چار دوست

330

آبادی سےبہت دور ایک جنگل تھا جہاں تمام جانور بہت پیار محبت اور سکون سے رہتے تھے۔ اسی جنگل میں چار بہت گہرے دوست ہرن، کچھوا، کوا اور چوہا بھی رہتے تھے جنہیں کوئی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ہر شام اکٹھے ہوتے اور سارا دن ہونے والے واقعات بیان کرتے تھے۔ ایک دن ہرن نے آکر خبر سنائی کہ شکاری ہر طرف جال بچھا رہے ہیں، وہ بہت پریشان تھا۔

’’کیا ان سے رہائی کا کوئی راستہ ہے؟‘‘ ہرن نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔

’’ہاں بالکل ہے‘‘۔ کوا بولا، ’’ہمارا دوست چوہا جانتا ہے‘‘۔ کوّے نے وہ سب ان کو سنایا جو اس نے دیکھا تھا۔

’’ایک دن میں نے دیکھا فاختاؤں کا ایک گروہ ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا، ان سب فاختاؤں نے یہ کیا کہ اپنی چونچوں میں جال کو اٹھا لیا اور اپنے پر اس زور زور سے پھڑ پھڑائے کہ وہ جال کو لے کر ہوا میں اڑ گئیں۔ وہ سب اڑتی اڑتی جال کو لے کر ہمارے دوست چوہے کے پاس پہنچیں، اس نے اپنے تیز دانتوں کے ساتھ جال کو کاٹ ڈالا اور وہ تمام فاختائیں آزاد ہوکر اڑ گئیں۔ وہ ہمارے دوست چوہے کی بہت احسان مند تھیں۔‘‘

کہانی ختم ہوئی تو ہرن پانی کی تلاش میں چل پڑا اور باقی تین دوست جنگل سے پھل، جنگلی گھاس اور پتے توڑ کر کھانے میں مصروف ہوگئے۔ کافی دیر گزر گئی ہرن واپس نہیں آیا، تینوں دوست رات کو دیر تک آپس میں باتیں کرتے رہے لیکن ہرن کا کچھ پتا نہیں تھا، وہ سب ہرن کی واپسی کا انتظار کرتے رہے، جب کافی دیر تک ہرن کا کچھ اتا پتا نہ پایا تو وہ سب پریشان ہو گئے۔

صبح ہوئی تو وہ سب دوست ہرن کی تلاش میں نکلے، کوا اڑکر اوپر سے تلاش کرتا رہا اور باقی دوست نیچے جنگل میں اس کو آوازیں دیتے رہے۔ کوا جو ہر جگہ اسے تلاش کر رہا تھا، آخر ایک جگہ اسے ہرن مل گیا جس کا ایک پاؤں شکاری کے شکنجے میں پھنسا ہوا تھا۔

’’پریشان بالکل نہیں ہونا!‘‘ کوے نے اسے تسلی دی، ’’ہم کچھ سوچتے ہیں‘‘۔

کوے نے واپس آکر باقی دوستوں کو بھی بتایا تو وہ پریشان ہو گئے اور اسے بچانے کی کوئی ترکیب سوچنے لگے۔ کچھوے کو ایک ترکیب سوجھی، اس نے کوے سے کہا کہ وقت ضائع کیے بغیر چوہے کو اپنی پیٹھ پر بیٹھا کر وہاں لے جاؤ جہاں ہرن مصیبت میں پھنسا ہے تاکہ وہ اپنے دانتوں سے جال کو کاٹ کر ہرن کو آزاد کروا لے۔ کوّا فوراً چوہے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر وہاں پہنچا اور چوہے نے اسے تیز دانتوں سے کاجل کو کاٹ ڈالا، اتنے میں کچھوا بھی بیتاب ہو کر وہاں پہنچ گیا۔

’’تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔۔۔! اگر شکاری واپس آ گیا تو تم بھاگ کر جان نہیں بچا سکوگے‘‘۔ ہرن نے پریشانی سے کہا۔ شکاری واپس آ گیا تھا، اس کی آہٹ پا کر تمام دوست بھاگ کھڑے ہوئے سوائے کچھوے کے، کیونکہ وہ بہت آہستہ چلتا تھا۔ شکاری نے کچھوے کو پکڑا اور اپنے ڈنڈے سے باندھ لیا۔

’’ارے نہیں۔۔۔! میرا دوست میری وجہ سے پکڑا گیا۔۔۔!‘‘ ہرن افسوس سے بولا، پھر اچانک اس نے چھلانگ لائی اور جھیل کی طرف دوڑا۔ جھیل کے کنارے جاکر ہرن خاموشی سے لیٹ گیا جیسے مرا ہوا ہو، کوا اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا۔ شکاری نے جب دیکھا کہ ایک ہرن جھیل کے کنارے پڑا ہے تو وہ کچھوے کو پھینک کر ہرن کی جانب دوڑا۔ چوہے نے موقع غنیمت جان کر کچھوے کی رسّی کاٹ کر اسے آزاد کرا دیا، کچھوا آزاد ہو کر پانی میں کود گیا۔ ہرن یہ دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ کچھوا آزاد ہو چکا ہے۔ شکاری ہرن کو اٹھتے دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا کیونکہ اس نے کبھی کوئی ایسا جاندار نہیں دیکھا تھا جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہو۔ یہ سوچ کر کہ جنگل آسیب زدہ ہے شکاری اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ چاروں دوست جنگل یں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

حصہ