سلام گزار ادبی فورم انٹرنیشنل کراچی کے زیر اہتمام اصغر علی سید کے گھر گلستان جوہر کراچی میں قمر وارثی کی صدارت میں طرحی مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں عبیداللہ ساگر مہمان اعزازی تھے جب کہ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس مشاعرے میں صرف ردیف دی گئی تھی ہر شاعر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ بحر اور قافیہ اپنی مرضی سے منتخب کریں سب سے پہلے ’’سود مند‘‘ ردیف پر شائق شہاب نے حمد پیش کی جب کہ شہناز رضوی نے نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ طرحی مشاعرے سے مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے۔ دبستانِ وارثیہ طویل عرصے سے طرحی مشاعروں کا اہتمام کرتی ہے لیکن اب کئی اور ادبی ادارے طرحی مشاعروں کا اہتمام کر رہے ہیں جو کہ قابلِ ستائش اقدام ہے۔ سلام گزار ادبی فورم حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے ردیف دے کر سلام حسین مشاعروںکا اہتمام کر رہی ہے جس سے رثائی ادب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں جو قربانی پیش کی تھی وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؓ نے باطل کی اطاعت نہیں کی بلکہ سچائی کی راہ میں اپنی جانیں قربان یں ہم انہیں سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سید مقبول زیدی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ واقعۂ کربلا مینارۂ نور ہے اس کی روشنی سے سارا جہاں منور ہے یہ حق و باطل کی جنگ ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ حق کی خاطر اپنی جان قربان کر دی جائے۔ حضرت امام حسینؓ نے ناقابل فراموش قربانی دے کر اسلام کو بچایا ہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی اور ساری دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی۔ اس طرحی مشاعرے میں قمر وارثی‘ عبیداللہ ساگر‘ مقبول زیدی‘ سلطان رضوی بختیار خاور‘ الحاج نجمی‘ فرحت عابد‘ سمیع نقوی‘ نسیم کاظمی‘ جمال احمد جمال‘ آسی سلطانی‘ شارق رشید‘ ضیا سرسومی‘ عروج زیدی‘ آفتاب عالم قریشی‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ‘ مانوس ناطق‘ کاوش کاظمی‘ عدنان عکس‘ خمار زیدی‘ محمد اخلاق‘ علی اسود‘ رانا خالد محمود‘ تارہ جعفری‘ ہما ساریہ اور اصغر علی سید نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
بزمِ نگارِ ادب پاکستان کا طرحی مشاعرہ
طرحی مشاعرے اور تنقیدی نشستوں میں کمی آتی جا رہی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ کہ شعرائے کرام سہل پسند ہو گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بزمِ نگار ادب پاکستان کے چیئرمین سخاوت علی نادر نے فاران کلب میں ہونے والے طرحی مشاعرے کے موقع پر اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ طرحی مصرع ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ پر شعرائے کرام نے اپنے اپنے اشعار کے تحت اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کا عمل جاری ہے‘ ہم اردو زبان کی خدمت کر رہے ہیں جو لوگ ہماری معاونت کر رہے ہیں ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔ آج کا مصرع اسد اللہ خان غالب کا ہے جو کہ اردو شاعری میں بلند مقام پر فائز ہیںجن سے ہم فیض یاب ہوتے رہیںگے۔ حنیف عابد اور خلیل احمد ایڈووکیٹ مہمانان اعزازی تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تاج علی رانا نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اختر سعیدی‘ ریحانہ روحی‘ خلیل احمد ایڈووکیٹ‘ حنیف عابد‘ آفتاب عالم قریشی‘ سید افسر علی‘ افضل ہزاروی‘ عارف بشیر‘ دلشاد خیال ایڈووکیٹ‘ یاسر سعید صدیقی‘ ہما اعظمی‘ فخر اللہ شاد‘ شائق شہاب‘ تاج علی رانا‘ محمد علی سوز‘ سامیہ ناز‘ سخاوت علی نادر‘ سلمان عزمی‘ تنویر سخن نے اپنا کلام پیش کیا۔
ارتقاء آرگنائزیشن اور بزمِ یارانِ سخن کا مشاعرہ
ارتقا آرگنائزیشن ملتان نے بزمِ یارانِ سخن کراچی کے تعاون سے ملتان میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جس میں قطر سے تشریف لائے ہوئے اردو اور ہریانوی زبان کے معروف شاعر رانا انور نے خصوصی شرکت کی۔ خواجہ مظہر نواز مہمان خصوصی تھے۔ طلحہ زبیر نے تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت حاصل کی۔ مشہود صدیقی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس شعری نشست میں رانا انور‘ خواجہ مظہر نوازصدیقی‘ قمر رضا شہزاد‘ واقف ملتانی‘ عمر شاہد‘ سرور چوہان‘ ارشد عباسی ذکی نے غزلیں پیش کیں۔ رانا انور نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ آج کے اس باوقار مشاعرے میں ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ مشاعروں کا انعقاد ایک بہترین عمل ہے۔ مشاعرہ ہماری ذہنی آسودگی کا ایک ذریعہ ہے زبان و ادب کی ترقی میں مشاعرے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سرور چوہان نے کہا کہ وہ آج ملتان میں وہ اپنی تنظیم بزمِ یارانِ سخن کراچی کی نمائندگی کر رہے ہیں ہماری تنظیم کراچی میں طویل عرصے سے شعر و سخن کی خدمت کر رہی ہے آج ہم نے ارتقا آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر مشاعرہ ترتیب دیا ہے کراچی اور ملتان کے شعرا کے یہاں مقامی مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی تعاون کے مضامین بھی ملتے ہیں۔ دبستان کراچی کے شعرا غزل کے روایتی مضامین کے علاوہ جدید اسلوب اور جدید لب و لہجے میں بات کرتے ہیں مجھے امید ہے کہ شعر و سخن مزید ترقی کرے گا۔ خواجہ مظہر نواز صدیقی نے کلمات تشکر ادا کیے۔