بڑے سکے ہوں یا چھوٹے، ہر ایک کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک کو ہیڈ (Head) دوسرے کو ٹیل (Tail) کہتے ہیں۔ اس ہیڈ اور ٹیل میں ایک پُرمعنی پیغام موجود ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پیسے کے بغیر انسانی ضروریات کی کوئی چیز خریدی نہیں جا سکتی۔ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک، صحت سے لے کر خوراک اور دیگر تمام ضروریات کے حصول کا دار و مدار پیسے پر ہے۔ پیسے کے بغیر انسان پانی پت کا میدان ہے جس کو جو چاہتا ہے روند ڈالتا ہے۔ اب آتے ہیں سکے کے اُس رُخ کے پیغام کی طرف جس کو ہیڈ کہتے ہیں۔ ہیڈ ہر انسان سے مخاطب ہوکر یہ کہتا ہے کہ اگر میں تیرے پاس ہوں تو تجھے دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا حق ہے، تجھ کو دنیا کی ہر آسائش تیری خواہش کے مطابق میسر ہوگی، تُو معاشرے کا معتبر آدمی بن جائے گا، لوگ تجھے جھک جھک کر سلام کریں گے، تیرے بیوی بچے تیری نہ صرف فرماں برداری کریں گے بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر تجھ سے محبت کا اظہار کریں گے، رشتے دار تیری آؤ بھگت میں لگے رہیں گے، تیرا حلقۂ یاراں وسیع ہوگا، تُو اچھے اور پُرآسائش مکان میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے گا۔ تیری اولاد اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرے گی۔ اگر تُو سیاست کے میدان میں اترے گا تو ہر پارٹی والے تجھے ٹکٹ دینے پر آمادہ ہوں گے، عوام بھی تجھ کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیں گے، اور ہر وقت ضرورت مندوں کی بھیڑ تیرے دروازے پر سائل کی طرح جمع رہے گی، اور جب تُو وزیر بن جائے گا تو تیری دولت میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوگا، تیرا علاج یورپ اور امریکا میں ہوگا۔ جب تُو اپنے گھر اور دفتر سے نکلے گا تو ہر طرف ’’ہٹو بچو‘‘ کی آوازیں، اور آگے پیچھے محافظوں کی نگرانی ہوگی۔ میں تیرے اندر احساسِ برتری کا ایسا غرور بھر دوں گا کہ تُو اپنے سے کسی کمتر کو آدمی ہی نہیں سمجھے گا۔ لوگوں کے اخلاق کو ان کی مجبوری سمجھے گا۔ پھر خود کو بھگوان سمجھنے لگے گا۔ کسی کی بات سننا تجھے گوارہ نہیں ہوگا۔
میں نے ہی شداد سے دنیا میں جنت بنوائی، نمرود اور فرعون سے خدائی کا دعویٰ کرایا اور قارون کو دولت کے گھمنڈ میں مبتلا کیا۔ تُو میری بدولت اللہ سے جنت کا سودا بھی کرسکتا ہے۔ جب تُو اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کے راستے میں نہیں خرچ کرے گا تو ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! اللہ نے جو رزق تم کو دیا ہے اس کے راستے میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن ( آ خرت) آجائے جب کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی، نہ کوئی رشتے داری کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش ہوگی ۔‘‘ (البقرہ)
مجھ سے محبت کرے گا تو اپنی آخرت برباد کرے گا، مجھ کو تقسیم کرے گا تو اس میں اور اضافہ ہوگا۔ تُو میرے ذریعے مظلوم و بے سہارا لوگوں کی دعائیں حاصل کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔ ذرا سورہ الماعون کی اس وعید پر غور کرلے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’کیا تم نے آخرت کو جھٹلانے والے کو دیکھا ہے، یہ وہی تو ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتا۔‘‘
پس اب یہ بات واضح ہوگئی کہ میں دنیا کی کھیتی میں بویا جانے والا وہ بیج ہوں جس کے ذریعے یا تو جہنم کما لے یا جنت۔ ہاں یہ بات سمجھ لے اگر تُو نے مجھے دنیا کے راستے میں خرچ کیا ہے تو میں تیرے پاس صرف تیری زندگی تک ہوں، اور اگر تُو نے مجھے اللہ کے راستے میں خرچ کیا ہے تو تیری قبر اور حشر میں ساتھ دوں گا۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الااللہ
اب سکے کے دوسرے رُخ یعنی ٹیل کی گفتگو سنتے ہیں۔ یہ سکے کا وہ رُخ ہے جو بازی لگانے والوں کو شکست کا راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر میں تیرے پاس نہیں ہوں تو تُو اپنے گھر اور باہر دونوں جگہ غیر اہم ہوجائے گا۔ تیرے بیوی بچے ہر وقت تجھ سے کبیدہ خاطر رہیں گے، تُو غربت اور معاشی تنگی کا شکار ہوکر ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا مرکز بن جائے گا۔ تیرے رشتے دار اور دوست احباب تجھ سے نظریں چرائیں گے، بچوں کی تعلیم اور گھر کی ضروریات کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی اور ہوسکتا ہے تُو جوانی میں بوڑھا نظر آنے لگے۔
تیری سماجی حیثیت بھی نہیں ہوگی، تُو سیاسی لیڈروں کا آلۂ کار بن کر رہ جائے گا۔ مگر یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لے کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور آخرت کی کامیابی دائمی ہے، تو پھر صبر و قناعت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھ۔ اپنے سے خوش حال اور متمول لوگوں کو دیکھ کر کبیدہ خاطر نہ ہو، رب نے جتنا دیا ہے اس پر قناعت کر، اپنی چادر میں پاؤں پھیلا، اس سے تجاوز نہ کر۔ کسی غیر ضروری چیز یا خواہش کے لیے کبھی قرض نہ لے، کبھی خود کو احساسِ کمتری میں مبتلا نہ کر، مگر جائز طریقے سے میرے حصول کی جدوجہد جاری رکھ، کیوں کہ محنت میں عظمت ہے۔
یہ تو سکے کے دونوں رُخ کی گفتگو ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا میں دو لوگ حکمرانی کرتے ہیں۔ ایک وہ جو صاحبِِ مال ہیں، دوسرے وہ جو صاحبِ سیف ہیں۔ اب تک تو یہی دیکھا گیا ہے کہ صاحبِِ علم چاکری کرتے ہیں اور اہلِ اقتدار کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ارسطو ہو یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان، قطیبہ بن مسلم ، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم… سب اہلِ اقتدار کے حکم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مگر زمانہ انہی کو اپنے سر کا تاج بناتا ہے۔
زر آدمی کو یا تو دنیا کی ہوس میں مبتلا کردیتا ہے یا پھر اس کو غنی کرکے کبھی عثمان غنیؓ اور کبھی حاتم طائی بنا دیتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر تم کو سونے کا ایک پہاڑ مل جائے تو تم دوسرے کی خواہش کرو گے۔ ہوس کا پیٹ تو قبر میں کی مٹی سے ہی بھرے گا۔‘‘
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
٭
زندگی تجھ کو پانے کے لیے
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
٭
جیتے ہیں آرزو میں جینے کی
زندگی ملتی ہے پر نہیں ملتی
دنیا پرست سے بڑھ کر کوئی خود غرض نہیں ہوتا۔ اس کا ضمیر مر جاتا ہے۔ یہ اپنی عزت، آبرو، حتیٰ کہ وطن بھی بیچنے میں جھجک محسوس نہیں کرتا۔ یہ شتر بے مہار کی طرح زندگی گزارنے کا عادی ہوتا ہے۔
مگر با ضمیر اور خوفِ خدا رکھنے والے کا حال رب راکھا کی طرح ہوتا ہے۔ تنگی میں صبر اور فراخی میں شکر ادا کرتا ہے۔ وہ دعا کرتا ہے کہ:
اے دلِ زندہ کہیں تُو نہ مر جائے
یہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے
٭
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرتِ صحابہؓ کی روشنی میں زر کے شر اور اس میں چھپے خیر کا جائزہ لیں گے۔
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے تمہارے بارے میں جس فتنے کا خدشہ ہے وہ فتنہ مال ہوگا۔‘‘ قرآنِ مقدس میں اللہ نے متعدد سورتوں میں مال اور اولاد کے فتنے سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ مال اور اولاد کو اللہ کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سادہ زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود پوری زندگی اس پر عمل کرتے رہے۔ آپ ؐجب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپؐ کے حجرے میں چٹائی، مشکیزہ اور نو تلواروں کے سوا کوئی دوسری چیز نہ تھی۔ خلفائے راشدین کی پوری زندگی اسی سادگی سے عبارت تھی۔
فاتح بیت المقدس خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیت المقدس میں داخل ہورہے تھے تو آپؓ کا غلام اونٹ پر سوار تھا اور آپؓ اونٹ کی مہار پکڑ کر چل رہے تھے۔ فتح ایران کے بعد جب آپؓ کو معلوم ہوا کہ سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کسریٰ کے محل میں ٹھیرے ہوئے ہیں تو آپؓ نے حضرت بلالؓ کو بھیج کر محل کو اس پیغام کے ساتھ آگ لگوا دی کہ ’’مجاہدین خیموں میں اور سالار محل میں ٹھیرے، یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
عرب کے بادہ نشینوں نے قیصر و کسریٰ کی سلطنت کو پیروں تلے روندا، مگر جب یہ محلات کے مکین ہوئے تو باج گزار عیسائی ریاستوں نے جزیہ دینے سے منع کردیا۔ مسلمانوں کی فتوحات کے بعد مدینے میں مالِ غنیمت کی وجہ سے مسلمان اتنے زیادہ خوش حال ہوگئے کہ لوگ سونے کی تھیلیاں تقسیم کرنے کے لیے لے کر نکلتے مگر کوئی لینے والا نہیں تھا۔
ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ صحابہؓ نے پوچھا آپ کیوں زار و قطار رو رہے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا ’’آئو دیکھو میرے گھر میں ہر طرف سونا چاندی پڑے ہوئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اللہ روزِ محشر انہیں جہنم کی آگ میں تپا کر کہیں میرے جسم کو نہ داغے۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’تباہی اور بربادی ہے ان کے لیے جو منہ در منہ جھٹلاتے ہیں اور گن گن کر مال جمع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے پاس ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (سورۃ الھمز)
یہ دور زر پرستی (materlistic age)کا دور کہلاتا ہے، مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ مسائل کا حل وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں دولت دوسرے درجے پر رہی، سیرت وکردار اوّل رہا۔ مگر جنگِ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے کہا اور حضرت عثمان غنیؓ نے جو سامانِِ جنگ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی کہ آج کے بعد عثمان غنیؓ کی کسی غلطی پر اللہ پرسش نہیں کرے گا۔
تحریر کا اختتام اس بات پر کہ اگر تلوار سپاہی کے ہاتھ میں ہو تو محافظ، مگر ڈاکو کے ہاتھ میں ہو تو بربادی۔
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
ذرا زر کے شر کو دیکھیں
جھوٹ اشراف کے سچ مان لیے قاضی نے
دعا ہے کہ اللہ ہمیں افراط و تفریط سے محفوظ رکھے، آمین۔