بجلی پیدا کرنے، ہوائی اڈے، بندرگاہیں، صنعتی علاقے بنوانے اور کسی جگہ کے ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے قرضوں کی ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ معیار کے لیے یہ کام امریکی انجینئرنگ اور تعمیراتی کمپنیاں ہی مکمل کریں گی۔ اس طرح حقیقتاً قرضے کی رقم کا ایک بڑا حصہ امریکا سے باہر نہیں جاتا بلکہ واشنگٹن کے بینکوں کے دفاتر سے سان فرانسسکو، ہیوسٹن یا نیویارک کی انجینئرنگ کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوجاتا ہے۔ معدنی وسائل اور نیوکلیائی اثاثے رکھنے والی قوموں کو زیرِبار اور محکوم رکھنے کے لیے دوسرے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، سازشوں کا جال پھیلا دیا جاتا ہے اور مقامی حکمرانوں کو اس میں اس طرح پھنسا دیا جاتا ہے کہ وہ ان کے آلہ کار اور بندئہ بے دام ہوکر ہی اپنا اقتدار بچا سکتے ہیں۔ ’سیاسی قتل‘ اور ’حکومتوں کا تختہ الٹنے‘ کے بے شمار واقعات اور ’طیاروں کے متعدد حادثات‘ اِسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مگر ہم اس اہم موضوع پر بات نہیں کریں گے کیونکہ ہم تو آئی ایم ایف کے اتنے کنٹرول میں ہیں کہ اب پیٹرول کی قیمت میں 9 روپے کی کمی ہوگئی تو بھی ہم خوش ہوگئے، اور بجلی کا یونٹ شام 5 بجے سے رات 11 بجے تک 50 روپے کا ہوگیا، ہم بدستور خوش ہی رہے۔ جماعت اسلامی نے ”ٹیکسز ہمارے، عیاشیاں تمہاری“ پر اچھا ٹرینڈ بنایا۔ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر تو ایک نہیں دس، دس ٹرینڈ ہونے چاہیے تھے، مگر لوگ شاید عادی ہوگئے ہیں۔
آپ کچھ بھی کہیں، ایم کیو ایم سیاسیات کے طلبہ سے لے کر سنجیدہ صحافیوں اور جدید ریاستی منہج کی سیاست پر لکھنے والوں کے لیے ایک زبردست تحقیقی موضوع کی مثال بن چکی ہے۔یہ بات کراچی میں صاف نظر آتی ہے کہ موجودہ ایم کیو ایم کی سیاست کا سورج غروب ہوچکا ہے، اس کے باوجود صوبہ سندھ پر اُس کا گورنر بیٹھاہے، وفاق میں وزارتیں ہیں، قومی اسمبلی کی 7سیٹیں اَب بھی ملکی سیاست میں ایک خاص توازن پیدا کیے ہوئے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کی کنوینر شپ میں ایم کیو ایم کا تازہ بیانیہ جو اس ہفتے سوشل میڈیا پر موضوع بنا، وہ ایک بار پھر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اشارہ ہی محسوس ہوا۔ ایم کیو ایم کے بیانیے میں مردم شماری اور حلقہ بندیاں اولین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کی درستی کے بغیر کوئی نتیجہ نہیں مانیں گے۔ اگلے انتخابات میں کسی قسم کا بائیکاٹ ایم کیو ایم سے صرف 16 صوبائی سیٹیں ہی نہیں چھینے گا بلکہ قومی اسمبلی سے بھی اس کا صفایا کردے گا، اور بلدیہ سے تو ہو ہی چکا ہے۔ ہوا یہ کہ سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کی اصل روح یعنی الطاف حسین کے چاہنے والوں کی شہر میں چاکنگ اور کچھ نعرے بازی یا اجتماع طرز کی ویڈیوز جاری کی گئیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ پیغام تھا جس پر سخت ردعمل نظر آیا، کورنگی سے لاپتا قسم کی گرفتاریاں بھی ہوئیں، یوں فوراً ہی سب کو خاموش بھی کرا دیا گیا۔ یہی نہیں، سابق وزیراعظم کی مطلقہ ریحام خان نے کراچی کے دورے میں الطاف حسین پر پابندی ختم کرنے کی بات کردی۔ ایم کیو ایم نے ’کورنگی میں ہونے والے الطاف گروپ اجتماع‘ واقعے کے ردعمل میں پریس کانفرنس بھی کی اور سوشل میڈیا پر اپنی دانست میں ناتجربہ کاری و نان پروفیشنل قسم کا ردعمل دیا:قادیانی قومی موومنٹ الطاف۔ اب بھلا بتائیں یہ کوئی ٹرینڈ ہے بنانے کا؟ پورے ٹرینڈ کی پوسٹوں میں ایم کیو ایم کے اندر کی واضح تقسیم نظر آئی۔ ایک گروپ زبردستی مصطفیٰ کمال کو پروموٹ کررہا تھا، ایک گورنر کی عوامی سرگرمیوں کو، ایک خالد مقبول کے بیانیے کو، ایک صرف الطاف حسین کے خلاف بیانیہ دے رہا تھا جو اس ہیش ٹیگ کی کوئی 5ہزار پوسٹوں میں غالب رہنا تھا مگر وہ قدرے کم نظر آیا۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر الطاف حسین کے خلاف کسی کو ڈھیر سارا ’مواد‘ چاہیے ہو تو ایم کیو ایم کے پیجز اور اکاؤنٹس سے بھرپور مدد لی جا سکتی ہے۔ کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے وہ مستقل الطاف حسین کے خلاف مواد جاری کرتے رہتے ہیں۔ دونوں جانب سے سوشل میڈیا پر الزامات کی بوچھاڑ نظر آئی، خالد مقبول نے پریس کانفرنس میں بانی ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ ’’اُن صاحب کو بھی کہوں گا کہ کراچی پر رحم کیجیے‘‘۔ یہ بات چرکا لگانے کے لیے کافی تھی۔ خالد مقبول نے کراچی کے عوام کو صاف پیغام دیا کہ اب ایم کیو ایم یہی ہے جو سامنے ہے، جو لندن میں ہے وہ کچھ نہیں۔ ہم نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ تقریباً 20 افراد کے ساتھ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر کراچی میں ہونے والی لاپتا قسم کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔ لندن والوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ 20-25 لوگوں سے اتنا خطرہ کیوں؟ یہی بات سوشل میڈیا پر بھی صادق آتی ہے کہ الطاف حسین کے نام سے ٹوئٹر کے ’ویری فائیڈ‘ اکاؤنٹ پر صرف 78700 فالوورز ہیں، جبکہ مصطفیٰ عزیز آبادی کے 74200 فالوورز۔ دوسری جانب مصطفیٰ کمال کے ویری فائیڈ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے 181900 کے قریب فالوورز، MqmPakistanupdates کے صرف 46800 فالوورز ہیں۔ اسی طرح AllaboutMQM کے نام سے ایک اور اکاؤنٹ جس کے 48 ہزار فالوورز ہیں، وہ بھی چلایا جارہا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں دلوں کی دھڑکن، لاکھوں ووٹ لینے والی پارٹی کا سوشل میڈیا پر یہ حال دیکھ کر بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، اکاؤنٹ میں اندر جاکر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ٹرینڈ بنانے کے چکر میں خود ہی اپنے لوگوں کی ری ٹوئٹ بھی کررہے ہوتے ہیں۔
الطاف حسین کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ اِس نام کےخلاف کچھ بولنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اُس وقت یعنی 1988ء سے 1992ء تک الطاف حسین کی تقاریر خاصی گھن گرج والی ہوتیں۔ مگر پھر لندن جانے کے بعد ایک وقت آیا کہ وہ سوشل میڈیا پر ایک مقبول ’میم‘ (مطلب: مذاق اڑائی جانے والی) شخصیت بن گئے۔ الطاف حسین کی آواز/ باتیں ہوں یا حرکات… سوشل میڈیا پر انتہائی مقبول ہوئیں (مذاق اُڑانے، تفریح کرنے کے تناظر میں)۔ اس لیے الطاف حسین سخت پابندی کے بعد بھی گاہے بہ گاہے سوشل میڈیا پر کہیں نہ کہیں میم کی صورت رینگتے ہی نظر آئے۔ 1992ء سے 2023ء… مطلب 30 سال میں تو ایک نسل جوان ہوجاتی ہے، اس لیے سوشل میڈیا کی بدولت وہ سب لوگ جو 2000ء کے بعد پیدا ہوئے، اور (پابندی لگنے کے بعد) 2013ء میں کچھ ہوش سنبھالا وہ اب تک صرف سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی الطاف حسین کو جان سکے ہیں۔ دوسری جانب یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم نے اب 2022-23ء میں جاکر سوشل میڈیا پر کام کا کچھ ہدف بنایا ہے مگر اپنی (کنجوس) دانست کے ساتھ ہی کام کررہی ہے۔ بات یہ ہے کہ پہلے تو سارا میڈیا خوف و دہشت کی وجہ سے اتنی کوریج دیتا تھا کہ کبھی مسئلہ ہی نہ تھا، مگر سوشل میڈیا پر تو خود ہی چلانا پڑتا ہے، ایسی کوئی تخلیقی صلاحیت کبھی ایم کیو ایم میں پیدا ہی نہ ہوسکی تھی۔ اَب معاملہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا سارا کام صرف اہلیت نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مکمل سیاسی اپروچ، پارٹی وژن، لگن اور جذبے کے علاوہ خاصی رقم بھی چاہتا ہے۔ میں شہر میں ایم کیو ایم کی سیاسی صورت حال اور اس کے کرپٹ ماضی کو دیکھ کر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے قائدین اپنی محنت سے لوٹی ہوئی رقم اس کام کے لیے نہیں لگانا چاہتے۔ اب نہ پہلے جیسا چندہ ہے، نہ پہلے جیسا بھتہ… تو ”کمائی گئی رقم“ اِس طرح لگانا اُن کی عقل میں اب تک نہیں آرہا۔ کم و بیش یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے۔ اِس کے برعکس جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ن لیگ کے سوشل میڈیا میں یہ تمام چیزیں مجھے کیا، آپ سب کو بھی نظر آتی ہوں گی کہ کس جامع انداز سے یہ سب کام کرتے ہیں۔
سیما کیس پچھلے ہفتے ہم نے تفصیلی ڈسکس کیا تھا، اس لیے کہ سوشل میڈیا پر شور تھا۔ اس ہفتے بھارت بھر میں یہ شور مزید رنگ بھرتا چلا گیا۔ بھارت سیما کو مستقل پاکستانی جاسوس قرار دے رہا ہے، جبکہ پاکستان کی جانب سے کوئی آفیشل مؤقف نہیں آیا، ماسوائے تمام سرکاری دستاویزات بشمول شناختی کارڈ، بچوں کا ب فارم، کورٹ نکاح کی کاپی… سب کچھ منظرعام پر آنے کے بعد معاملہ گرم ہے اور پاکستان و بھارت بلکہ دنیا بھر میں مستقل ریٹنگ لے رہا ہے۔ یقین مانیں، روزانہ جڑی بوٹیوں کی طرح نئے نئے لوگ سیما سے تعلق کے عنوان پر سوشل میڈیا پر سامنے ارہے ہیں۔ پھر بھارت ان کو اپنی اسکرینوں پر جگہ دے رہا ہے تاکہ جاسوس ثابت کرسکے۔ ہفتہ بھر سے یہ ایشو مستقل بھارتی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر مقبولیت کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس دوران بھارت سے ایک اور کیس سامنے آیا جس میں ایک بھارتی ہندو نوجوان سے موبائل گیم کی وجہ سے پیدا شدہ محبت کے چکر میں بنگلہ دیش سے ایک لڑکی بھارت آئی، مذہب تبدیل کرکے شادی کی، پھر سال بھر میں شوہر کو کسی بہانے سے بنگلہ دیش لے گئی اور اغوا کرکے رہائی کے لیے رقم مانگ رہی ہے۔
سیما جاسوس ہو یا نہ ہو، میں بار بار متوجہ کروں گا، تذکیر کروں گا، یاد دلاؤں گا کہ یہ اسکرینیں ویلیو نیوٹرل (غیر جانب دار) نہیں ہیں۔ خدارا کم سے کم استعمال کریں، وہ بھی صرف ضرورت کے وقت۔ نہ یہ گیم کھیلنے کے لیے بنی ہیں، نہ ان پر گیم کھیلے جانے چاہئیں۔ چلیں مجھے چھوڑیں، جنہوں نے یہ سب بنایا ہے، اُن کی تحقیق پڑھ لیں۔ امریکا میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف میساچوسٹس کے محققین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسٹاگرام سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں استعمال ہونے والے ”آپ کے لیے تجویز کردہ“ الگورتھم نے بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والوں کے وسیع نیٹ ورک کی مدد کی، اور ان کے لیے ایسے رجحانات رکھنے والے عناصر تک پہنچنا آسان بنادیا ہے۔ یہی نہیں، انسٹاگرام نے ان کے لیے غیر قانونی جنسی مواد اور سرگرمیاں حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ چائلڈ پورنوگرافی (بچوں کی فحاشی)، کم سن بچوں میں جنسی شہوت کو فروغ دینے کے لیے بچوں کا ہر قسم کا استحصال کرتی ہے۔ اس کی کئی ممکنہ صورتیں ہیں جن میں تصاویر، کارٹون، فلم، ویڈیوز، ویڈیو گیمز، رسائل، سنگ تراشی، مصوری وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یقین مانیں، میں اس سے آگے لکھ نہیں سکتا، فیملی میگزین ہے میری ہمت نہیں ہورہی۔ بس یہ مزید جان لیں کہ انسٹاگرام موبائل ایپلی کیشن کی مالک کمپنی میٹا (meta)ہے۔ میٹا کا سی ای او مارک زکربرگ (یہودی) ہے جو فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کا بھی مالک ہے۔ میٹا الفابیٹ، ایمیزون، ایپل اور مائکروسافٹ کے ساتھ ساتھ پانچ بڑی امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ان کی کوئی اخلاقیات نہیں ماسوائے پیسہ کمانے کے، کوئی چیز اچھی بری نہیں، ماسوائے پیسے کے۔ معاشرت پر ذرا ایک نظر ڈالیں، اور جواب دیں کہ یہ کس قسم کا خیال اور رویہ ہے کہ جب بھی خباثت بکثرت و عام ہوجائے تو لوگ اُس کو نہ صرف جائز، بلکہ ضرورت قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ ہم ایک سرمایہ دارانہ نظام کے جبر میں سانس لے رہے ہیں، اس کا بنیادی محرک ذاتی یا خودغرضانہ مفاد ہوتا ہے۔ انسانی خواہشات مستقل اور بے شمار ہیں، ان بے لگام نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے انسان کو ذرائع مثلاً آمدنی، دولت اور دیگر اشیاء درکار ہوتی ہیں۔ خواہشات کو بڑھاوا دینے کا عمل نظام کے جبر سے تخلیق پاتا رہتا ہے، اس لیے انسان کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ قناعت بھری محدود ذرائع والی زندگی میں خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ اپنی لامحدود آرزوؤں(Desires Unlimited) کو کس طرح پورا کرے؟ پھر اُس کو یہ غلط فہمی وسوسوں کی صورت پیدا ہوتی ہے کہ یہ سب حاصل کرنا دین میں منع نہیں، سب حلال ہے، سب جائز ہے۔ بس پھر وہ دوڑ پڑتا ہے۔ پھر بات ختم، نظام کا ٹارگٹ پورا۔
یہ جو سورہ تکاثر میں قبر تک جا دیکھنے کا ذکر ہے، یہ مجھے معروف نشریاتی ادارے انڈی پینڈنٹ کی خبر سے سمجھ میں آیا۔ ’پاؤڈر سے کینسر: امریکی سپریم کورٹ نے ملٹی نیشنل کمپنی جانسن اینڈ جانسن کےخلاف دوارب ڈالرہرجانہ برقرار رکھا‘۔ اَب ذرا وسوسے کا حشر دیکھیںکہ پاؤڈر لگانا تو حلال تھا، جائز بھی تھا،بلکہ خوشبو اور صفائی کا لالی پاپ لگا کر اس کو دینی عمل بھی قرار دے دیا گیا، تو پھر انسان کے اندر اِس پاؤڈر کو پانے کی خواہش پیدا ہوئی، انسان نے محنت کرکے پیسہ کما کر اس کو حاصل کیا،اور خوب استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ یہ پاؤڈر تو اپنے صارفین میں کینسر پھیلاتا رہا، جس نے ان کو قبروں تک پہنچا دیا۔بس اس مثال سےسمجھیں کہ تاخیر نہ ہوجائے۔امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں:ہر وہ علم اور عمل جو ایمان کی قوت میں اضافہ نہیں کرتا وہ اندرونی طور پر مفسد اور بگڑا ہوا ہے۔ (الفوائد لابن قیم)