اللہ کی نصرت و تائید کا حق دار کون؟

631

کائنات کا ذرہ ذرہ اللّٰہ کے حکم کے تابع ہے ۔ گردشِ لیل و نہار سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے ۔ یہ دنیا انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے ۔ مگر جنت مومنین کے لئے ہے۔ دنیا کی امامت کسی بھی قوم کو اس وقت عطا ہوتی ہے جب مجموعی اعتبار سے وہ قوم انسانوں کے لئے خیر اور فلاح کا ضامن ہوتی ہے ۔یوں تو اللّٰہ نےانسانوں اور جنوں کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت اور اطاعت قرار دیا ہے مگر اہل ایمان کو خیر امت قرار دےکر یہ ذمہ داری دی کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے اور اللہ پر ایمان لاؤ گے ۔یہ مقصد بعثت ہے اور اللہ کی نصرت و تائید کے حصول کا پہلا زینہ ہے۔

مگر دین کا کام کرنے کے لئے دین دار ہونا لازمی ہے ۔ داعی میں وہ تمام اوصاف ظاہر اور باطن دونوں میں یکساں طور پر موجود ہوں جس کی و

ہ دعوت دینے چلا ہے۔ داعیانہ کردار کے لیئے اللّٰہ کا تقویٰ اختیار کرنا پڑے گا اس لیے کہ تقویٰ کے بغیر ہدایت ممکن نہیں ہے اور ہدایت کے بغیر صراط مستقیم پر چلنا بھی ممکن نہیں ۔ قرآن پر لاریب ایمان کے باوجود تقویٰ لازمی ہے ۔ البقرہ کی دوسری آیت ’’ یہ لاریب کتاب ہے جو متقیوں کو ہدایت دے گی‘‘ اور متقیوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی ، عظمت و بڑائی ، حتیٰ کی امامت کے بشارتیں ہیں ۔

حدیث قدسی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنت تیار ہوئی تو باری تعالیٰ نے کہا اے جنت تو بول جنت بولی قد افلح المؤمن۔)سورۃ اعلیٰ)۔ ’’بھلائی اس کو نصیب ہوئی جس نے تزکیہ نفس کیا۔‘‘ تقویٰ اور تزکیہ مفہومی اعتبار سے ہم معنی ہیں ۔

سورۃ الشمس ’’فلاح اس کو ملا جس نے تزکیہ نفس کیا اور وہ نا مراد ہوا جس نے نیکی کے جذبے کو دبا دیا ۔‘‘سورۃ الحجرات آیت 13 ’’اے انسانوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا تاکہ اک دوسرے کو پہچان سکو ، بےشک تم میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک اور لوگوں میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللّٰہ سے ڈرنے والا ( پرہیزگار) ہے شک اللّٰہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

جو اہل تقویٰ ہیں وہ جنت کے حقدار ہیں ۔

’’ اللّٰہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو ۔ قرآن مقدس تقویٰ کو کامیابی اور نصرت الٰہی کی شاہ کلید قرار دیتا ہے ۔ ‘‘

’’اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دےکر رشتے نبھاتے ہو ۔‘‘

اک مسلمان اپنی ہر نماز میں صراط مستقیم پر چلنے اور مغضوبین سے بچنے کی دعا مانگتا ہے اور یہی حاصل ہو جائے تو کوئی فرد ، ابای اور تحریک اسلامی کامیاب ہو جائے ۔’’ایمان والو صبر اور نماز سے مدد طلب کرو اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘

حالاتِ جبر وظلم ، معاشی تنگی ، جنگ وجدل ، جان و مال وفصل کے نقصانات ، خوف اور بھوک ہر حال میں صبر اور استقامت دکھانا اور نماز کی پابندی کرنے والے اللہ کی نصرت و تائید کے حق دار ہیں۔ سورۃ حم السجدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر قائم رہے تو فرشتے نازل ہوکر کہتے ہیں نہ ڈرو اور نہ غم کرو تم کو جنت کی بشارت ہے جس کا وعدہ تم سے کیا گیا ہے۔‘‘

سورۃ المعارج ۔ ’’صبر کرو اور بہترین صبر کرو۔‘‘ نہ جس میں گھبراہٹ ہو اور نہ پریشانی ہو ،نہ جلد بازی اور ملال ہو ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کو دو چیزیں لاحق نہیں ہوتی نہ اسے ڈر لاحق ہوتا ہے اور نہ چیزوں کے نقصان پر ملال ہوتا ہے ۔ وہ ہر حال میں راضی بہ رضا ہوتا ہے ۔‘‘

سورۃ الصف ، اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں سے شدید محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں ۔ اللّٰہ کی محبت کی شرط اتحاد اور جہاد فی سبیل اللّٰہ ۔ سورۃ الحج ’’اور اللّہ کے راستے میں جہاد کرو جیسا کے کرنے کا حق ہے اور اس کے لیے تم کو منتخب کیا گیا ہے اور دین کے راستے میں کوئی تنگی نہیں ہے اور تم ملت ابراہیم سے ہو اللہ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ۔‘‘

سورۃ الصف ’’ایمان والو! کیا تمہیں ایسی تجارت نہ بتا دی جائے جو تم کو عذاب الیم سے نجات دے دے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال سے یہی بھلائی کا راستہ ہے۔‘‘بخلاف اس کے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے راستے میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیے وہ اللہ کی رحمتوں کے حق دار ہیں اللہ اُن کی لغزشوں کو معاف کرے گا اور وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ ( البقرہ 218)سورۃ توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے خانہ کعبہ میں حاجیوں کو پانی پلانا اور اس کی خدمت کرنے والے ان کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے اللہ کے راستے میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا۔

جہاد نماز، روزے حج اور زکوٰۃ کی طرح دین کا حصہ ہے اور یہ فرض ہے۔ جہاد فی القتال اس وقت فرض ہو جاتا ہے جب دین جان و مال اور اسلامی ملک کی سرحدوں کو دشمنوں سے خطرہ لاحق ہو جائے نیز اس وقت بھی جہاد کرنا ضروری ہوتا ہے جب کسی خطے کے باشندے ظلم اور زیادتیاں کے شکار ہوں۔

سورۃ النساء ۔ 75 ’’ اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے راستے میں قتال نہیں کرتے ان بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کے لیے جو پکار رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ان ظالم لوگوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے کوئی ولی اور مددگار بھیج ۔‘‘حضرت جابر بن عبداللہ کے والد حضرت عبداللہ جنگ احد میں شہید ہو گئے اللہ کے رسول صلی اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جابر تمہیں بتاؤں کہ اللہ تمہارے والد سے کیا بات کر رہا ہے؟ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس سے بڑھ کر میری کیا خوش قسمتی ہوگی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہارے والد سے ان کی خواہش پوچھ رہا ہے اور تمہارے والد کہہ رہے ہیں کہ باری تعالیٰ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ میں تیرے راستے میں دوبارہ شہید ہو جاؤں ۔ اللہ کہتا ہے میری یہ مشیعت نہیں مگر جو شہید ہے وہ زندہ ہے انہیں مردہ نہ سمجھو ۔

جہاد کرنے والے غازی بن کر حکمرانی کرتے ہیں اور شہید ہوکر ابدلاباد کی زندگی پا لیتے ہیں معرکہ بدر کے بعد جو جہاد کا سلسلہ شروع ہوا اس نے مسلمانوں کو ہزار سالوں تک دنیا کی حکمرانی بخشی اور جب یہ ترک ہوا ذلت و خواری مقدر ہوئی ۔

کارنامہ سن چکے ہو حیدر کرار کا
کر دیا تھا تنگ جینا دہر میں کفار کا
تھا فقط اتنا ارادہ خالد و ضرار کا
تاکہ اونچا نام ہو اسلام کی تلوار کا
ہے وہی دریا مگر پہلی سی تغیانی نہیں
ہم مسلماں ہیں مگر شان مسلمانی نہیں

آخر میں یہ اخلاص کی بہترین قرانی مثال ذہن نشین رہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’میری نماز میری تمام مراسم عبودیت میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے یہ ۔‘‘ (الانعام۔ 162)

حصہ