چلو‘ چلو جاپان چلو۔‘‘ ساتھ ہی پُر لطف اسلوب میں شخصی خاکے بھی لکھے ہیں ’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ اور ’’آدمی نامہ‘‘ ایسے ہی خاکوں کے مجموعے ہیں۔ مزاحیہ مضامین کے مجموعوں میں ’’تکلف برطرف‘‘، ’’قطع کلام‘‘ اور ’’بہرحال‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی مزاح نگاری کے ذائقے سے متعارف کرانے کے لیے ذیل میں ان کے کالموں سے چند اقتباسات دیے جاتے ہیں۔

بھارت میں شادی میں لڑکی ہمراہ قیمتی جہیز نہ لائے تو اسے سسرال والوں کی طرف سے انتقام کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ چنانچہ جب امرتسر میں ایک دلہن کو اس کی سسرال میں ٹیلی ویژن سیٹ نہ لانے پر گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تو مجبتیٰ حسین نے اپنے مخصوص انداز میں اس بے رحمی اور درندگی کو موضوع بنایا:

’’اس خبر پر تبصرہ کرنے سے بظاہر ہم اس لیے گریز کر رہے ہیں کہ بہرحال یہ ایک خانگی معاملہ ہے اور جہیز کا معاملہ تو حد سے زیادہ خانگی معاملہ ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ قصور سسرال والوں کا نہیں لڑکیوںکا ہے‘ جو جہیز میں قیمتی اشیا جان بوجھ کر نہیں لاتیں۔ لہٰذا ایسی لڑکیوں کو سزائیں ملنی ہی چاہئیں۔ کیسی سزائیں؟ مثلاً اگر لڑکی جہیز میں سلائی مشین نہ لائے تو اس کا ہاتھ توڑا جائے۔ اگر وہ الماری نہ لائے تو اس کی آنکھ پھوڑی جائے۔ا گر وہ ڈنر ٹیبل نہ لائے تو اس کا کان کاٹ لیا جائے۔ اس نرخ نامہ کے بہ موجب اگر امرتسر کے نوجوان نے ٹیلی ویژن کی خاطر اپنی بیوی کا گلا گھونٹ دیا ہے تو یہ مروجہ نرخ کے عین مطابق ہے۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں ’’ہمیں اس نوجوان کی یاد آرہی ہے جس نے اپنے ہونے والے خسر کو لکھا تھا کہ اسے جہیز میں ایک موٹر‘ ایک مکان‘ ایک ٹیلی ویژن سیٹ اور ایک ریفریجریٹر دیا جائے اور جہیز کی ان چیزوں کو دینے کے بعد بھی اگر آپ اپنی لڑکی کو دینا چاہیں تو ضرور دے دیں ورنہ لڑکی بغیر بھی میں ہنسی خوشی گزارہ کر لوںگا۔‘‘

امتحانات میں نقل کرنے کا رجحان پاکستان کی طرح بھارت میں بھی ہے۔ چنانچہ ایک سال نقل کرتے طلبہ کو پکڑا گیا تو طلبہ نے امتحانات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس خبر پر مجتبیٰ حسین نے ایک مزے دار کالم باندھا۔ انہوں نے نقل کرنے والے طلبہ کی حمایت میںلکھا کہ:

’’بہ خدا نقل مارنا بڑی شجاعت کا کام ہوتا ہے۔ ہم بھی زمانۂ طالب علمی میں امتحان ہال میں نقل مار چکے ہیں۔ ہم اس صفائی سے نقل مارتے تھے کہ نگراں ہمارے سامنے سے ہزاروں بار گزرتا تھا مگر اسے پتا ہی نہ چلتا تھا کہ ہم نے ’’نصابی شیروانی‘‘ پہن رکھی ہے۔ ہم یہ راز کی بات بھی آپ کو بتلا دیں کہ ہم صرف امتحان کے زمانہ میں شیروانیاں پہنتے تھے اور جتنے پرچے ہوتے تھے اتنی ہی شیروانیاں بھی سلوا لیتے تھے۔ معاشیات کی شیروانی‘سماجیات کی شیروانی‘ سیاسیات کی شیروانی‘ اردو کی شیروانی اور نفسیات کی شیروانی۔ ہم امتحان کی تیاری شروع کرنے سے پہلے شیروانیوں کی سلائی کا آغاز کر دیتے تھے اور سچ پوچھیے تو شیروانیوں کی سلوائی ہی امتحان کی اصل تیاری ہوتی تھی۔ شیروانیاں سل کر آتیں تو ہم اطمینان سے امتحان کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ رات رات بھر جاگ کر ان شیروانیوں کے اندرونی حصوں پر نصابی کتابوں کی منتقلی کا کام شروع کر دیتے تھے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہم امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ان شیروانیوں کو بڑے مہنگے داموں میں فروخت کرتے تھے اور ہمارے جونیئرز انہیں بڑے اشتیاق سے خریدتے تھے کہ طالب علم ایسی شیروانی خرید لے تو پھر اسے نصابی کتاب خریدنے کی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔جب ہائی اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک شیروانی پر پوری تاریخ ہند درج ہوتی تھی۔ ایک دامن پر تاریخ کا ’’مغل دور‘‘ ہوتا تھا اوردوسرے دامن پر ’’موریہ خاندان‘‘ کے کارنامے درج ہوتے تھے۔ آستینوں پر انگریزوں کی کارستانیاں ہوا کرتی تھیں۔ سینہ کے پاس والے حصہ پر راجا پورس اور سکندر اعظم میں لڑائی جاری رہتی تھی اور ہمارا دل دھڑکتا رہتا تھا۔ ایک بار ہم تاریخ کے پرچے میں فیل بھی ہوگئے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہمارے ملازم نے ’’ہماری نصابی شیروانی‘‘ غلطی سے دھوبی کو ڈال دی تھی۔‘‘

ان مزے دار اقتباسات سے آپ نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری کس معیار کی ہوتی ہے۔ طنز و مزاح میں ان کی خدمات پر 1984ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ‘ دہلی نے انہیں غالب انعام برائے طنز و مزاح سے نوازا۔ بھارتی اردو جریدے ’’شگوفہ‘‘ نے 1987ء میں ضمیمہ خصوصی شمارہ ’’مجتبیٰ حسین نمبر‘‘ بھی شائع کیا۔ (احتیاطاً عرض کر دیں کہ ہمارے ہاں بھی اردو کے ایک نقاد مجتبیٰ حسین گزرے ہیں۔ اس لیے یہ نام کہیں پڑھیں یا سنیں تو یہ پوچھنا نہ بھولیں کہ کون سے مجتبیٰ حسین؟ پاکستان والے یا بھارت والے؟) مجتبیٰ حسین نرے مزاح نگار نہیں‘ نہایت فعال اور سرگرم ادیب ہیں۔ انجمن زندہ دلانِ حیدرآباد کے نام سے ایک تنظیم قائم کرکے بھارت کے شہروں میں طنز و مزاح کانفرنسوں کا انعقاد بھی کر چکے ہیں۔ 1988ء میں وہ ایک پاکستانی طنز و مزاح کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے تو ہم نے ان سے سنجیدہ سی گفتگو کی۔

طاہر مسعود: آپ پہلی بار پاکستان آئے ہیں۔ ممکن ہے یہاں کی گلیاں اور محلے آپ کے لیے اجنبی ہوں لیکن یہاں کے ادب اور یہاں لکھا جانے والا ادب یقینا آپ کے لیے نامانوس نہیں ہوں گے۔ اس حوالے سے گو بڑا رسمی سا سوال سہی لیکن میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے تاثرات کیا ہیں؟

مجتبیٰ حسین: ہندوستان میں رہتے ہوئے میں پاکستانی مزاح نگاروں‘ کہانی کاروں‘ شاعروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا رہا ہوں۔ مزاح نگاری کا جہاں تک تعلق ہے میرا اپنا خیال یہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں آپ کے ہاں مزاح نگاری کی روایت زیادہ مضبوط ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے بہت سے لوگ اختلاف کریں لیکن میری رائے میں پاکستان میں بڑے مزاح نگار پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً مشتاق احمد یوسفی جو اب کم لکھ رہے ہیں۔ کرنل محمد خان جو کبھی کبھی لکھتے ہیں‘ شفیق الرحمن تو شاید لکھنا ہی ترک کر چکے ہیں۔ سید ضمیر جعفری میں البتہ اب بھی تازگی ہے۔ محمد خالد اختر مجھے بے حد پسند ہیں حالانکہ وہ سوچتے انگریزی میں اور لکھتے اردو میں ہیں۔ چونکہ میں ایک طویل عرصہ تک اخبار سے وابستہ رہا ہوں اس لحاظ سے پاکستانی اخبارات بھی باقاعدگی سے میرے زیر مطالعہ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ آپ کے ’’جنگ‘‘ اخبار میں شوکت تھانوی‘ ابنِ انشا اور ابراہیم جلیس کے ایک ساتھ کالم چھپتے تھے۔ انہیں پڑھ کر بہت لطف آتا تھا۔ یوں بھی یہاں کالم نگاری کی روایت کو چراغ حسن حسرت‘ عبدالمجید سالک اور مجید لاہوری نے اتنا مضبوط بنا دیا تھا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے راستہ ہم وار تھا۔ اس وات جو لوگ کالم لکھ رہے ہیں‘ ان میں انتظار حسین اور منو بھائی کے کالم مزاحیہ کالم کے زمرے میں نہیں آتے۔ کسی زمانہ میں احمد ندیم قاسمی ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے تھے‘ ان کے کالم سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا کیوں مجھے خود بھی کالم نویسی کرنی تھی۔ مجھے ان کے کالم بہت پسند بھی تھے لیکن اب ادھر میں نے ان کے کالم دیکھے تو مجھے محسوس ہوا کہ انکے ہاں Readability کم ہو گئی ہے۔ شاید ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ ادبی کالم کے میدان میں آپ کے ہاں مشفق خواجہ کا کوئی حریف نہیں ہے۔ ان کے کالم ہندوستان کے متعدد رسائل و اخبارات میں نقل ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ ہندوستانی ادیبوں کے رجحانات پر بہت گہری ہے۔ عطا الحق قاسمی باقاعدہ تو لکھتے نہیں ہیں اس کے باوجود ابن انشا اور ابراہیم جلیس جیسے کالم نگاروں کی جگہ اب بھی خالی ہے اور ان جیسے کالم نگار ابھر کر سامنے نہیں آئے۔

طاہر مسعود: ہندوستان کے اردو اخبارات میں کالم نگاری کیسی ہو رہی ہے؟

مجتبیٰ حسین: ہندوستان میں اردو کالم نویسی بالکل ختم ہو گئی ہے۔ آخری آدمی فکر تونسوی تھے جن کا کالم ’’پیاز کے چھلکے‘‘ ’’ملاپ‘‘ اخبار میں شائع ہوتا تھا اور صرف ان کے کالم کی وجہ سے اس اخبار کی پانچ چھ ہزار کاپیاں فروخت ہو جایا کرتی تھیں۔

فکر تونسوی عام آدمی کے لیے لکھتے تھے۔ اس کے دکھ درد کو بیان کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ’’ملاپ‘‘ اخبار کی اشاعت ایک دم نیچے آگئے۔ فکر تونسوی کے کالم کی ادبی حیثیت کچھ نہیں تھی لیکن وہ پڑھے جانے والے کالم نگار تھے۔ آپ کے ہاں کالموں کی ایک ادبی قدر و قیمت بھی ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مخصوص سیاسی اور معاشرتی حالات میں اپنی بات اشاروں اور کنایوںمیں کہنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے کالموں میں ادبی رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کھل کر سب کچھ کہہ سکتے ہیں اور جب بات کو راست طریقے سے کہا جائے تو فنکارانہ اظہار دب جاتا ہے۔

طاہر مسعود: عام طور پر اخباری کالم وقتی اور ہنگامی موضوعات پر لکھے جاتے ہیں اور گزر جانے پر باسی ہو جاتے ہیں۔ لیکن کالموں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جس کی تازگی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ آپ کے خیال میں وہ کون سے عناصر ہیں جو ایک کالم کو مستقل دل چسپی کا حامل بنا دیتے ہیں؟

مجتبیٰ حسین: یہ صحیح ہے کہ صحافتی کالم روز مرہ کے موضوعات پر لکھے جاتے ہیں اور موضوع کی اہمیت کے ختم ہوتے ہی کالم بھی اپنا اثر کھو بیٹھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے پچاس برس پہلے جب ہندوستان میں ٹریفک سگنلز نصب کیے جا رہے تھے تو ان کی بڑی شدید مخالف ہوئی تھی اور عام رائے یہ تھی کہ یہ سگنلز اپنی سرخ بتیوں کے ذریعے ٹریفک کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ اس موضوع پر رائے عامہ کے زیر اثر میں نے بھی کئی کالم لکھے جنہیں اس وقت بہت سرایا گیا۔ لیکن اب میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنے دو کالم نہایت احمقانہ محسوس ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود لکھنے والے کی اپنی نگاہ میں اپنے کالموں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اب بھی میں عبدالمجید سالک صاحب کے کالم پڑھتا ہوں تو اس میں ایک ادبی شان دکھائی دیتی ہے۔ چراغ حسن حسرت کے بعض کالموں کی تازگی آج بھی باقی ہے۔

طاہر مسعود: میں آپ سے یہی پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کالموں میں تازگی کیسے باقی رہتی ہے؟ کیا ایسے موضوعات پر لکھنے سے جن میں دل چسپی کا عنصر ہمیشہ باقی رہے یا ان موضوعات کو برتنے کے طریقہ کار سے؟

مجتبیٰ حسین: تازگی لکھنے والے کے زاویۂ نگاہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر زاویۂ نگاہ وسیع ہو تو تحریر میں زندگی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے آپ دیکھیں گے کہ کالم نگاروں کے بہت محدود تعداد میں کالم ایسے ہوتے ہیں جن میں تازگی کا عنصر باقی رہتا ہے۔ آپ کے ہاں کالم مضمون کی صورت میں لکھے جاتے ہیں مثلاً ابن انشا کے بہت سے کالم ایسے ہیں جودرحقیقت مضمون ہیں اور انہیں کالم قرار دینا درست نہیں ہوگا۔

طاہر مسعود: آپ کالم اور مضمون میںکیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ کیا محض یہ کہ کالم مختصر ہوتا ہے اور مضمون طویل ہوتا ہے؟

مجتبیٰ حسین: طوالت ہی واحد معیار نہیں ہے۔ بعض مضمون چھوٹے بھی ہو سکتے ہیں پھر کالم کی طرح مضمون بھی آپ روز مرہ کے موضوعات پر لکھ سکتے ہیں مثلاً میری کتابوں میں جتنے مضامین ہیں ان میں سے کوئی بھی اخبار میں شائع نہیں ہوا۔

طاہر مسعود: اگر صرف مزاح کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو آپ کے خیال میں پاکستان اور ہندوستان کے مزاح اور مزاح کو برتنے کے رویے میںکیا فرق پایا جاتا ہے؟

مجتبیٰ حسین: آزادی کے بعد دونوں ممالک میں مزاح لکھنے کے رویے تقریباً وہی ہیں جو تقسیم سے پہلے تھے۔ سوچ کا انداز وہی ہے‘ سیاسی اور معاشرتی مسائل مختلف ہیں لیکن رویے زندگی کے تعلق سے دکھوں کا جس طرح ادراک کرتے ہیں وہ بہت مختلف نہیں۔ مگر ہمارے ہاں سیاسی موضوعات اردو میں کم اور ہندی میں زیادہ ہیں۔ ہندی کے ادیب سیاسی موضوعات کی طرف راغب ہیں۔ اردو کے لکھنے والے سیاسی موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن ان کے طنز میں شدت نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ممکن ہے وہ معاشرے میں پوری طرح Involved نہ ہوں۔ مختصر یہ کہ سیاسی طنز کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہندی میں اوچھا قسم کا طنز ہے۔ آپ کو پتا ہے ہمارے ہاں جہیز کی لعنت پر اکثر اموات ہو جاتی ہیں۔ ایک واقعہ تو ایسا ہول ناک ہوا تھا کہ تین لڑکیوں نے جہیز نہ ہونے کی بنا پر خودکشی کر لی تھی۔ مجھے اس سانحہ نے دہلا دیا لیکن میں نے اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا نہ اردو کے کسی اور مزاح نگار نے اس پر لکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے سلسلے میں ہم لوگ بے حسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں سیاسی طنز کہنیا لال کپور سے شروع ہوتا ہے۔

طاہر مسعود: شوکت تھانوی کی ’’سودیشی ریل‘‘ بھی سیاسی طنز کی ایک اعلیٰ مثال ہے؟

مجتبیٰ حسین: جی ہاں لیکن دیکھا جائے تو ’’سو دیشی ریل‘‘ سیاسی طنز کی منفی مثال ہے کیوں کہ طنز انگریزی اقتدار کے حق میں تھا لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ شوکت تھانوی نے پہلی بار اپنے معاشرے کا مذاق اڑانے کی کوشش کی‘ یعنی اپنے اوپر ہنسنے کی ایک کوشش۔ اکبر الٰہ آبادی کو دیکھیے ان کی شاعری سرسید کی تحریک کے خلاف تھی۔ انہوں نے ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے یہ کام جس فن کارانہ طریقے سے انجام دیا‘ اصل اہمیت اس کی ہے۔ پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی دونوں بڑے مزاح نگار ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جتنا بھی لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے۔ ادبی لحاظ سے تعین کریں تو پطرس اور رشید احمد صدیقی کے بعد مشتاق احمد یوسفی ہی کا نام آئے گا لیکن یہ تعین کرے کون۔ اردو میں طنز و مزاح کا کوئی ناقد ہی نہیں ہے۔

طاہر مسعود: اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سنجیدہ سطح پر طنز و مزاح کو دوسرے درجے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ مزاح نگاروں کو ’’انٹرٹینر‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

مجتبیٰ حسین: یہ بات بالکل درست ہے‘ ہمارے ہندوستانی نقاد شمس الرحمن فاروقی طنز و مزاح کو اس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اس پر سنجیدگی سے کوئی بات کی جائے لیکن اب ان کا رویہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ طنز کا عہد ہے۔ معاشرے میں جتنے تضادات پائے جاتے ہیں کہ ان کی نشان دہی کے لیے طنز سے بہتر کوئی اور صنف نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہنسنے ہنسانے والوں کو ابتدا ہی سے انٹرٹینر سمجھنے کی روایت رہی ہے۔

طاہر مسعود: نقادوں کے اس رویے کی آپ کیا توجیہ کریں گے؟

مجتبیٰ حسین: مسئلہ یہ ہے کہ جو صاحب بھی ایم اے پاس کرکے اردو کے استاد ہو جاتے ہیںوہ لازماً نقاد بھی بن جاتے ہیں۔ حالانکہ استاد انگریزی کے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ تو نقاد نہیں بنتے۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں ہمارے انگریزی کے ایک استاد تھے دورائے سوامی‘ انہوں نے ایک بھی تنقیدی مضمون نہیں لکھا لیکن استاد وہ بڑے تھے۔ ان کا لیکچر سننے کے لیے کلاس روم میں طلبہ کی ایک بھیڑ اکٹھی ہو جاتی تھی لیکن اب حال یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اردو پڑھانے والاہر ٹیچر فلیپ نگاری شروع کر دیتا ہے۔

طاہر مسعود: لیکن ان استادوں کے پاس فلیپ لکھوانے کے لیے بھی تو ادیب ہی جاتے ہیں۔

مجتبیٰ حسین: ہاں ادیب ہی انہیں نقاد بناتے ہیں اور پھر ادیب ہی ان کی شکایات بھی کرتے ہیں۔ ہندوستان کی صورت حال میں آپ کو بتائوں نقادوں نے تحسین باہمی کو اپنا مذہب و ایمان بنا لیا ہے۔ پھر اکیڈیمیوں نے صورت حال اور برباد کر رکھی ہے۔ حکومت ان اکیڈیمیوں کو بے تحاشا پیسہ دیتی ہے اور ان اکیڈیمیوں پر چند پروفیسر حضرات قابض ہیں۔ ان اکیڈیمیوں سے انعام اور گرانٹ حاصل کرنے کے لیے ادیب‘ نقاد حضرات ان پروفیسروں کے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔ ان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ان اکیڈیمیوں کی کمیٹی میں شامل ہو جائیں۔ حکومت سنجیدگی سے کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن خود اردو والے آپس کے جھگڑوں میں الجھے رہتے ہیں۔سب اپنے اپنے گروپ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اردو میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب چھپتی ہو جسے انعام نہ ملتا ہو۔ ہماری اترپردیش اکیڈمی تو سال بھر میں ستر‘ اسی کتابوں کو ایوارڈ دیتی ہے۔ جب اکیڈمی میں کتاب داخل کرنے کی تاریخ آتی ہے تو پھر کوئی پریس خالی نہیں رہتا کیوں کہ صرف انعام حاصل کرنے کے لیے دھڑا دھڑ کتابیں چھپنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بھی جینوئن ناقد نہیں ابھرتا۔ شمس الرحمن فاروقی جیسے نقاد بہت کم ہیں جو لکھتے پڑھتے ہیں اور جلسے جلوس‘ سلیکشن کمیٹی وغیرہ میں جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ باقی جتنے تدریسی نقاد ہیں وہ صبح سے شام تک لکھنے پڑھنے کا کام چھوڑ کر اسی گٹھ جوڑ میں لگے رہتے ہیں۔

طاہر مسعود: کہتے ہیں کہ ہنسی کے پیچھے غم کا سایہ ہوتا ہے۔ ایک مزاح نگار کی حیثیت سے آپ کا خیال ہے؟

مجتبیٰ حسین: میں بنیادی طور پر بے حد غمگین آدمی ہوں۔ میں نے محض اتفاقیہ طور پر سیاست حیدرآباد میں کالم نگاری شروع کی۔ اس کے لیے میں نے باقاعدہ ریاض کیا۔ اردو کے تمام مزاح نگاروں کو پڑھا‘ پاکستانی اخبارات میں چھپنے والے کالم نگاروں کا مطالعہ کیا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا غم سماج کا غم بنے۔ آپ حیرت کریں گے کہ میں نے ابتدا میں جتنے افسانے لکھے تھے وہ سب کے سب موت کے موضوع پر تھے۔ پروفیسر حسن عسکری (لندن) نے مجھے فلسفے کی طرف راغب کیا۔ ان کے زیر اثر میں نے نطشے اور برگساں وغیرہ کو پڑھا لیکن شاید ہضم نیں کر پایا۔ نطشے کے فلسفہ نے مجھے بہت غمگین مزاج بنا دیا۔ ان دنوں میں دفتر سے ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد کرسچین قبرستان میں جا کر بیٹھا رہتا تھا۔ اسی زمانے میں‘ میں نے موت کے موضوع پر دس افسانے لکھے پھر میں نے اپنی شخصیت کو منقسم کیا۔ میری تحریروں میں اب بھی غم جھلک جاتا ہے۔ ’’کتاب نما‘‘ میں‘ میں نے لکھا کہ جب میری چھ سالہ بیٹی کا انتقال ہوا تو اسے دفنانے کے بعد میں نے مزاحیہ کالم لکھا۔ لکھنے کی عادت ہو گئی تھی اس لیے لکھنا پڑا کہ پڑھنے والوں کو اس سے محروم نہ کروں اور کالم ایسا تھا کہ ایک دن بھی رک نہیں سکتا تھا۔ جمیل الدین عالی صاحب نے یہ پڑھ کر مجھے ناراضی کا ایک خط لکھا اور اسے ایک سنگ دلانہ فعل قرار دیا لیکن ظاہر ہے میں کیا کرسکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح میں نے کالم لکھنے کے لیے خود کو تیار کیا تھا۔ میری رائے میں مزاح نگار بہت غمگین آدمی ہوتا ہے۔ابن انشا اور یوسفی صاحب کے پاس آپ کو اس کی جھلک نظر آئے گی۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ سچا مزاح سچے غم کو انگیز کر لینے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔

طاہر مسعود: آپ کے لکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ لکھنے میں ارادے اور منصوبہ بندی کا دخل زیادہ ہوتا ہے یا کسی خاص لمحے کی گرفت میں آکر آپ لکھنا شروع کر دیتے ہیں؟

مجتبیٰ حسین: مختلف صورتیں ہوتی ہیں‘ کبھی موضوع اچانک مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘ کبھی اچھے جملوں کے حوالے سے موضوع مل جاتا ہے اور کبھی کوئی خاص واقعہ متاثر کر دیتا ہے۔ مثلاً مجھے ایک مرتبہ بمبئی کے جلسے میں جانا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے میں حیدرآباد سے ٹرین میں پہنچا۔ اگلے دن اجلاس تھا۔ اخبار سے پتا چلا کہ ریلوے منسٹر نے عام مسافر کی طرح تھرڈ کلاس میںسفر کیا۔ ان ہی منسٹر صاحب کو ہماری کانفرنس کی صدارت کرنی تھی۔ چنانچہ اس موضوع پر میں نے چار‘ پانچ گھنٹے میں مضمون مکمل کر لیا۔ او رجب کانفرنس میں سنایا تو سے بہت پسند کیا گیا۔ اپنی سرکاری ملازمت کی وجہ سے بھی بعض اوقات لکھتے وقت محتاط رہنا پڑتا ہے۔

طاہر مسعود:کیا آپ کو لکھنے میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے جیسا کہ یوسفی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک ایک جملہ کو دس‘ دس مرتبہ کاٹتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں۔

مجتبیٰ حسین: اسی لیے یوسفی صاحب کو اب تک ہندی والے ترجمہ نہیں کرسکے ہیں کیوں کہ ان کے مزاح میں زبان کا مزاح گھلا ملا ہوتا ہے۔ لکشمی چندرگپت جو ٹائمز آف انڈیا کے لیے ترجمہ کرتے ہیں‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ یوسفی کا ترجمہ کرتے وقت میں بے بس ہو گیا کیوں کہ اردو زبان سے ان کا ہیومر جڑا ہوا ہے۔ ابن انشا کو تو ہندی میں ترجمہ نہیں صرف نقل کرنا پڑتا ہے۔ یوسفی صاحب مضمون میں جابجا اشعار کی پیروڈی کرتے ہیں مثلاً شبلی نعمانی کے عطیہ فیضی سے عشق کے حوالے سے انہوں نے اقبال کا یہ مصرع لکھا ہے کہ:

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اب جو شخص اس کے پس منظر سے واقف نہیں ہوگا‘ اس کے لیے یوسفی صاحب کی تحریر کا ترجمہ ممکن نہیں ہوگا۔ یوسفی صاحب کا تو انگریزی میں بھی ترجمہ کرنا مشکل ہے۔

طاہر مسعود: آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یوسفی صاحب کے یہاں کرافٹ پر بہت زور ہے۔

مجتبیٰ حسین: کرافٹ مین شپ کی اپنی اہمیت ہے۔ راجندر سنگھ بیدی ایک افسانے کو بیس مرتبہ لکھتے تھے۔ میں کرشن چندر کے بہت قریب رہا ہوں وہ اپنی تحریروں پر اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ صبح دس بجے تک روزانہ لکھتے تھے اور اس دوران ان کے کمرے میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ لکھتے تھے اور لکھ کر دے دیتے تھے‘ مسودے کو دوبارہ پڑھنے کی انہوںنے کبھی زحمت نہیں کی۔

طاہر مسعود: ابراہیم جلیس مرحوم سے آپ کے دو رشتے ہیں ایک بھائی کا دوسرے قلم کار کا‘ ان کی یادوں کے حوالے سے آپ کچھ کہنا پسند کریں گے؟

مجتبیٰ حسین: ظاہر ہے کہ میں نے سب سے پہلے ابراہیم جلیس کو پڑھا‘ ان کے ہاں بے پناہ طنز تھا۔ کرشن چندر اور ابراہیم جلیس میں مجھے طنز یکساں سطح پر نظر آتا ہے۔ وہ طنز مجھے بنیادی طور پر پسند بھی تھا لیکن مجھے حالات نے مجبور کیا کہ میں مزاح کی طرف جائوں اور اس لیے میں نے طنز کے بجائے مزاح کا راستہ اختیار کیا۔

طاہر مسعود: ہندوستان میںجو لوگ مزاح لکھ رہے ہیں‘ آپ ان میں کس کس کو اہمیت دیتے ہیں؟

مجتبیٰ حسین: پچیس برسوں میں ہندوستان میں مزاح کا ایک خاص ماحول بنا ہے۔ حیدرآباد دکن میں ہم نے زندہ دلانِ حیدرآباد کے نام سے ایک تنظیم بنائی ھی اور 1966ء میں ایک طنز و مزاح کانفرنس منعقد کی۔ نثر کو اسٹیج پر پیش کرنے کا تجربہ اس سے پہلے نہیں کیا گیا تھا۔ دس پندرہ ہزار کے مجمع میں طنز و مزاح کے مضامین پڑھے گئے۔ کرشن چندر اس تجربے سے بہت متاثر ہوئے۔ کانفرنس کا افتتاح مخدوم محی الدین نے کیا تھا۔ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ ان مسخروں کو کیوں اہمیت دی جا رہی ہے۔ مخدوم صاحب پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں۔ سنجیدہ شاعروں نے اس کانفرنس کا باقاعدہ بائیکاٹ کیا۔ لیکن یہ کانفرنس کامیاب رہی پھر یہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوئی اور اب پاکستان میں طنز و مزاح کانفرنس ہوئی جس میں شرکت کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔ ہماری یہ کانفرنس ہندی والوں کو بہت پسند آئی‘ انہوں نے 1968ء میں ’’قہقہے‘‘ کے نام سے کانفرنس ہوئی۔ ہماری کانفرنسوں میں لوگ ٹکٹ خرید کر آتے ہیں۔ یہی حال مشاعروں کا ہے جس میں بارہ‘ پندرہ ہزار کا مجمع ہوتا ہے۔

جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ مزاح کون لوگ لکھ رہے ہیں تو ایک تو ہمارے یوسف ناظم صاحب ہیں جنہوں نے بہت لکھا ہے پھر ہم نے بہت سے سنجیدہ لکھنے والوںکو مزاح لکھنے کی طرف مائل کیا ہے۔ نئے لکھنے والوں میں آپا انجم‘ نرمیندر لوتھر‘ رشید قریشی‘ پرویز اللہ مہدی اور فیاض احمد فیاض وغیرہ ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں ہندوستان سے زیادہ اچھا مزاح لکھنے والے موجود ہیں ہاں آپ نے پوچھا تھا کہ پاکستانی اور ہندوستانی مزاح میں کیا فرق ہے؟ میرے خیال میں ہندوستان میں طنز و مزاح عام فہم ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ وہاںکے لسانی حالات بھی ایسے ہوتے جا رہے ہیں مثلاً یوسفی صاحب کی طرح کی زبان اب وہاں نہیں لکھی جاسکتی۔ ابراہیم جلیس‘ ابن انشا کی زبان چل جائے گی۔ پطرس کی زبان بھی لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن رشید احمد صدیقی کی زبان اب نہیں لکھی جاسکتی۔ خامہ بگوش (مشفق خواجہ) ہندوستان کے مقبول ترین کالم نگار ہیں۔

طاہر مسعود: کوئی اور بات جو آپ کہنا چاہیں؟

مجتبیٰ حسین: پاکستان میں انشایئے پر جو بحث جاری ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔

حصہ