ننھے جا سوس۔ پُر اسرار عمارت

369

جی ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنی جانب سے کوشش کی ہے ان کی تصاویر اتارنے کی۔ بے شک ہمارے کیمرے بہت خاص تو نہیں لیکن جہاں سے خریدے ہیں اس کمپنی کا یہی کہنا ہے کہ یہ بہت کمزور نشانات کی عکس بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں ریل موجود ہے جس کو ڈؤلپ کرنے پر ہماری ہر بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ عمارت سے ڈیڑھ دو فرلانگ کے فاصلے پر ایک مقبرہ ہے جو ہشت پہلوی ہے۔ ہم نے سب سے پہلے وہاں کے راستے پر ایسا محسوس کیا تھا کہ کچھ قدموں یعنی جوتوں کے نشانات صرف جا رہے ہیں یا صرف آ رہے ہیں۔ اس بات نے ہماری حسِ جاسوسیت کو مہمیز دی۔ پھر ہم نے کسی جیپ کے ٹائر کے نشان بھی نوٹ کئے لیکن بہت غور کرنے پر بھی اس جیپ کی واپسی کے کوئی نشانات نظر نہیں آئے تو یہ بات ہمارے لئے اور بھی تجسس کا سبب بنی۔ ہم جوتوں اور ٹائروں کے نشانات کے تعاقب میں مزار کے اندر داخل ہوئے تو ایک بہت بڑا سا پتھر مزار کے بیچوں بیچ دیکھا اور اسی پر ٹائروں کے نشانات کو بھی نوٹ کیا جب جیپ یہاں تک آئی تو شاید وہ یہاں سے اڑ کر کہیں چلی گئی اس لئے کہ ریورس ہونے یا موڑ کاٹ کر جانے کے کوئی آثار وہاں نظر نہیں آئے اور اسی طرح جوتوں کے نشانات میں سے کچھ اسی پتھر تک نظر آئے۔ اب ضروری سا محسوس ہونے لگا تھا کہ عمارت کے اندر کا جائزہ لیا جائے لیکن اسی وقت آپ کو دیکھ کر ہمیں خطرہ ہوا کہ شاید اب ہم اندر نہ جا سکیں۔ ہم سمجھ چکے تھے کہ معاملہ کسی اہم نوعیت کا ہے لیکن آپ نے جاتے جاتے ہمیں اجازت دے کر بہت ہی اچھا کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم نہ تو جوتوں کے نشانات کا معمہ حل کر پاتے اور نہ ہی جیپ کے ٹائروں کے نشان دیکھ کر کوئی اندازہ قائم کر پاتے۔ عمارت سے باہر آنے والے جوتوں کے نشانات مقبرے میں جانے والے جوتوں جیسے اور عمارت کے اندر جانے والے جوتوں کے نشانات مقبرے سے باہر آنے والے جوتوں کے نشانات جیسے پائے۔ اس سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ جو مقبرے تک آتا ہے وہ عمارت سے باہر نکل جاتا ہے اور جو عمارت کے اندر جاتا ہے وہ مقبرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تھانے والوں نے جس کا تعاقب کیا تھا وہ آپ کو پوری عمارت میں کہیں بھی نہ مل سکا تھا۔ ویسے تو مسئلہ حل کر ہی چکے تھے لیکن ٹائر کے نشان نے سارا کا سارا مسئلہ روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا۔
انسپکٹر حیدر علی نے حیرت سے کہا، کیا مطلب؟۔ سر اس کا صاف مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ مقبرے کا وہ بڑا سارا پتھر جو اس کے بیچوں بیچ نصب ہے اور جو عمارت کے اندر کے صحن کے درمیان موجود ہے وہ دونوں کسی لفٹ کی طرح کام کرتے ہیں اور مقبرے اور عمارت کے درمیان ایک کشادہ سرنگ کی نشاندھی بھی کرتے۔ انسپکٹر کا بس نہیں چل رہا تھا جمال اور کمال کو اپنے اندر ہی اتار لے۔ خوشی کی وجہ سے اس کے جسم کی کپکپاہٹ کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کیمرے کے علاوہ دیگر اور بہت سی معلومات جمع کرنے کے بعد وہ جمال اور کمال سے اجازت لے کر بہت عجلت میں یہ کہہ کر روانہ ہو گئے کہ انھیں یہ ساری معلومات فوری طور پر خفیہ اداروں تک پہنچانی ہے۔
جمال اور کمال بہت خوش تھے کہ انھوں نے پاکستان کے لیے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ نہ اسکول میں آثارِ قدیمہ کے متعلق کوئی لیکچر ہوتا، نہ ان کے والد صاحب اسی بہانے انھیں ان کی بستی کے قریب پائے جانے والے مقبروں اور ایک وسیع و عریض عمارت کی سیر کرانے لے جاتے اور نہ ہی وہ کسی بھی قسم کی ایسی معلومات حاصل کر پاتے جو پولیس سمیت خفیہ ادارے کے لیے مفید ثابت ہو سکتی تھیں۔
دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں نے جیسے ایک ہل چل مچا کر رکھ دی تھی۔ ہاتھوں ہاتھ اخبارات بک رہے تھے۔ جمال اور کمال بھی اپنی ناشتے کی میز پر بڑے انہماک سے ان خبروں کو پڑھ رہے تھے جو خبریں کم اور رپورٹیں زیادہ لگ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی والدہ و والد بھی ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات کے مطالعے میں مصروف تھے۔
خبروں کے مطابق اسی رات خفیہ ادارے نے پوری مشینری کے ساتھ مقبرے اور عمارت پر ریڈ کیا۔ مقبرے اور عمارت کے اندر ان بڑے پتھروں کو مشینوں کی مدد سے توڑا گیا تو یہ دیکھ کر سب اہل کار اللہ اکبر کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے کہ وہاں ایک جدید اور بہت چوڑی سرنگ موجود تھی جس میں ایک بڑی ساری جیپ دوڑائی جا سکتی تھی۔ دونوں پتھر واقعی لفت نما تھا جن کو نیچے اوپر کیا جا سکتا تھا۔ لفٹ کو آپریٹ کرنے کے لیے جو نظام بنایا گیا تھا وہ ہنڈڈ آپریٹڈ تھا اور یہ اس لئے تھا تاکہ کسی مشین کی آواز آئے بغیر اسے استعمال کیا جاسکے۔ اس پتھر پر آکر انسان یا جیپ کھڑی ہوجاتی، لفت اسے سرنگ کی سطح تک لے جاتی اور جیپ چل کر اس دوسرے پتھر تک جاتی جو عمارت کے صحن میں نصب تھا۔ جیپ کے آنے پر اسے نیچے لایا جاتا اور پھر جیپ کو اس پر کھڑا کر کے اوپر لے جایا جاتا۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ تھی کہ اسی عمارت کے دوسری جانب ایک اور طویل سرنگ بھی دریافت ہوئی جو کئی میل لمبی تھی۔ اس کا دوسرا سرا نکلتا تو پاکستان ہی کی سر حد کے اندر تھا لیکن وہاں سے دشمن ملک کی سرحد بہت ہی قریب تھی۔ سرنگ ہو، مقبرہ ہو یا عمارت، ان سب میں بہت ہی بڑے پیمانے پر بیڑی کا نظام نصب کر دیا گیا تھا اور کچھ مقامات پر مختلف میزائل بھی نصب کر دیئے گئے تھے جن کا رخ دشمن ملک کی ہی جانب تھا۔ ان سب مقامات پر درجنوں میزئلز نصب کرنے کی گنجائش تھی جس پر کام ابھی باقی تھا۔ منصوبے کے مطابق یہاں سے راکٹ فائر کرکے دشمن ملک پر مارے جاتے اور اس کا بہانا بنا کر پہلے پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی اور پھر کوئی بڑا حملہ بھی کر دیا جاتا۔ آخر میں ایک جملہ بہت جعلی حرفوں میں کچھ یوں درج تھا لیکن ہمارے دو ننھے جانبازوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسی معلومات جمع کیں جن سے ہماری خفیہ فورسز دشمن کے عزائم خاک میں ملانے میں کامیاب ہو گئیں۔ مزید یہ بھی لکھا تھا کہ ہم تو ان کو سلام پیش کرتے ہی ہیں، پوری قوم کو بھی ان کو سلام پیش کرے اور ان کی زندگیوں کے لیے دعائیں مانگے۔ آخر کے یہ الفاظ پڑھ کر خوشی اور شکرانے کے آنسو جمال اور کمال کی آنکھوں سے تو بہہ ہی رہے تھے، ان کے والدین بھی بے اختیار خوشی کے اشک بہا رہے تھے۔

حصہ