ادبی تنظیم ’’کھڑکیاں‘‘ کا مشاعرہ

357

ادبی تنظیم ’’کھڑکیاں‘‘ کے روح رواں ڈاکٹر سید رضا زیدی ہیں‘ وہ اردو زبان و ادب کے خدمت گزاروں میں شامل ہیں‘ انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے گھر پر ایک مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کی۔ اقبال سہوانی مہمان خصوصی تھے جب کہ شاہ فہد نے نظامت کے فرائض انجام دیے جنہوں نے اپنی نظامت کاری کے علاوہ یہ بھی کہا کہ فی زمانہ ادبی گروہ بندیوں سے ادب کی ترقی متاثر ہو رہی ہے‘ ہمیں اس ماحوال سے باہر نکلنا ہوگا ورنہ اردو ادب کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔ میزبانِ مشاعرہ ڈاکٹر سید رضا زیدی نے کہا کہ ان کی ادبی تنظیم ابھی نئی نئی ہے‘ ہمیں مشاعروں کا زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں‘ ہم سب مل کر ہی اردو زبان کو پروموٹ کر سکتے ہیں۔ مشاعرے بھی زبان کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت کا آئینہ دار ہے‘ یہ ہماری ذہنی آسودگی کا ایک ذریعہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے سیلاب نے ہمارے بچوں کو ڈسٹرب کیا ہے کہ وہاں فحش لٹریچر بھی آن لوڈ ہو رہا ہے جس سے نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اہم الیکٹرانک میڈیا پر صاف ستھرا ماحول پیدا کریں۔ اقبال سہوانی نے کہا کہ ادبی تنقید کھڑکیاں اور حبس زدہ ماحول میں آکسیجن ہے‘ یہ تنظیم بہت جلد ترقی کرے گی اس میں شامل تمام افراد اردو زبان و ادب سے مخلص ہیں‘ یہ نوجوان شعرا پر مشتمل ادبی ادارہ ہے جو تسلسل کے ساتھ مشاعرے کرا رہا ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے صدارتی خطبے میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔ کھڑکیاں ہر مہینے مشاعرے ترتیب دیتی ہے مجھے امید ہے کہ یہ ادارہ ترقی کرے گا۔ اردو زبان اب دنیا کی 7 ویں انٹرنیشنل زبان کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے اس کی ترقی کا سفر جاری ہے لیکن اردو ابھی سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ مشاعری میں ڈاکٹر نثار‘ اقبال سہوانی‘ شاہ فہد‘ سید رضا زیدی‘ فرح اظہار‘ م۔م مغل‘ کاشف علی ہاشمی‘ یاسر سعید صدیقی‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ‘ شازیہ‘ کامران صدیقی‘ حرا شبیر‘ شبانہ خان‘ صدف بنتِ اظہار اور تاجور شکیل نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

طارق جمیل کی رہائش گاہ پر مشاعرہ

12 جولائی 2023 کو طارق جمیل نے اپنی رہائش گاہ پر ایک مشاعرہ منعقد کیا جس کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ اس مشاعرے میں کوئی مہمان خصوصی نہیں تھا‘ مشاعرہ 12 شعرائے کرام پر مشتمل تھا ہر شاعر نے دو‘ دو غزلیں سنائیں۔ طارق جمیل نے خطبہ استقبالیہ پیش کرنے کے علاوہ نظامتی فرائض بھی انجام دیے انہوںنے کہا کہ شاعر اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے‘ وہ معاشرے کے عروج و زوال میں حصہ دار ہے۔ شعرائے کرام ہر زمانے کے حالات و مسائل پر بات کرتے ہیں‘ وہ اچھائی اور برائی کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں جو معاشرہ شعرائے کرام سے گریزاں ہے وہ ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں۔ برصغیر ہند و پاک میں مشاعرے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان سے محبت کیجیے‘ یہ ہماری پہچان ہے‘ اردو کے نفاذ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جایئے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے‘ یہ زبان تمام دنیا میں بولی جاتی ہے اور اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ ساجد رضوی نے کہا کہ وہ طارق جمیل کو نئے گھر کی مبارک پیش کرتے ہیں‘ اس گھر میں جو شان دار ہال بنایا گیا ہے وہ طارق جمیل کے ادبی ذوق کا مظہر ہے۔ طارق جمیل علم دوست شخصیت ہیں‘ ان کے بزمِ مکالمہ کی نشستیں بھی کامیابی سے ہم کنار ہیں۔ آج کے مشاعرے میں خوب صورت شاعری منظر عام پر آئی ہے۔ اب گل و بلبل کی داستانیں غزل کا حصہ نہیں ہیں۔ آج کے شاعر بہت جینئس ہیں‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو لکھ رہے ہیں‘ وہ ہمارے ماضی‘ حال اور مستقبل کا تجزیہ کر رہے ہیں‘ وہ ہمیں زندگی گزارنے کے ہنر سکھا رہے ہیں‘ وہ ہمیں خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں علمِ عروض کا بہت عمل دخل ہے‘ یہ وہ علم ہے جو اشعار کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ ہر شاعر کو چاہیے وہ یہ علم سیکھے تاہم شاعری تو اس علم کے سیکھے بغیر بھی ہو جاتی ہے کیوں کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے‘ ہر شاعر پر اشعار نازل ہوتے ہیں جن کو ہم ’’آمد‘‘ کے اشعار کہتے ہیں لیکن بہت سے شاعر اشعار تخلیق بھی کرتے ہیں‘ وہ نفسِ مضمون کو عنوان سے مربوط کر دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اردو شاعری زندہ رہے گی اور مشاعرے بھی ہوتے رہیں گے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ ساجد رضوی‘ حنیف عابد‘ ڈاکٹر مختار حیات‘ فیروز‘ ناطق خسرو‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ زاہد حسین جوہری‘ شاہد اقبال‘ حیدر حسنین اورمظہرہانی نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ