پڑھائی اپنی جگہ، جمال اور کمال بہت سارے معمولات کے سلسلے میں بہت پابند تھے۔ اذانِ فجر کی آواز کے ساتھ ہی بستر چھوڑ دینا۔ اس سلسلے میں موسم کی کوئی قید نہیں تھی۔ سردیوں میں کیونکہ راتیں کافی طویل ہوتی ہیں اس لیے عام طور پر صبح ہی صبح اٹھ جانے کے بعد پھر رات سے قبل درمیان میں کبھی نیند نہ لینا لیکن گرمیوں میں نمازِ ظہر اور عصر کے درمیانی وقت میں اپنی اپنی نیندیں پوری کر لینا۔ نمازِ عصر سے مغرب تک کھلے میدان میں چہل قدمی کرنا۔ مغرب کے بعد خوب پڑھائی کرنا اور نمازِ عشا کے بعد سونے کی تیاری کرنا تاکہ اگلی صبح بآسانی آنکھ کھل سکے۔ بے شک کبھی کبھی ان میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں بھی کرنا پڑ جاتیں لیکن یہ معمولات عموماً اپنے حساب سے اسی طرح جاری رہا کرتے تھے۔ آج کل کیونکہ درمیانی مدت کے امتحان ہونے والے تھے اس لیے سب معمولات میں حسبِ ضرورت تبدیلیاں تو ہوئیں لیکن شام کی چہل قدمی کی پابندی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ویسے بھی زیادہ وقت پڑھائی کو دینے کی وجہ سے اعضا کسی حد تک تھکاوٹ یا سستی کا شکار ہو جایا کرتے ہیں اس لیے چہل قدمی کرنا معمول سے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ چہل قدمی کرنے سے سست اعضا میں لہو کی گردش بڑھ جانے کی وجہ سے کافی حد تک تازگی آ جاتی ہے اور کاہلی دور ہو جاتی ہے اس لیے شام کی چہل قدمی جمال اور کمال بڑی پابندی سے جاری رکھے ہوئے تھے۔ گھر سے ذرا فاصلے پر ایک میدان تھا جس میں چھوٹے بڑے سب ہی کھیل کود اور چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ وہاں سے کافی فاصلے پر ایک اچھی بڑی حویلی تھی جو ملک جہانگیر کی ملکیت تھی جس میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ان کی ساکھ نہ صرف جمال اور کمال کی بستی والوں کی نظر میں بہت اچھی تھی بلکہ آس پاس کی بستی والے بھی ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ ان کی زمینیں تھیں لیکن بہت بڑے رقبے کے مالک نہ تھے۔ جو بھی تھوڑی بہت زمینیں تھیں ان سے اچھی بھلی آمدنی تھی جس سے ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا بہت اچھا گزارا ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی وہ از خود بھی بازار جایا کرتے تھے۔ پورا بازار ان کے احترام میں اٹھ اٹھ کر ان کا استقبال کیا کرتا تھا۔ جمال اور کمال کی بستی کے لوگوں کے علاوہ آس پاس کی بستیوں والوں سے بھی ملنا جلنا ان کا معمول تھا۔ کسی نے ان کو کسی کی مدد کرتے اپنی آنکھوں سے کبھی نہیں دیکھا لیکن بہت سارے مستحق گھرانوں اور خاص کر بیوائیں اور تیم بچوں کو ان کی تعریف کرتے ضرور سنا تھا۔ گویا وہ اگر دائیں سے کسی کو اس طرح دیتے کہ بائیں کو خبر تک نہ ہونے دیتے۔ جمال اور کمال بھی کبھی کبھی ان کو اپنی بستی یا بازار میں دیکھتے تو لازماً سلام کیا کرتے تھے اور موقع کی مناسبت سے ملاقات بھی کر لیا کرتے۔
شام کی چہل قدمی کے دوران وہ آج کل ایک چیز پر بہت حیران تھے کہ میدان سے تھوڑے سے فاصلے پر مٹی کے کچھ ڈھیر نظر آیا کرتے تھے۔ بظاہر یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر بہت توجہ دی جائے۔ شاید وہ اس جانب زیادہ متوجہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ بل بنانے والے جانور عموماً جب بل بنایا کرتے ہیں تو اندر سے کھودی ہوئی مٹی کو باہر کی جانب دھکیل دیا کرتے ہیں جس سے بل کے باہر مٹی کا ایک ٹیلہ سا بن جاتا ہے۔ مٹی کے یہ ڈھیر بھی ایسی ہی شکل کے ہوا کرتے تھے لیکن جو بات ان کی توجہ کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ جب فجر کی نماز کے بعد دس پندرہ منٹ کیلیے ایک ہلکی سی چہل قدمی کے لیے آتے تو یا تو وہ سارے ڈھیر ختم ہو جایا کرتے تھے یا پھر ان میں چند صاف ہو جایا کرتے تھے۔ یہ ڈھیر بہت زیادہ مٹی والے بھی نہیں ہوا کرتے تھے بس سیر ڈیڑھ سیر مٹی پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ تعجب خیز یا حیران کر دینے والی یہ بات نہیں تھی کہ یہ مٹی کے یہ ڈھیر کیوں لگ رہے ہیں اس لیے کہ چوہے یا خرگوش جب اپنے بل بناتے ہیں تو وہ مٹی کو باہر کی جانب نکال دیتے ہیں۔ بات توجہ کا باعث یہ بنی کہ پھر وہ مٹی اٹھا کر کون لے جاتا ہے یا اس کو آس پاس کون بکھیر دیتا ہے۔ یہ تھا وہ سبب جس نے جمال اور کمال کے تجسس میں اضافہ کیا اس لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جیسے ہیں امتحانی پرچے ختم ہونگے وہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
کسی زمانے میں امتحانی پرچے ہفتے یا دس دن میں ختم ہو جایا کرتے تھے لیکن فی زمانہ پرچے ختم ہونے میں تقریباً ایک ماہ لگ جاتا ہے۔ جمال اور کمال کے پرچوں کے درمیان کافی گیپ ہونے کی وجہ سے پہلے اور آخری پرچے کے درمیان 20 دنوں کا فاصلہ تھا۔ آج کا پرچہ اچھا ہوا تھا۔ ایک تو چہل قدمی کا معمول اور دوسرے مٹی کے بن جانے اور بن بن کر مٹ جانے والے ڈھیروں کی کھوج کی جستجو ان کو ایک مرتبہ پھر مجبور کر رہی تھی کہ شام کی چہل قدمی کے لیےجایا جائے۔ آج دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ان مٹی کے دھیروں کا قریب سے معائنہ ضرور کریں گے۔ کیونکہ ان دونوں کا مزاج محتاطانہ تھا اس لیے ان دونوں نے اپنے ساتھ ہاکیاں لیجانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ نہ جانے ان بلوں سے کونسا موذی نکل آئے۔ (جاری ہے)