’’اچھا دادا! خدا حافظ۔‘‘ حماد نے پیار سے دادا کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
دادا نے اس کے سر پر شفقت سے کپکپاتا ہوا ہاتھ پھیرا، بہت ساری دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے مستقبل کو روشن کرے اور وہ ایک پُرسکون اور اچھی زندگی گزارے۔
دعائیں لے کر حماد ابو کے ساتھ بیرون ملک جانے کے لیے ائرپورٹ روانہ ہوگیا۔
باہر رم جھم پھوار تھی تو دادا جان کی آنکھوں سے بھی مینہ برس رہا تھا۔ دونوں ہاتھ ہنوز دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ نہ صرف اپنے پوتے کے لیے بلکہ اس ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے، جو اب ملک آزاد ہونے کے 76 سال بعد خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے اور ملک بدر ہورہے تھے… وہ ملک…
انہیں 76 سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا جب کہ وہ صرف سات‘ آٹھ سال کے بچے تھے اور ہندوستان کے ایک شہر میں رہتے تھے۔ ان کے گھر کے بڑے اور تمام مسلمان پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد کررہے تھے، اور بالآخر پاکستان بننے کا اعلان ہوگیا۔ اُن کے گھر اور محلے میں عید کا سماں تھا۔ وہ خود بچے تھے لیکن بہت خوش تھے۔ ان کے گھر والوں نے اپنی ساری جائداد، مکان سب کچھ یہیں چھوڑا اور صرف تھوڑی سی ضروری اشیا لیں۔ اپنی جانیں بچاتے ہوئے پہلے ممبئی، پھر ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی آگئے۔ انہیں بار بار یاد آرہا تھا وہ سب کتنے خوش تھے، اُن کے دل میں اچھے گمان تھے، امنگ تھی کہ بس اپنا پاکستان، جہاں وہ امن و امان کے ساتھ رہیں گے، اسلامی حکومت ہوگی، ہر طرح کا سکون ہوگا، کوئی ڈر خوف نہیں ہوگا۔
بارش تیز ہوچکی تھی اور دادا کے آنسو اس سے زیادہ تیزی سے بہہ رہے تھے۔ دادا جان کے ذہن میں پرانی یادیں فلم کی طرح چل رہی تھیں۔ انہوں نے بچپن کراچی میں گزارا، پڑھا لکھا اور پھر ملازمت کی۔ اُس وقت کا پاکستان پُرسکون تھا۔ پھر انہوں نے اپنے بچوں کو بھی محب وطن بنایا۔ پھر رفتہ رفتہ پاکستان کے حالات خراب ہوتے گئے، حتیٰ کہ اب ان کے پوتے اور پوتیاں سب دوسرے ممالک کی راہ لے رہے تھے، کیوں کہ ان کے گھر والوں کے ساتھ کئی دفعہ چھینا جھپٹی کے واقعات ہوئے تھے۔ کئی دفعہ جان پر بنی، تو کئی جاننے والے نوجوان جان کی بازی بھی ہار گئے۔ پڑھے لکھے بچوں کو نوکریاں نہیں مل رہی تھیں، جس کی وجہ سے آج ان کا نورِ نظر لاڈلا پوتا بددل ہوکردوسرے ملک میں ملازمت کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔