ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کا کُل سندھ مشاعرہ

358

سید ساجد علی رضوی جو کہ ایک سینئر شاعر ہیں اور فروغِ شعر و سخن میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں‘ آپ ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کے روحِ رواں بھی ہیں‘ آپ نے اپنی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد میں کُل سندھ مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت انور شعور نے کی۔ پروفیسر ڈاکٹر عتیق جیلانی (حیدرآباد) اور خالد عرفان (امریکہ) مہمانان خصوصی تھے جب کہ بزمِ تقدیس ادب (کراچی) کے تمام عہدیداران مہمانانِ اعزازی تھے۔ وقار احمد وقار نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ شجاعت علی طالب نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ساجد علی رضوی نے خطبۂ استقبالیہ میں تمام شرکائے محفل کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی تنظیم کے اغراض‘ ادبی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ کراچی اور حیدرآباد کے ادبی منظر نامے پر بات کرتے ہوئے اہم بعض اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے بزم تقدیس ادب کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کُل سندھ مشاعرے کو اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے کے لیے اہم اقدام قرار دیا۔ زاہد حسین جوہری نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرے ہماری شان دار تہذیب کا حسین تسلسل ہے جو زبان و ادب کے فروغ میں حصہ دار ہے‘ یہ مجلس ادب سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ شاعر اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے۔ انور شعور نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت کامیاب ہے‘ سامعین کی کثیر تعداد یہاں موجود ہے۔ مشاعرے کا ٹیمپو کہیں بھی نہیں ٹوٹا۔ ناظم مشاعرہ نے بہت عمدگی سے مشاعرہ چلایا اور تقدیم و تاخیر کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوئے‘ میں ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کو اس کامیاب مشاعرے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر عتیق جیلانی نے کہا کہ حیدرآباد کے شعرا پوری توانائی کے ساتھ ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں لیکن دبستان کراچی عمدہ شاعری ہو رہی ہے جہاں ہر خطے کے شاعر موجود ہیں۔امید ہے کُل سندھ مشاعرہ ہماری محبتوں میں اضافہ کرے گا۔ خالد عرفان نے کہا کہ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں تو بے شمار مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں یہاں کے شعرائے کرام زندگی سے جڑے ہوئے ہیں‘ ان کی شاعری کے مضامین بہت ولولہ انگیز اور غنائیت سے بھرپور ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ وہ طنز و مزاح نگار ہیں سنجیدہ شاعری کے مقابلے میںیہ شعبہ مشکل ہے۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے اشعار سنائوں جو سب کے لیے قابل قبول ہوں اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ انہوں نے ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوںنے انہیں مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا۔ بزم تقدیس ادب کراچی کے احمد سعید خان نے اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جنہوںنے ان کی تنظیم کے لیے ایک باوقار پروگرام ترتیب دیا ہماری تنظیم اردو زبان و ادب کے لیے کوشاں ہے‘ ہمای کوشش ہوتی ہے کہ ہم ادبی پروگرام کرتے رہیں۔ ان دنوں مشاعرے بہت ہو رہے ہیں لیکن معیاری تنقید نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے معیاری تخلیقات کم ہوتی جا رہی ہیں جب تک ہم تنقید نگاری میں ایمان داری نہیں کریں گے‘ دوستی نبھانا بند نہیں کریں گے ہمارا ادب ترقی نہیں کرے گا۔ مشاعرے میں انور شعور‘ خالد عرفان‘ عتیق جیلانی‘ آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ اوسط علی جعفری‘ احمد سعید خان‘ ضیا حیدر زیدی‘ احمد سعید خان‘ اختر سعیدی‘ ریحانہ روحی‘ زاہد حسین جوہری‘ سلیم فوز‘ صاحب زادہ عتیق الرحمن‘ مرزا عاصی اختر‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ دل شاد زیدی‘ چاند علی‘ خالد میر‘ سلمان عزمی‘ کشور عروج‘ تاجور شکیل‘ وقار احمد وقار‘ مصطفی ایوب‘ ندیم گیلانی‘ ساجد فہیم‘ رئیس انصاری‘ اقبال شاہ اور شجاعت علی طالب نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

بزمِ محبانِ ادب کے زیر اہتمام مشاعرہ

گزشتہ ہفتے بزمِ محبان ادب کراچی نے بہادر یار جنگ اکیڈمی کراچی میں افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی چالیس سالہ دوستی کی سالگرہ منائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں سعید الظفر صدیقی صدر تھے‘ فیاض علی فیاض اور ثبین سیف مہمانان خصوصی تھے جب کہ محمد ظفر (امریکہ) اور حامد اقبال (اٹلی) مہمانان اعزازی تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت عبدالباسط نے حاصل کی جب کہ نعت رسولؐ عابد شیروانی نے پیش کی۔ کشور عروج نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرنے کے علاوہ نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم انٹرنیشنل ہو گئی ہے اب امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور اٹلی میں بھی بزمِ محبان ادب کے تحت پروگرام ہوں گے۔ حامد اقبال اور محمد ظفر ہمارے کنوینر ہیں جو کہ امریکہ اور اٹلی میں مشاعروں کا اہتمام کریں گے ہم شعر و سخن کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ہم کسی کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کرتے‘ ہم نے آج افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ کے چالیس سالہ رفاقت کو پرموٹ کیا ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ میرے قریبی دوست ہیں ہم نے ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں نوکری کی‘ ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ عابد شیروانی نے کہا کہ وہ اور افتخار ملک بہترین دوست ہیں‘ دنیا ہماری دوستی کو دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ ہم چالیس سال سے کس طرح ایک ساتھ رہ رہے ہیں‘ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو اہمیت دیتے ہیں۔ امید ہے کہ ہماری دوستی مرتے دَم تک قائم رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں سامعین کی بڑی تعداد بھی موجود ہے جس کے باعث مشاعرہ بہت شان دار ہو گیا ہے۔ اب مشاعروں سے سامعین غائب ہو رہے ہیں ہمارا فرض ہے کہ سامعین کے لیے چارمنگ پیدا کریں تاکہ سامعین بھی مشاعرہ گاہ تک آسکیں۔ آج کشور عروج نے بہت شان دار نظامت کی ہے۔ اٹلی سے تشریف لائے ہوئے حامد اقبال خان نے کہا کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اٹلی میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کریں گے۔ امریکہ سے تشریف لائے ہوئے محمد ظفر نے کہا کہ وہ کشور عروج کے ممنون اور شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے لیے اتنی شان دار تقریب سجائی۔ ہم اس پروگرام سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں بہت سے ادبی ادارے مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں اب وہاں بزمِ محبان ادب کا بینر بھی لگ جائے گا۔ مشاعرے کے صدر سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ مشاعروں سے ادب پروان چڑھتا ہے مشاعرہ ایک مشرقی روایت ہے جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔ شعرائے کرام بہت اہم ادارہ ہے جو معاشرے شعرائے کرام سے گریزاں ہیں وہ ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ زمینی حقائق سے مربوط اشعار زندہ رہتے ہیں یہ گل و بلبل کا زمانہ نہیں ہے ہمیں ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے جب تک معاشرے میں امن قائم نہیں ہوگا کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکے گا اس مشاعرے میں سعید الظفر صدیقی‘ فیاض علی خان‘ ثبین سیف‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکر نثار‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ شائستہ سحر‘ یاسر سعید صدیقی‘ دل شاد خیال‘ رفعت اسلام‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ رفیق مغل‘ شائق شہاب‘ مقصود شاہ‘ زبیر راج‘ تاجور شکیل‘ مہر جمالی‘ فرحانہ اشرف‘ شازیہ عالم شازی‘ عفت مسعود‘ کشور عروج‘ عزیز وصیاور ڈاکٹر مان مختار نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ