وطنِ عزیز بے یقینی کی صورتِ حال سے گزر رہا ہے، معاشی زبوں حالی سے لوگ پریشان ہیں، سیاسی ماحول کشیدہ اور سیاست بامقصد نہ ہونے کی وجہ سے حالات وقت کے ساتھ ساتھ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کو کئی معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس ساری صورتِ حال نے اس کی پہلے سے کمزور معیشت کو مزید کمزور کردیا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا مشکل بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ کہیں اور بہتر زندگی تلاش کررہے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق بہتر مواقع اور بہتر زندگی کے لیے صرف ایک سال میں 10 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے، اور ایک سال میں بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں 300 فیصد اضافہ ہوگیا۔ پہلے اوسطاً سال میں دو سے ڈھائی لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک جاتے تھے، اب یہ تعداد بڑھ کر ایک ملین تک پہنچ گئی۔ گزشتہ پانچ برس میں بیرونِ ملک ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کےسروے کے مطابق 15 سے 24 برس کے نوجوانوں میں ملک چھوڑنے کی خواہش سب سے زیادہ ہے۔ اکثریت تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد کی ہے جن میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ماہرین، اکائونٹنٹس، ایسوسی ایٹ انجینئر، اساتذہ اور نرسیں شامل ہیں، جو بہتر ملازمتوں اور بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔ خبر میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق گزشتہ سال دسمبر تک 7 لاکھ 65 ہزار نوجوان حصولِ روزگار کے لیے پاکستان چھوڑ کر جا چکے تھے، جبکہ رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ میں مزید ہزاروں پاکستانی بیرونِ ملک چلے گئے۔ اس سے قبل 2020ء میں 2 لاکھ 25 ہزار، جبکہ2021ء میں 2 لاکھ 88 ہزار نوجوانوں نے بیرونِ ملک ملازمت کو ترجیح دی تھی۔ دسمبر 2022ء تک 92 ہزار سے زائد گریجویٹس، ساڑھے 3 لاکھ تربیت یافتہ اور 3 لاکھ سے زائد غیرتربیت یافتہ نوجوان بیرونِ ملک گئے۔ بیرونِ ملک جانے والوں میں 5 ہزار 534 انجینئر، 18 ہزار ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئر، ڈھائی ہزار ڈاکٹر، 2 ہزار کمپیوٹر ماہرین، ساڑھے6 ہزار سے زائد اکائونٹنٹس، 2 ہزار600 زرعی ماہرین، 13 ہزار سپروائزر، 16ہزار منیجر، 900 سے زائد اساتذہ، 12ہزار کمپیوٹر آپریٹر، 16سو سے زائد نرسیں، 21 ہزار 517 ٹیکنیشن،10 ہزار 372 آپریٹر، ساڑھے 8 ہزار پینٹر، 783 آرٹسٹ، 5 سو سے زائد ڈیزائنر شامل ہیں، جبکہ 2 لاکھ 13 ہزار ڈرائیور اور 3 لاکھ 28 ہزار مزدور بھی سمندرپار چلے گئے۔ اعداد وشمار کے مطابق ایک سال میں7 لاکھ 36 ہزار پاکستانی نوجوان خلیجی ممالک، جبکہ 40 ہزار پاکستانی یورپی اور ایشیائی ممالک گئے۔ سب سے زیادہ 4 لاکھ 70 ہزار پاکستانی نوجوان سعودی عرب، ایک لاکھ 19 ہزار متحدہ عرب امارات، 77 ہزار عمان، 51 ہزار 634 قطر، جبکہ 2 ہزار پاکستانی کویت گئے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو روز بروز عام ہوتا جارہا ہے اور ملک کے لیے بڑی تعداد میں مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ اس صورت حال کا پاکستان کی معیشت پر مزید منفی اور نقصان دہ اثر پڑرہا ہے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ملک چھوڑنے سے محنت کی قوت سکڑ رہی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ہنرمند پیشہ ور افراد کی کمی معیشت کے لیے ترقی کو مشکل بنارہی ہے۔ انسانی سرمائے کا نقصان برین ڈرین کا باعث بن رہا ہے، کیونکہ ہمارا ملک دوسرے ممالک کے مقابلے میں اپنی بہترین اور روشن صلاحیتوں سے محروم ہورہا ہے۔ گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق ملکی معاشی صورت حال سے غیر مطمئن پاکستانیوں کی شرح 73 فیصد پر پہنچ گئی۔
وزارتِ خزانہ نے قرضوں اور مہنگائی سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق شرح سود بڑھنے کی وجہ سے قرضوں کا حجم بڑھا، ڈالر کا ایکسچینج ریٹ بڑھنے سے بھی مہنگائی اور قرض بڑھا ہے۔ دسمبر 2022ء تک پاکستان کا قرضہ 55 ہزار 800 ارب روپے تھا، جس میں مقامی قرضہ 62.8 فیصد اور غیر ملکی قرضہ 37.2فیصد ہے۔ اِس سال ملک میں مہنگائی کی شرح 28.5 فیصد جبکہ آئندہ مالی سال 21 فیصد رہے گی۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2026ء تک قرضہ معیشت کے 70 فیصد سے زائد رہنے کا خدشہ ہے، اور سال 2026ء میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 6.5فیصد ہوسکتی ہے۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کا پبلک ڈیبٹ تاحال رسک ہے۔
بہت سارے پاکستانیوں کے ملک چھوڑنے کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن سب سے عام وجہ ملک میں ملازمت کے مواقع کی کمی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ لوگوں کے لیے ایسی ملازمتیں تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جو انہیں باعزت زندگی فراہم کرتی ہوں۔ دوسری طرف زیادہ تر ملازمتوں میں جو اجرت پیش کی جاتی ہے وہ زندگی کے اچھے معیار کو برقرار رکھنا تو ایک طرف، دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی بہت کم ہے۔ یہ صورتِ حال بہت سے لوگوں کو بیرونِ ملک بہتر مواقع تلاش کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ایک اور عنصر جو پاکستانیوں کے انخلاء میں اہم کردار ادا کررہا ہے وہ ہے ملک میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال۔ سوات میں دھماکا، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بدامنی کا راج، اندرونِ سندھ ڈاکو راج اورکراچی شہر کاجرائم پیشہ عناصر کا مرکز بنا ہونا۔ لیکن اب راولپنڈی،لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں بھی اسٹریٹ کرائمز اور چوری ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں،اور دہشت گردی اور تشدد کے خطرے نے بہت سے لوگوں کو عدم تحفظ کا شکا ر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہوگیا ہے اور وہ کہیں اور بہتر زندگی تلاش کر رہے ہیں۔اس پس منظر میں تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سروے کے مطابق مجموعی طور پر 37 فیصد پاکستانیوں کو موقع ملے تو وہ بیرون ملک جا کر آباد ہو جائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ریاستی ستون اس طرف متوجہ ہوں۔امیرجماعت اسلامی کا ا س صورتِ حال میں کہنا درست ہے کہ ”سارے بحران میں نقصان عوام کا ہورہا ہے، ملک کے اصل وارث عدلیہ، سیاسی جماعتیں یا اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ23 کروڑ عوام ہیں، لیکن وہی بھگت رہے ہیں“۔ جہاں سیاسی جماعتوں کو مشترکات پر آگے بڑھنا چاہیے اور سیاسی استحکام کے لیے حل نکالنا چاہیے تب ہی معیشت کی کوئی سمت متعین ہوگی، وہیں موجودہ حکومت جو بڑے دعووں کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر لائی گئی تھی، اُس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستانیوں کے ملک چھوڑنے کے رجحان کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے، ان کا اعتماد ملک پر بحال کرے۔ حکومت کو ملک میں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اجرتیں ایک مہذب طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوں۔ ان اقدامات سے ہی حکومت اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ ملک اپنے قیمتی انسانی وسائل سے محروم نہ ہو۔