ٹیکنالوجیکل ترقی کا یہ مادل جو کمیونسٹوں نے استعمال کیا اسے ترقی بذریعہ پلاننگ (Scientific Development by Virtue of Planning) کہا جاتا ہے۔ روسیوں نے اس کے لیے کام کرنا شروع کیا اور 1924ء سے لے کر 1974ء تک پچاس برسوں میں انہوںنے جو ترقی کی اسی منہج کے مطابق کی جس میں ان کی شرح ترقی 9 فیصد سے لے کر 13 فیصد تھی۔ اورگریزرڈ نے جو نیویارک میں جا کر تقریر کی تو اس نے کہا کہ ہم جس رفتار سے ترقی کر رہے ہیں ہم امریکا کو اس کے اندر دفن کر دیں گے۔ خلا (Space) کو انہوں نے پہلے مسخر کیا یعنی وہاں وہ پہلے پہنچے‘ حیاتیاتی سائنسز (Biological Scinces) انہوں نے پہلے ڈویلپ کیں‘ Theoratical Sceinces انہوں نے پہلے ڈویلپ کیں اور اس میں بے تحاشہ کام کیا اور انہوں نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کو اصل میں جس نے شکست دی وہ روس کی سرخ فوج تھی۔ یہ روسی تھے جنہوںنے مشرقی یرپ کے محاذ پر جرمنوں کو شکست دی‘ امریکیوں کو تو مار ہی نہیں پڑی جب کہ روسیوں کے جنگ میں بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ لیکن 1974ء میں گریزرٹ نے یہ دعویٰ کیا اور 1989ء میں روس ٹوٹ گیا‘ گویا ایک دم غبارے سے ہوا نکل گئی۔
شرح ترقی اپنی جگہ لیکن 1982ء میں مشرقی یورپ ان کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوا اور 1986ء میں ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ میں کوئی الزام نہیں لگا رہا‘ پ گوگل پر جا کر سرچ کر لیجیے ‘Solidarity Movements’ اگر آپ گوگل پر ڈالیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ مشرقی یورپ جو روس کے ہاتھ سے نکلا وہ Technological Transformation کی وجہ سے نکلا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی ابھی وضاحت کرتا ہوں۔ ابھی میں نے صرف یہ بتایا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے انہوں نے یہ اصول اپنایا اور یہ طے کیا کہ وہ سائنسی ترقی کے لیے اپنے سائنس دانوں کو دنیا کی بہترین آسائشیں مہیا کریں گے۔ ان کے لیے اسٹالن نے ایسے شہر آباد کیے تھے اور ایسی جگہیں بنائی تھیں جہاںوہ اپنے سائنس دانوں کو رکھتے تھے اور دنیا کی بہترین سہولتیں انہیں مہیا کرتے تھے تاکہ یہ سائنس اور ترقی کے میدان میں کام کرتے رہیں اور روس لوگوں کی ضروریات پوری کرتا رہے۔ اس کے باوجود امریکا ترقی کی دوڑ میں ان سے آگے نکل گیا۔ اتنا آگے نکل گیا کہ جب روس ڈوب رہا تھا تو امریکیوں نے آکے اسے بچایا۔ روسیوں کے پاس ٹیکنالوجی تھی‘ ان کے پاس کمٹ منٹ تھی‘ وہ پڑھے لکھے لوگ تھے بلکہ شرح تعلیم وہاں سو فیصد تھی اور ان کی کمٹ منٹ تھی کہ وہ لوگوں کی ضروریارت پوری کریں گے‘ ترقی کریں گے اور ان کے پاس دنیا کی بہترین فوج تھی‘ ان کے پاس دنیا کا بہترین اسلحہ تھا لیکن اس کے باوجود روس ٹوٹ گیا۔
آب آئیں دوسرے ماڈل کی طرف! اس کا مرکزی نقلطہ ہیٔ مارکیٹ یعنی سائنٹفک ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ کو آپ انسان کی حرص اور حسد کے ساتھ جوڑ دیں۔ یعنی مارکیٹ کے اندر کون سا سائنٹفک لاء استعمال کرنا ہے اور کیوں استعمال کرنا ہے‘ اس کی واحد قوت محرکہ یہ ہے کہ آپ کس طرح پیسہ لگا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔ اگر وہ ریاست کے مفاد کے خلاف نہیں ہے تو آپ جس سائنٹفک ٹرانسفرمیشن کرنا چاہتے ہیں کریں آپ کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اس اصول کے نتیجے میں امریکا اور یورپ کے اندر ہر طرح کی ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ ہوئی۔ لوگوں نے پیسہ بھی کمایا اور ترقی بھی کی بلکہ اس نے ٹیکنالوجی کو گھر گھر پہنچا دیا مثلاً امریکا میں لوگوں کے پاس گاڑی جلدی پہنچ گئی بہ نسبت روس کے حالانکہ روس میں گاڑی پہنچانے کی ذمہ داری ریاست کی تھی اور اس کی آبادی بھی کم تھی لہٰذا وہاں گاڑی پہلے پہنچنی چاہیے تھی۔ اس کے برعکس امریکا میں شہری کو خود جا کر گاڑی لانا ہوتی تھی لہٰذا وہاں تاخیر سے گاڑی لوگوں تک پہنچنا چاہیے تھی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بلکہ جو ہوا وہ یہ کہ امریکا میں مارکیٹ نے اتنی زیادہ گاڑیاں بنائیں سستی اور اتنی انواع واقسام کی بنائیں کہ ہر آدمی کے پاس گاڑی پہنچ گئی۔
مشرقی یورپ کا یہ حال تھا کہ جب وہ مغربی یورپ کے آدمی کو دیکھتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ ہمارے پاس ایسی مریل ٹائپ کی گاڑی اور تمہارے پاس بہترین گاڑی کیوں ہے؟ یہ اس وجہ سے تھا کہ روس میں جو گاڑی بنتی تھی وہ ضرورت پوری کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی اور امریکا اور مغربی یورپ کے اندر ان کی عیاشی کو Satisfy کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی۔ تو تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ عیاشی کے لیے پیدا کی جانے والی ٹیکنالوجیکل گروتھ زیادہ تیز ہوتی ہے اور آسانی سے مہیا ہو جانے والی ہوتی ہے۔ میں کوئی الزام نہیں دے رہا بالکل بلکہ یہ ایک سائنسی اور عملی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور دنیا یہ مانتی ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی روس کے مقابلے میں اتنی طاقتور تو نہین تھی لیکن اس سے زیادہ آسائش بخش اور بہتر تھی‘ آسانی سے میسر تھی اور اس کی ہینڈلنگ آسان تر تھی۔
لہٰذا آپ کو کوئی ماڈل ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے احیائے اسلام کے لیے استعمال کرنا ہے تو وہ یا تو Ideological ہوگا یا A-Ideological اگر آپ مذہبی آدمی ہیں تو A-Ideological تو نہیں ہوسکتا بلکہ لازماً آپ کا میکانزم Ideological ہونا چاہیے اور اگر آپ نے ٹیکنالوجی ترقی کے اوپر کوئی نظریہ Impose کرنے کی کوشش کی جیسے کہ روس نے کی تھی تو شرح ترقی گر جائے گی اور وہ اس ٹیکنالوجیکل ترقی کا مقابلہ نہ کرسکے گی جو بغیر کسی نظریے کی ہوگی۔
چین کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ماوزے تنگ جب آیا تو اس نے کہا کہ ہم نے تو ترقی کرنی ہے لیکن ان کی Ideological Committment تھی سوشلزم کے ساتھ‘ لہٰذا انہوں نے کہا کہ سب Metallergy پر کام کریں گے۔ غلط پلاننگ آپ نے کی Metallergy میں پیسہ ڈال دیا نتیجتاً قحط پڑ گیا اور لاکھوں لوگ مر گئے۔ ایک آدمی نے سوچ کر پلان بنایا‘ پولیٹ بیورو یا کمیونسٹ کونسل نے منظور کرکے اس کو نافذ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مر گئے۔ اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ماوزے تنگ کو تو خدا کی طرح پوجا جاتا تھا اس سے کون پوچھتا؟ پھر جلدی وہ آنجہانی بھی ہو گیا۔ اس کے بعد ڈنگ ژوچنگ آیا۔ اس نے عوام سے کہا کہ آپ جو بنانا چاہتے ہیں بنائیں اور اس نے معیشت کا رُخ موڑ دیا سوشلزم سے کیپٹل ازم کی طرف۔ دنیا میں اکثر کیپٹل ازم کے بعد سوشلزم آتا ہے لیکن یہاں سوشلزم کے بعد کیپٹل ازم آیا۔ جب چین نے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا لیا تو آپ دیکھ لیں کہ اس نے کس تیزی سے ترقی کی ہے۔ لیکن یہ ترقی سو فیصد سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے اس میں ریاست کا کوئی کردار نہیں۔ ریاست پلان نہیں کرتی کہ آپ کیا پروڈیوس کریں۔ آپ جو بھی پروڈیوس کریں ریاست کہتی ہے کہ اس میں کمیونٹی کا کانٹری بیوشن ہونی چاہیے۔ اگر کمیونٹی کی کانٹری بیوشن ہے تو آپ جتنا چاہیں اس پہ منافع لیں‘ چینیوں سضے بھی لیں‘ باہر کے ملکوں سے بھی لیں لیکن انہوں نے اپنا سوشلزم میں نہیں ڈالا۔
اگر مذہب میں یقین رکھنے والا کوئی معاشرہ خصوصاً مسلمان جب ٹیکنالوجی میں ترقی کی بات کرے گا تو لازماً اسے اپنی اقدار کو قربان کرنا پڑے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ٹیکنالوجی میں ترقی کرے مارکیٹ کے ماڈل کے مطابق اور اس کی مذہبی اقدار ویسی کی ویسی رہیں کیوں کہ مارکیٹ میں ایک ویلیو چلتی ہے MCM (Prime) کے بقول Extended, Money, Commodity, Money کہ آپ کی اکانومی ایسی اکانومی ہوتی ہے جس میں آپ پروڈکشن کے عمل میں شرکت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو پیسہ بہت آنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپٹلسٹ اکانومی میں پروڈکشن کے عمل میں شرکت نہیں کی جاتی۔ اگر آپ ہماری اس بات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معاف کیجیے گا کیپٹل ازم کی تفہیم کے بارے میں آپ کا وژن مشکوک ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ ٹیکنالوجیکل ترقی کے دونوں پیرا ڈائمز کی اپنی ویلیوز تھیں۔ کمیونسٹوں کی ویلیوز تھیں۔ انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا‘ بورژوا اور ورکنگ کلاس کی ضروریات پوری کرنا اور سوشلسٹ انقلاب کو دنیا بھر میں برآمد کرنا۔ اس کے برعکس یورپ اور امریکا کے اندر ٹیکنالوجیکل ترقی کے پیش نظر تھی۔ آزادی (Freedom) اور سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی کا مطلب ہوتا ہے سرمائے کی آزادی کیوں کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں سرمائے کے بغیر آزادی کا تصور بے معنی ہے۔ آپ کی جیب میں سکے نہ ہوں تو آپ کی آزادی چہء معنی دارد؟ آپ اکیلے بیٹژ کر خبطیوں کی طرح آزادی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں لیکن آزادی کے حق کو استعمال کرنے کے لیے آپ کے پاس سرمایہ ہونا چاہیے اور سرمایہ آتا ہے مارکیٹ کے جبر کو قبول کرنے کے نتیجے میں‘ مارکیٹ کی اقدار کو قبول کرنے کے نتیجے میں اور مارکیٹ کی صرف ایک قدر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ سرمائے کی شرح نمو تیز تر ہو مثلاً یہ جو آپ کے پاس موبائل ہے کمپنیوںنے وہ اس لیے نہیں بنایا کہ آپ اس ذریعے اپنے بچوں یا ماں باپ کے ساتھ بات کریں۔ اس سے میں یہ کام لے سکتا ہوں لیکن میں اگر اس سے صرف یہی کام لیتا رہا تو ایک دن یہ موبائل میرے پاس نہیں رہے گا۔ کیوں؟ کیوں کہ موبائل پیسوں سے چلتا ہے فری میں نہیں چلتا۔ یہ اگر مجھے اپنے پاس رکھنا ہے تو اس کا سب سے Effective استعمال یہ ہے کہ یہ موبائل کتنا زیادہ مجھے جوڑتا ہے سرمایہ دارانہ عمل سے۔ اگر اس موبائل سے میں بزنس روابط کو بڑھاتا ہوں تو میں ایسے دس موبائل خرید کر اپنے رشتے داروں میں بانٹ سکتا ہوں اگر اس سے میں صرف اپنے والد کی خیریت ہی معلوم کرتا رہا تو یہ موبائل میرے پاس سے چلا جائے گا کیوں کہ اس سے میں اگر دھندہ نہیں کرتا تو اس میں روز کارڈ کہاں سے ڈلوائوں گا لہٰذا ایک نہ ایک دن مجھے یہ بیچنا پڑے گا۔
اس موبائل کا سب سے مؤثر استعمال یہ ہے کہ اس سے میں اسٹاک مارکیٹ میں پیسے لگائوں۔ میرا ایک دوست ہے جو ایک بینک میں کام کرتا ہے وہ اکنامکس پڑھا ہوا ہے۔ اس نے نوکری چھوڑ دی اور اب بینک کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس کی تنخواہ ہے ایک لاکھ اسی ہزار روپے۔ اس کے علاوہ بینک اس کو مختلف الائونسز بھی دیتا ہے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اضافی۔ گویا اس کی تنخواہ ہے تقریباً تین لاکھ روپے۔ اس کے پاس لیپ ٹاپ ہوتا ہے‘ وہ بچپن ہی سے اسٹاک مارکیٹ میں پیسے لگانے کا ایکسپرٹ ہے‘ تو بینک اسے ایک بڑی رقم دیتا ہے جس سے وہ سٹہ لگاتا ہے اور اس کام کا اتنا ماہر ہے کہ وہ بینک کو ہر مہینے کروڑوں کما کے دیتا ہے کبھی اس کو نقصان نہیں ہوا اور وہ ہر ماہ بینکو کروڑوں کما کے دیتا ہے۔ وہ اگر ایک خاص حد سے زیادہ بینک کو کما کر دے تو اس کو اضافی بونس بھی ملتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ میاں یہ لیپ ٹاپ اس لیے نہیں ہوتا کہ اس پر بیٹھ کر تم لوگوں کی تصویریں دیکھتے رہو۔ اس سے یہ کام بھی لیا جاسکتا ہے کہء تمہارے سر کے اوپر تمہارے ماں باپ کا سایہ قائم ہے اور وہ تمہیں خرچ دیتے ہیں اس لیے تم فی فیس بک استعمال کرنے کی عیاشی کر سکتے ہو لیکن جب باپ مر جائے گا اور تم ہر وقت فیس بک پر تصویریں دیکھتے رہو گے تو بجلی کا بل کہاں سے ادا کرو گے؟ اور اس کے کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی کہاں سے کرو گے؟ لیپ ٹاپ دراصل اس لیے ہوتا ہے کہ آپ انٹرنیشنل مارکیٹ کے ساتھ رابطے میں رہو۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں مندی ہے تو وہ کسی اور مارکیٹ میں پیسے لگا دیتا ہے۔ بینک نے اس کو آزادی دی ہوئی ہے کہ وہ کہیں بھی پیسے لگا سکتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے لیپ ٹاپ اس کے پاس ہوتا ہے لیکن وہ چوبیس گھنٹے ایک اذیت میں رہتا ہے۔ وہ میری ہی عمر کا ہے لیکن وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑا لگتا ہے۔ ٹینشن کی گولیاں ہر وقت کھاتا رہتا ہے کیوں کہ اس کے اوپر ہر وقت ایک پریشر رہتا ہے کہ اگر پیسہ ڈوب گیا تو کیا ہوگا؟ اور وہ کھلا خرچ کرتا ہے اور ایک اعلیٰ معیارِ زندگی اس نے اپنا لیا ہے اب اس کے گھر والے کم آمدنی پر گزارا نہیں کرسکتے۔ اس کا ماہانہ خرچ دو‘ ڈھائی لاکھ روپے ہے۔ اب اگر اس کی یہ ملازمت جاتی ہے تو چالیس‘ پچاس ہزار کی نئی ملازمت میں اس کا گزارا نہیں ہوگا لہٰذا وہ ہر وقت ٹینشن میں رہتا ہے‘ اسے ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بم تو نہیں پھٹا‘ کہیں حالات تو خراب نہیں ہو گئے؟ (جاری ہے)