عابدہ حسام الدین بھی رخصت ہوئیں

435

”عالمِ اسلام کی جدید تحریکیں“ کے نام سے ایک تحقیقی اور علمی کاوش 463 صفحات پر مشتمل کتاب کی خالق محترمہ عابدہ حسام الدین اپنے خالقِ حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ انھوں نے اس کتاب کی تقریبِ رونمائی میں بہت اصرار کرکے محبت سے بلایا تھا۔ یہ تقریب این- ایل- ایف کے دفتر کے کانفرنس ہال میں تھی۔ اس تقریبِ رونمائی میں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات موجود تھے۔ محترم شاہنواز فاروقی، ڈاکٹر اسامہ رضی، ڈاکٹر سلطانہ سلیس بھی شریکِ محفل تھے، اور محترم سید منور حسن صاحب کی صدارت تھی۔

عابدہ حسام الدین علم دوست، وضع دار، محبت کرنے والی بردبار خاتون تھیں۔ میرا اُن کا ساتھ شعبہ نشر و اشاعت کے حوالے سے بنا۔ ایم- اے صحافت سے فارغ ہوتے ہی عزیز از جان محترمہ عائشہ منور باجی نے شعبہ نشر و اشاعت کا قلم دان میرے سپرد کیا۔ شعبے کو باقاعدہ بھاری بھرکم ٹیم بناکر دی۔ کون سے اکابرین تھے جو اس شعبے میں نہ تھے! محترمہ اُم زبیر، بلقیس صوفی، اُم اکبر، عافیہ سرور، تنویر خانم، عابدہ حسام الدین، سلمیٰ ملک کا ساتھ نصیب ہوا۔ یہ لوگ مختلف ادوار میں ساتھ رہے۔ گویا سیکھنے، سمجھنے اور تربیت کے در کھلتے چلے گئے۔

عابدہ باجی کی خاص بات ان کا مزاج تھا جو کبھی پُرہجوم کاموں کے دوران بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا تھا۔ گفتگو بہت مہذب کرتیں، لہجہ ہمیشہ خوش گوار ہوتا۔

آپا جی اُم زبیر کی خواہش تھی اور حلقہ خواتین کی ضرورت بھی کہ خواتین کا ایک میگزین کراچی سے نکالا جائے، بالآخر یہ خواہش پایہ تکمیل کو پہنچی، اور بڑی صبر آزما جدوجہد کے بعد ”نہ المراۃ“ کے نام سے ایک میگزین ہم سب کے ہاتھوں میں تھا جس میں عابدہ باجی کی کوشش، پروف ریڈنگ اور مشورے شامل ہوتے۔

اکثر اوقات سفر میں وہ میرے ساتھ ہوتیں اور میں ان سے پوچھتی رہتی کہ آپ گھر اور تحریکی ذمہ داریاں ساتھ کیسے نبھاتی ہیں؟

ایک دفعہ کہنے لگیں ”جب صبح سے نکلنا ہوتا ہے تو میں رات کو ہی کڑہی چڑھا دیتی ہوں، ہلکی آنچ پر بہت عمدہ پکتی ہے، صبح نماز کے بعد پکوڑے ڈال دیئے، سب گھر والے خوش بھی ہوگئے۔“

ایسے ہی ایک دفعہ وہ میرے ساتھ تھیں اور مجھے اپنے گھر اترنا تھا۔ راستے میں دکانیں پڑیں تو عابدہ باجی نے کہا کہ ”ریحانہ دیر نہ ہو تو میں دو منٹ اتر کے کچھ لے لوں؟“ میں نے بڑی ترنگ میں کہا ”کوئی مسئلۂ نہیں، میرے سسرال والے کوئٹہ میں ہیں اور میاں جی دیر سے آتے ہیں۔“

مگر جناب جیسے ہی گاڑی میرے گیٹ پر رکی تو پورا گھر روشن تھا، تمام لائٹیں جل رہی تھیں، دروازے کھلے تھے۔ اب تو عابدہ باجی کا ہنسی کے مارے برا حال… کہنے لگیں جائیے، اتریئے۔ ڈپلیکیٹ چابی ان کے پاس تھی۔

ایسے ہی ایک دفعہ ہم دونوں کو ملیر تک جانا تھا، ہمارے ڈرائیور چھٹی کرگئے۔ میں نے ادارہ نورحق سے ڈرائیور مانگا۔ ہم جب واپس آئے تو عابدہ باجی نے بیگ صاحب سے کہا ”ڈرائیور بہت اچھا تھا، راستے مں بالکل بھی جھٹکے نہیں لگے“۔ تو بیگ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”یہ دراصل میت گاڑی کا ڈرائیور ہے، آج فارغ تھا تو آپ کو دے دیا“۔ اب ہم دونوں کی حیران ہونے اور مسکرانے کی باری تھی۔

عابدہ حسام الدین نے کراچی یونیورسٹی سے ایم-اے علومِ اسلامیہ میں کیا اور پوزیشن حاصل کی۔ پھر اردو ادب اور ابلاغیات میں ایم- اے کیا… مگر ان کی علمی پیاس بجھتی ہی نہیں تھی، جبکہ عصر حاضر کی اسلامی تحریکات کا تحقیقی مطالعہ ان کا پی-ایچ-ڈی کا عنوان تھا۔

اور یوں محترمہ عابدہ حسام الدین نے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور ڈاکٹر عابدہ سلطانہ کہلائیں۔ درس و تدریس سے وابستگی کے ساتھ ساتھ جامعات المحصنات کی نگران کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ ان کے افسانے، نظمیں اور مضامین مختلف اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ اپنی گوناگوں علمی، تحقیقی اور تحریکی مصروفیات کے ساتھ بہترین بیوی، ماں اور دیگر رشتوں کو بھی بخوبی نبھایا۔

”عالمِ اسلام کی جدید تحریکیں“ کے عنوان سے آپ کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی و علمی مقالہ کتاب کی زینت بنا، جس کو انھوں نے نبی مہربان، محسنِ انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ نامی سے منسوب کیا۔

سلام اس پر کہ ساکن کردیا طوفان کی موجوں کو
سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا

اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ جہاں تک دونوں صنفوں کا تعلق ہے اسلام نے عورت اور مرد کو بہ حیثیت صنف مساوی قرار دیا ہے۔ فرق صرف اُس پیدا ہوتا ہے جب ان میں سے کوئی چیز کسی حد تک مختلف ہو۔ چنانچہ روحانی اور دینی اعتبار سے دونوں برابر ہی ہیں۔

مسلمان ممالک میں معاشرتی خرابیوں کی اصل بنیاد مغربی تہذیب کی بے جا نقالی اور اس کے زیر سایہ قائم جابرانہ نظام ہے۔ مادہ پرست مغرب نے عورت کو جو آزادی دی ہے اس کا چشمہ خالص اور پاک انسانی منبع سے نہں پھوٹتا۔ مغرب نے عورت کو گھر سے اس لیے نکالا کہ وہ محنت مزدوری کرکے کسبِ معاش کرے کیونکہ مرد نے عورت کی کفالت سے انکار کردیا ہے۔

اب مغرب کی ستم رسیدہ عورت نے وہاں مساوات کا مطالبہ کیا تاکہ پیٹ بھرنے اور زندگی گزارنے کا بندوبست ہوسکے۔ جب اسے مساوات نہ مل سکی تو اس نے ووٹ دینے کا حق طلب کیا تاکہ اسے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے مواقع مل سکیں۔ پھر اس نے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق چاہا تاکہ اس مساوات کو قانونی طور پر تسلیم کرایا جائے، کیونکہ سماج میں جو قوانین نافذ ہوتے ہیں انھیں صرف مرد بناتے ہیں۔

اسلام کی طرح وہاں اللہ کا قانون نہیں ہے جو اپنے بندوں میں مردوں اور عورتوں سب کے ساتھ عدل و انصاف برتتا ہے۔
غرض پوری کتاب پڑھتے چلے جائیں، مکمل اور مفصل نقشہ کھینچا ہے۔ عالمِ اسلام کی تمام دینی تحریکوں کا تعارف اور حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئے بے لاگ تجزیہ آپ کو کسی قسم کی تشنگی محسوس نہیں ہونے دے گا۔

عابدہ باجی ہمیشہ بہت محبت سے بلاتیں کہ وقت نکالیں اور حجامہ کروالیں، اور میں ہمیشہ ارادہ کرتی اور اُن سے دعاؤں کا کہتی کہ آپ میرے لیے دعا کریں۔ مگر آہ کہ جن سے دعاؤں کی استدعا کی جاتی تھی وہ خود آناًفاناً دوسروں کی دعاؤں کی مستحق ہوگئیں۔ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو سامنے عابدہ باجی کا مسکراتا ہوا چہرہ آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بہترین میزبانی کریں اور ان کی مغفرت اور بخشش فرمائیں۔ ان کی زندگی کی ساری مساعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔ آمین!

حصہ