رفیع الدین راز‘ قادرالکلام شاعر ہیں‘ محمود شام

306

رفیع الدین راز قادرالکلام شاعر ہیں‘ وہ غزل کے اعلیٰ درجے کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں‘ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اپنی پہچان بنائی ہے‘ ان کی شاعری میں معاشرت اور سماج میں ہونے والی تبدیلیاں نمایاں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے مسائل بھی لکھے ہیں اور زمانے کے حالات پر بھی گفتگو کی ہے ان کے یہاں جذبہ و حسن‘ شعریت و تغزل‘ تحریک و تاثیر‘ شعور و ادراک و وجدان کے عنوانات پر بے شمار شعر ملتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار فاران کلب گلشن اقبال اور بزم نشاط ادب کے اشتراک سے رفیع الدین راز کے 12 ویں شعری مجموعے ’’ابھی کپڑے بدن پر ہیں‘‘ کی تعارفی تقریب میں محمود شام نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رفیع الدین راز قادرالکلام شاعر ہیں‘ ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہیں۔ انہوں نے زمینی حقائق سے روگردانی نہیں کی بلکہ وہ حقیقت پسند شاعر ہیں۔ خال عرفان نے کہا کہ رفیع الدین راز بنیادی طور پر تو پاکستانی ہیں لیکن امریکا میں رہتے ہیں۔ ان کے یہاں غمِ جاناں اور غمِ دوراں نظر آتا ہے ان کا لہجہ نہایت نرم اور دل کش ہوتا ہے‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ اس موقع پر خالد عرفان نے رفیع الدین راز کی غزل ’’ابھی کپڑے بدن پر ہیں‘‘ کی پیروڈی پیش کرکے خوب داد و تحسین حاصل کی۔

پرفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے کہا کہ تمام اصنافِ سخن میں غزل بھی ایک زندہ صنفِ سخن ہے لیکن ایک زمانے میں غزل پر بھی اعتراضات ہوئے تاہم غزل اپنی خوبیوں کے سبب آج بھی ترقی کر رہی ہے‘ ان کے موضوعات وقت اور حالات کے تناظر میں بدلتے رہتے ہیں ترقی پسند تحریک نے بھی غزل کے بہت سے نئے مضامین وضع کیے۔ یہ اپنی تازہ کاری اور اسلوب کی دل پزیری کی بناء پر بہت مقبول ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نے کہا کہ جب ہم کسی لق و دق صحرا پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں نہ تو کوئی سائبان نظر آتا ہے اور نہ کوئی شجر دکھائی دیتا ہے اسی طرح جب ہم ادبی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں تشنہ لبی کا احساس ہوتا ہے اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے بہت سے قلم کاروں نے ادب کی آبیاری کی اور تشنگان ادب کو اپنے گرامی قدر خیاات سے یوں سیراب کیا کہ ادبی فضائوں کو شگوفے کھل اٹھے اور دل کو لبھانے والی آواز جلترنگ کی صورت میں سامنے آئی اسی تناظر کے تسلسل میں جب ہم عصرِ رواں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک باہمت اور جواں فکر شاعر نظر آتا ہے جس کا نام رفیع الدین راز ہے۔ ان کا شمار کراچی کے انتہائی معتبر شعرا میں ہوتا ہے انہوں نے نہ صرف غزل و نظم میں اپنی پہچان بنائی بلکہ وہ بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ رفیع الدین راز کے افکار میں عصری موضوعات‘ وقت کی عکاسی اور حسنِ اسلوب موجزن ہے ان کی بھرپور شعری توانائی ان کی طبع آزمائی میں نظر آتی ہے۔ آج ہم جب ان کے شعری و نثری سرمائے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ان کی شعوری اور فکری نظر‘ ان مضامین تک آسانی سے پہنچ جاتی ہے جہاں پر ایک نفاذ بھی سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتا ہے۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ رفیع الدین راز عصر رواں کی اردو شاعری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی روایت پسندی اور جدت پسندی کے امتزاج نے اردو شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ ان کا حالیہ شعری مجموعہ ’’ابھی کپڑے بدن پر ہیں‘‘ تہذیب کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ شاہد اقبال نے کہا کہ رفیع الدین راز کی 29 ویں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں شعری اور نثری تخلیقات شامل ہیں انہوں نے ہجرتوں کے دکھ بھی جیلے ہیں وہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت میں جنگی قیدی بھی رہے۔ انہوں نے زندگی کے کسی بھی محاذ پر شکست نہیں کھائی بلکہ وہ جواں مردی سے اپنی ترقی کا سفر طے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ایچ ایم حنیف نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ فاران کلب کراچی کے دروازے ہر قلم کار کے لیے کھلے ہوئے ہیں‘ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے آج ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ہم ایک جینوئن قلم کار رفیع الدین را ز کی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کر رہے ہیں۔ ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رفیع الدین راز کی غزلوں سے ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ ادبی لحاظ سے ان کی شاعری بہت مضبوط ہے‘ اس میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غنائیت موجود ہے انہوں نے زندگی کے تمام موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ وہ معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں وار ہمیں ان تمام مسائل کا حل بتاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے انسانیت کی ترقی رک گئی ہے۔

سلیم قریشی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ رفیع الدین راز کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رفیع الدین راز ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ نثر و نظم دونوں کے آدمی ہیں۔ ان کی شاعری ہماری ذہنی آسودگی کا سبب ہے‘ ان کی شاعری پڑھ کر ہمارے ذہن میں نئے نئے زاویے کھلتے ہیں‘ ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں اندرونِ ذات کے معاملات بھی ملتے ہیں‘ معاشرتی اقدار کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں‘ ان کی نعتیہ شاعری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا عکس ہے‘ انہیں عبد و معبود کے فرق کا احساس ہے‘ انہوں نے اپنی نعت گوئی میں حسب مراتب کا بہت خیال رکھا ہے انہوں نے نعت گوئی میں غلو اور جھوٹ سے اجتناب برتا ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ یورپ میں شاعروں نے کلیسا کے خلاف آواز بلند کی تھی ہمارے ملک میں بہت سے شعرا نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ان میں رفیع الدین بھی شامل ہیں‘ ان کی مزاحمت شاعری ہمیں زندگی کا درس دیتی ہے۔ عابد شیروانی نے کہا کہ رفیع الدین راز کی غزل ’’ابھی کپڑے بدن پر ہیں‘‘ ایک تلمیح ہے قرآنِ مجید ہمیں کہتا ہے کہ انسان اپنی ستر پوشی کرے یہ ایمان کا جزو ہے۔ رفیع الدین راز زندہ دل شاعر ہیں‘ ان کے یہاں مایوسی نہیں ہے‘ وہ مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا سبق دیتے ہیں۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ وہ فاران کلب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بزمِ نشاطِ ادب کے تعاون سے میرے اعزاز میں یہ محفل سجائی۔ اس پروگرام کا کریڈٹ اختر سعیدی کو بھی جاتا ہے کہ جن کی کوششوں سے یہ پروگرام کامیاب ہوا۔

حصہ