ذہن کا زنگ کیسے دور ہو؟

356

کچھ عرصہ قبل حریم ادب کے مجلے میں ایک افسانہ نظر گزرا جو کہ کلاسک عربی ادب سے اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ بہترین تحریر اور پھر بہترین ترجمہ تھا۔ بہت دل چسپی سے پڑھا گیا۔ افسانے کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بہترین لکھاری اپنے دوست کو خط لکھنا چاہتے ہیں اور یہ کام کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کا فون آجاتا ہے، کبھی گھر کے کام، کبھی انہیں بہت زبردست کہانی کا پلاٹ ذہن میں آجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن تہیہ کرکے بیٹھتے ہیں کہ آج تو خط لکھیں گے ہی لکھیں گے، مگر پھر کوئی چیز ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور وہ خط پھر رہ جاتا ہے۔

اس خط کو نہ لکھنے کے پیچھے اصل میں کیا وجوہات تھیں یہ تو آپ کو وہ افسانہ پڑھ کی ہی معلوم ہوگا، مگر بہت سے لکھاریوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ سوچ کر اور ارادہ کرکے بھی نہیں لکھ پاتے ہیں۔ قلم اٹھاتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ذہن میں کہانی کا خاکہ تیار کرتے ہیں اور کاغذ پر اتار نہیں پاتے۔ اس کیفیت کو عام فہم زبان میں مصنف کے ذہن میں زنگ لگنا یا ’’رائٹرز بلاک‘‘ کہتے ہیں۔ اور اس کا حل کیا ہے؟

اس کا حل بہت ہی آسان ہے۔ کسی بہت ہی اعلیٰ پائے کی، بہترین قلم کاروں سے بھری ہوئی ادبی محفل میں شرکت کریں، شاعر کا کلام سنیں، افسانہ نگار کی کہانی ملاحظہ کریں، مزاح نگار کا مزاح نوش کریں، یقینا آپ کا اپنا دل قلم اٹھا کر کچھ لکھنے پر آمادہ ہوجائے گا۔

ہم پچھلے ہفتے ایک ایسی ہی محفل میں شریک ہوئے جو قلم کاروں سے سجی ہوئی تھی اور ضلع وسطی کی نشر و اشاعت کی ٹیم نے بہت محنت سے سجائی تھی۔ اس محفل کا اصل مقصد نئے لکھاریوں کو ڈھونڈنا، ان میں لکھنے کی طلب بیدار کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور پرانے لکھاریوں کے ذہن کا زنگ ختم کرکے ان کے ہنر کو پالش کرنا تھا۔ محفل کا موضوع تھا ’’لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔

پروگرام کا آغاز قرآنِ پاک کی سورۃ ’’ق‘‘ کی تلاوت سے کیا گیا۔ منزہ نے کمپیئرنگ کے فرائض انجام دیے اور ملک میں میڈیا اور نشرواشاعت کے اہم کردار کو واضح کیا۔ کسی بھی ملک میں میڈیا کو چوتھا بڑا ادارہ قرار دیا گیا ہے۔ حریم ادب کی محفلیں اسی لیے منعقد کی جاتی ہیں تاکہ اردو ادب میں صحت مند مزاج کو فروغ دیا جائے اور ادب کا معیار برقرار رکھا جائے۔

سب سے پہلے پروگرام میں حریم ادب کی توقیر عائشہ کو دعوت دی گئی، انہوں نے تمام نئے لکھنے والوں کی تحریروں پر فرداً فرداً تبصرہ کیا اور مقابلے کی پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کا اعلان کیا۔ پہلی انعام طیبہ سلیم کے مضمون ’’آگاہی‘‘ کو ملا، دوسرا انعام فائزہ حمزہ کی تحریر ’’ڈائری کے دو ورق‘‘ کو ملا، اور تیسرا خصوصی انعام صباء احمد کو دیا گیا۔ اس کے بعد پروگرام کی مہمان خصوصی افشاں مراد کو بلایا گیا جو ایک سینئر رائٹر اور کالم نگار ہیں۔ جسارت، جنگ اور سنڈے میگزین میں باقاعدگی سے ان کے کالم چھپتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اچھی تحریر کے حوالے سے تجاویز اور مشورے دیے جن میں چند یہ ہیں:

٭ ایک اچھی تحریر کا عنوان بہت مضبوط ہو جو قاری کے ساتھ ایڈیٹر کی توجہ بھی اپنی طرف کھینچے۔

٭ شروعات بہت دل چسپ ہو جو پڑھنے پر آمادہ کرے۔

٭ تحریر طویل اور ثقیل نہ ہو، اتنی آسان فہم ہو کہ ایک مزدور اور پی ایچ ڈی تک اسے آرام سے پڑھ لے۔

٭ جہاں تحریر شائع ہونی ہے، اس اخبار کے معیار کو مدنظر رکھ کر لکھیں۔

٭ تحریر ایک وقت میں ایک جگہ شائع ہونے کے لیے بھیجیں اور فیس بک کی وال پر لگانے سے گریز کریں۔

٭ اس تحریر کی اہمیت نہیں جو شائع نہ ہوسکے۔

افشاں مراد نے نئے لکھنے والوں کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس کے بعد پروگرام میں شگفتہ جیلانی کو دعوت دی گئی جنہوں نے اپنی مزاحیہ شاعری پیش کی، اور اس سے پہلے مجروح سلطان پوری کی رباعی پیش کی جس سے محفل میں جان آگئی۔
ادب کا خاصہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جب پڑھا جائے، جہاں پڑھا جائے محفل کو دوچند کردے۔ پروگرام کے اختتام پر ضلع وسطی کی ناظمہ مسرت جنید کو دعوت دی گئی جنہوں نے محفل کو سراہا اور سورۃ الضحی کی کچھ آیات اور ترجمہ پیش کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی بہترین چیزوں کی قسم کھائی ہے اور انہی میں ایک انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نک سک سے درست بناکر کھڑا کردیا اور قسم کھائی کہ وہ شخص کامیابی کی طرف ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔

حصہ