خبروں کی کثرت نے مسائل کو الجھادیا ہے محمد صلاح الدین کا ایک یادگار انٹریو

496

(تیسرا اور آخری حصہ)

طاہر مسعود: لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اخبار جس میں پہلے ہی میگزین سیکشن ہوتا ہے اور اب تو مڈویک وغیرہ کا سلسلہ ایسا شروع ہوا ہے کہ ہفتہ میں‘ جمعہ (اب اتوار) کے دن اور بدھ کو الگ الگ دو میگزین اخبارات دیتے ہیں تو ان میگزین کی موجودگی میں جس میں وہ انٹرویو‘ فورم مختلف قسم کے فیچر سبھی کچھ ہوتا ہے جو ایک نیو ویکلی میں ہوتا ہے تو ان کی موجودگی میں پھر نیوز ویکلی کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا کیا جواز ہے اس کا؟

محمد صلاح الدین: ہمارے یہاں اس طرح کے یعنی مڈویک ایڈیشن‘ جمعہ ایڈیشن‘ بدھ ایڈیشن نکالنے کی قانون اجازت نہیں ہے لیکن اس کی پریکٹس ہمارے یہاں چل پڑی ہے اس وجہ سے ایک ہفت روزہ کا کردار روزنامہ نے اپنا لیا ہے اور دوسری چیز یہ ہے کہ پہلے اخبار صرف خبروں کی دنیا تک محدود تھے‘ اب اخبارات نے اپنا دائرہ اتنا وسیع کر لیا ہے کہ اس میں ادب ہو‘ فلم ہو‘ فن ہو‘ صنعت ہو‘ تجارت ہو‘ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے وہ سمیٹ نہ لیتے ہوں۔ اب اس کے بعد سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی ایک نیوز ویکلی نکالنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے صرف یہی نہیں ہے بلکہ ایک اور بھی مسئلہ ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ جب روزنامہ اپنے جزو کے طور پر کوئی ہفت روزہ نکالتا ہے تو اسے اپنی پشت پر ایک بہت بڑی آرگنائزیشن کی تنظیم‘ اس کے وسائل‘ اس کا پرنٹنگ پریس‘ اس کے ساتھ کام کرنے والے جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے لوگ ہیں‘ ان کا ایڈوانٹیج اسے مل جاتا ہے۔ تو یقینا وہ نسبتاً بہت کم خرچ پر اور بہت آسانی سے نکل آتا ہے لیکن اگر کوئی نیوز ویکلی نکالے اور اس کے پیچھے نہ کسی روزنامہ کی قوت ہو‘ نہ اس کے وسائل ہوں نہ اس کی ٹیم ہو اور آزادانہ طور پر اسے ہی نکالنا ہو تو اس کی دشواریاں بڑھ جاتی ہیںلیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جس وقت میں نے اس کے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت تک اس میدان کے بہت سے کھلاڑی ان ہی دشواریوں کے پیش نظر یہ کام چھوڑ چکے تھے اور جو نیوز میگزین نکالتے تھے‘ ان سب کا مشورہ مجھے یہ تھا کہ آپ اس تجربے میں نہ پڑیں‘ اس لیے کہ اس میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں بھی اس وقت اس سلسلے میں بے انتہا پریشان تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ اس وقت خبروںکا سیلاب ہے جن میں رائے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کوئی ایسی پابندی نہیں ہے کہ اخبارات فلاں خبر نہیں دے سکتے‘ پہلے جو ویکلیز کامیاب رہے وہ اس لیے کہ سابقہ دور میں خبروں پر پابندیاں تھیں۔ جو لوگ خبر دینے میں ان پابندیوں کو توڑتے تھے اور خطرہ مول لیتے تھے تو وہ لوگ خبروں کی وجہ سے ان نیوز ویکلی کو پڑھتے تھے کیوں کہ روزنامہ اخبارات میں وہ خبریں نہیں ملتی تھیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روزنامہ اخبارات میں ’’پاکستان توڑ دو‘‘ تک کے نعرے بھی چھپتے ہیں اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اخبارات میں رپورٹ نہ ہوتی ہو۔ خبر پر کوئی پابندی نہیں۔ جو چیز آج لوگوں کو مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ خبروں کی کثرت نے مسائل کو الجھا بھی دیا ہے۔ سارا جو ہمارا سیاسی منظر نامہ ہے وہ اتنا الجھا ہوا نظر آتا ہے کہ اس میں کوئی سلامتی کی راہ تلاش کرنا‘ کوئی راستہ تلاش کرنا‘ کوئی رائے قائم کرنا بہت دشوار ہوگیا ہے۔ جب خبروں کی کثرت ہو جاتی ہے تو رائے عامہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اب ایک عام آدمی ان حالات میں خبروں کے اعتبار سے تو بے خبر نہیں ہے لیکن خبروں کے ہجوم میں وہ یہ تلاش کرنا چاہتا ہے کہ بات صحیح کیا ہے؟ اور بات غلط کیا ہے؟ تو اگر کوئی پرچہ اس محاذ پر لوگوں کی رہنمائی کرسکے اور ان کو رائے تشکیل دینے میں مدد دے سکے تو آج بھی اس کی گنجائش ہے۔ غالباً ہم نے اسی محاذ پر کام کرکے اپنے لیے جگہ بنائی ہے۔ ہمارا پرچہ پڑھنے والے لوگ اس لیے نہیں پڑھتے کہ ہم کوئی نئی اطلاع دیں گے‘ اطلاع تو انہیں روزنامے بھی بہم پہنچا دیتے ہیں۔ ان کی پیاس ضرور یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہاہے ہم اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ کون کون سی قوتیں اس عمل میں شامل ہیں‘ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آج کل کوئی بھی واقعہ سادہ نہیں ہوتا اس میں پے چیدگیاں ہوتی ہیں کیوں کہ منافقت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ جو کچھ آدمی کہہ رہا ہوتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ سوچتا ہے‘ اس کے عزائم‘ اس کے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا اظہار بہت مختلف انداز میں ہوتا ہے اور بیش تر لوگ جو سیاسی محاذ پر کام کر رہے ہیں‘ ہم ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے میں ہزار دشواریاں محسوس کرتے ہیں۔ چوں کہ قول اور عمل میں اتنا تضاد ہے اور اتنا فاصلہ ہے کہ عام آدمی اب سادہ سے لفظوں پر یقین نہیں کرتا وہ ہر قول کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ واقعتاً کیا الفاظ کے وہی معنی ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ان الجھنوں کو حل کرنے میں اگر کوئی پرچہ مدد دے سکے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے اب بھی گنجائش ہے۔ میں نے یہ گنجائش پائی ہے اور اسی گنجائش نے شاید ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دی ہے۔

طاہر مسعود: ان نیوز میگزینوں پر‘ جن میں آپ کا نیوز میگزین بھی شامل ہے‘ عام طور پر ا یک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نیوز میگزین سے زیادہ ان پر ایک رسالے کی چھاپ نظر آتی ہے یعنی ایک رسالہ اور نیوز میگزین میں جو فرق ہونا چاہیے وہ محسوس نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کہا جاتا ہے کہ اب تک جتنے بھی نیوز میگزین نکلے ہیں ان میں سب سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے نیوز میگزین کہا جاسکتا ہو۔

محمد صلاح الدین: اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ ایک اچھے نیوز میگزین کے لیے اس سے بھی زیادہ وسائل چاہئیں جتنے کہ ایک روزنامہ کے لیے چاہئیں اس لیے جو اچھے نیوز میگزین ہمارے لیے حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں وہ ٹائم ہے‘ نیوز ویک ہے۔ اس طرح کے جو پرچے ہیں آپ ان کے تمام انتظامی معاملات کو دیکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا جو پوری دنیا میں نیٹ ورک ہے کہ آپ کو نیویارک ٹائمز یا واشنگٹن پوسٹ یا ٹائم لندن جیسے اخبارات کے نمائندے ساری دنیا کے دارالحکومتوں یا اہم شہروں میں نہیں ملیں گے لیکن نیوز ویک اور ٹائم کا جہاں تک تعلق ہے تو دنیا کا کوئی دارالحکومت ان کے نمائندوں سے خالی نہیں ہے بلکہ جو بڑے ممالک ہیں ان کے کئی کئی شہروں میں اس کے نمائندے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مواصلاتی سیارے کا استعمالِ‘ روزنامہ اخبارات میں بہت کم کرتے ہیں‘ اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یہ ہفت روزہ میگزین کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیو ویکلیز وسائل‘ ٹیکنالوجی اور دیگر سہولتوں کے معاملے میں روزنامہ اخبارات کے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ اب اگر وہ سہولتیں اردو میں ہم کو بھی میسر آجائیں تو ظاہر ہے کہ ہماری کارکردگی بھی اسی نسبت سے آگے بڑھ سکتی ہے لیکن چوں کہ ہمیں وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں اس لیے ہمارے یہاں خبری مواد نسبتاً کم ہوتا ہے جب کہ وہ زیادہ ہونا چاہئیں۔ اس لیے ہم وہ توازن برقرار نہیں رکھ پاتے کہ ہم تجزیے اور تبصرے دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کی خبریں بھی اسی نسبت سے دے سکیں کہ جس نسبت سے بین الاقوامی پرچے دے پاتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہم زیادہ تر تجزیے‘ جائزے وغیرہ تو دیتے ہیں لیکن ہم بہت زیادہ خبریں نہیںدے پاتے۔ توضیحی خبریں ہمارے یہاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ہم اس طرح سے رپورٹیں نہیں دیتے جس طرح بین الاقوامی ہفت روزے دیتے ہیں لیکن ہم بہ تدریج اس میدان میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب مثال کے طور پر اس وقت شاید ہمارا ہی پرچہ ہے جس میں ہم نے نیو یارک میں‘ لندن میں‘ سعودی عرب میں‘ متحدہ عرب امارات میں اور دوسرے بہت سے ممالک میں‘ ہانک کانگ میں اپنے نمائندے رکھے ہیں۔ تو ہم اب بہ تدریج اس کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اسی لیے آپ کو ہمارے یہاں بعض رپورٹیں ایسی مل جائیں گی مثال کے طور پر ہمارا ایک اسپیشل سبجیکٹ افغانستان ہے کہ افغانستان کے بارے میں ہم براہِ راست محاذ جنگ سے وہ رپورٹیں دیتے ہیں جو کوئی روزنامہ نہیں دے پاتا اس معاملے میں ہم پورے اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم اپنے تکبیر میں دیتے رہے ہیں وہ پاکستان کا کیا‘ بین الاقوامی سطح کا بھی کوئی پرچہ نہیں دے سکتا اس لیے کہ اس فیلڈ میں ہم نے اپنے ایسے ذرائع پیدا کیے کہ ہمیں براہِ راست خبریں مل سکیں‘ تو جیسے جیسے ہمارے وسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اس معاملے میں وہ شکایت دور کرسکیں کہ جس میں لوگ تازہ ترین خبروں کا وہ تناسب نہیں پاتے جو ایک اچھے نیوز میگزین میں ہونا چاہیے۔

طاہر مسعود: نیوز میگزین کے سلسلے میں جو شکایات ہیں غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اب تک ایک صنعت نہیں بن سکے‘ انفرادی طور پر رسائل نکلتے رہے اور اپنے مدیروں کی ذہانت یا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے کامیاب ہوتے رہے ہیں یا سیاسی حالات نے آکر بہت زیادہ دبائو ڈالا تو اس دبائو کی زد میں آکر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی حالات کا دھارا بدلتے ہی وہ نیوز میگزین پھر ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کے صنعت نہ بننے کی کیا وجہ ہے؟

محمد صلاح الدین: اس کے صنعت نہ بننے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ عام طور پر ہمارے ملک میں ان نیوز میگزین کے بارے میں بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ عوام میں بلکہ خود حکومت کے اندر آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ٹائم یا نیوز ویک یا کسی بھی بین الاقوامی پرچہ میں کام کرنے والے صحافی کو ایک روزنامہ صحافی کے مقابلے میں زیادہ عزت و وقعت دی جاتی ہے۔ ہمارے صدر (اب وزیر اعظم) جب امریکا جاتے ہیں تو روزنامہ اخباروں کے ایڈیڈیٹروں کے بجائے درخواست کرتے ہیں کہ میں ٹائم اور نیوز ویک والوں کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا جو کردار ہے بین الاقوامی سطح پر وہ روزناموں کا نہیں ہے۔ وہاں اس کی یہ اہمیت ہے۔ پاکستان میں سرکاری طور پر بڑی دل چسپ صورت حال ہے۔ شاید لوگوں کے لیے حیران کن ہو کہ پاکستان میں ہفت روزہ کے لیے کام کرنے والے صحافی کو وہ سہولتیں بھی نہیں دی جاتیں جو صحافی کے لیے پہلے سے منظور شدہ ہیں مثلاً ایکریڈیشن کارڈ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ہفت روزہ میں کام کرتے ہیں‘ آپ کو فضائی سفر کی وہ سہولتیں نہیں دی جاسکتیں۔ آپ کو ریلوے کے کرائے میں رعایت نہیں دی جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے یہاں تو ابھی اس حقیقت کا سرکاری سطح پر اعتراف بھی نہیں ہو سکا کہ ایک نیوز ویکلی میں کام کرنے والا صحافی بھی ایک ایسا ہی صحافی ہے بلکہ بہتر صحافی ہے کہ جو روزنامہ اخبارات میں کام کرتے ہیں۔ اب روزنامہ اخبار میں کام کرنے والے پروف ریڈر تک وہ سہولتیں حاصل کر لیتے ہیں جو ہفت روزہ کے مدیر کو دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر وہ اسے تسلیم نہیں کرتے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے یہاں یہ تصور بھی نہیں ہے کہ نیوز ویکلی ہے کیا شے؟ دوسرے یہ کہ ہمارے یہاں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ بہت معمولی وسائل سے نکل آتا ہے۔ لوگ اسے سائز سے ناپتے ہیں‘ اسے اہمیت کے لحاظ سے نہیں ناپتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اخبارات کے بہت صفحات ہوتے ہیں‘ اس کے لیے شاید زیادہ وسائل کی ضرورت ہے‘ ویکلی تو چھوٹا سا پرچہ ہے۔ شاید جس طرح کتابیںچھپ جاتی ہیں یہ یہ چھپ جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ایک تو ویسے ہی جو لوگ یہ میگزین نکالتے ہیں وہ وسائل کے لحاظ سے پس ماندہ ہوتے ہیں اور دوسرے ان کی ضرورتوں کا معاشرے کے اندر صحیح ادراک اور صحیح اعتراف بھی نہیں ہے خود حکومتی سطح پر بھی انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ آج کل ایک ہی ذریعہ ہے جس کی مدد سے اخبارات زیادہ وسائل حاصل کرتے ہیں اور وہ اشتہارات کا ہے۔ اشتہارات کے سلسلے میں ہماری حکومت کی جو فہرست ہے اس میں ان کی ترجیحات یہ ہیں کہ حکومت اپنی جیب سے پیسہ نکال کر اپنی ہی جیب میں دوبارہ ڈال لے۔ ٹیلی ویژن اس کے کنٹرول میں ہے لہٰذا اشتہارات کے لیے پہلی ترجیح ٹی وی کو دی جاتی ہے۔ نمبر دو اس کا ریڈیو ہے‘ نمبر تین ٹرسٹ کے اخبارات جو وہ خود چلاتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ اپنے ہی اخبارات یا اپنے ٹی وی یا ریڈیو کی نذر کر دیتی ہے۔ اس کے بعد ان کی ترجیحات کی فہرست میں چوتھے نمبر پر وہ مقبول عام اخبارات آجاتے ہیں جو بڑی اشاعت رکھنے والے ہیں‘ انگریزی اور اردو کے۔ جو کچھ اس کے بعد بچتا ہے‘ اس کے بعد اس میں اس طرح کے مقبول عام جرائد جیسے سسپنس ڈائجسٹ اور یہ ڈائجسٹ اور وہ ڈائجسٹ اس میں چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی اخبارات اس کی ترجیح میں ہیں تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ترجیحات کی اس فہرست میں جو آخری نمبر رکھا گیا ہے وہ ہفت روزہ ہے‘ ماہنامے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ ہم اشتہارات میں ان کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہم ان کے صحافی کو وہ مقام دیتے ہیں جو ایک روزنامہ اخبار کے صحافی کو ہم دیتے ہیں‘ خواہ وہ کسی علاقے سے نکل رہا ہو‘ خواہ دارالحکومت سے نکل رہا ہو‘ تو اب تک تو ہمارے یہاں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ نیوز ویکلی کی اہمیت کیا ہوتی ہے‘ اس کے وسائل کیا ہوتے ہیں‘ اس میں کام کرنے والوںکی صلاحیت کیا ہوتی ہے اور اس ضروریات کیا ہیں۔ تو یہ صحیح تصور ہمارے معاشرے میں نہیں ہے۔ آپ نے کہا یہ صنعت کیوں نہیں بنی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ صنعت ہمیشہ نفع‘ نقصان کے پہلو سے قائم ہوتی ہے۔ ایک نیوز ویکلی کے بارے میں پہلے سے ایک سرمایہ کار کو یہ معلوم ہو کہ یہ کوئی بہت زیادہ کمانے والا منصوبہ نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ اس میں سرمایہ کاری کیوں کرے گا۔ دوسرے روزنامہ اخبار کی طرح اگر سیاسی جماعتیں ہیں تو سیاسی جماعتوں کے سرمایہ دار روزناموں میں اس لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ روزنامہ ان کی ایک ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ان کے پاس ایک اہم ہتھیار بھی ہے جسے وہ دبائو کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ وہ تشہیر کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور جو ان کی سیاسی قیادت کی تصوراتی تعمیر یعنی امیج بنانے کا کام بھی کرتا ہے‘ یہ سارے کام وہ ہیں کہ جب اس لحاظ سے بھی وہ جائزہ لیتے ہیں تو ان کو ایک ہفت روزہ اپنے لیے اتنا اہم نظر نہیں آتا جتنا کہ انہیں روزنامہ نظر آتا ہے۔ اس لیے اس میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔

حصہ