(آخری قسط)
طاہر مسعود: حالی اور محمد حسین آزاد کے بعد سے مغربی ادب کے اثرات اردو ادب پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور اب صورت حال یہ ہے کہ مغرب میں چلنے والی ادب اور لسانیات کے حوالے سے ہر نئی تحریک اردو ادب و تنقید کو متاثر کر رہی ہے۔ وہی مباحث اور وہی ادبی‘ لسانی اور فلسفیانہ مباحث ہمارے ہاں ادیبوں اور نقادوں کا موضوع بن جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ رویہ کیا اردو ادب کے لیے صحت مندانہ ہے؟ کیا اس سے یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ ہمارے ادیب و نقاد اپنی کوئی اوریجنل فکر نہیں رکھتے بلکہ مستعار موضوعات و مسائل ہی کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔
احمد جاوید: ایک حد تک دوسری تہذیبی روایتوں سے متاثر ہونا جبری اور فطری ہے۔ خود مغرب غیر مغربی دنیا سے اثر لیتا آیا ہے۔ تہذیبوں کے درمیان تعلق میں یہ لین دین ایک معمول کی بات ہے۔ تاہم یہ دیکھنے کی چیز ہے کہ ہم مغرب سے جو اثرات قبول کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں۔ آیا وہ ہمارے تہذیبی اصول کے لیے چیلنج بن رہے ہیں یا ان کی حیثیت اسی طرح کی ہے جیسی کہ کسی چلتی ہوئی مشین کے لیے درکار فاضل پرزوں کی ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ معاملہ پہلا ہے۔ اپنے نوآبادیاتی ماضی اور اس سے پیدا ہونے والے شعوری اور وجودی اضمحلال کی وجہ سے ہم تہذیبی احساس کمتری کا شکار ہیں اور مغرب کی تہذیبی برتری کی نشانی ماننے پر مصر یا مجبور ہیں۔ اسی پوزیشن کے ساتھ جب ہم مغرب سے کوئی اثر لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ کلی نوعیت کا نکلتا ہے‘ محض جزوی نہیں رہتا۔ ویسے دیکھا جائے تو شاید اس بات کا انکار نہ کیا جاسکے کہ مغربی اثرات نے زندگی اور اس کی تخلیقی سرگرمیوں میں بھی ہمیں بہت کچھ فائدہ بھی پہنچایا ہے۔ مثلاً سرسید‘اقبال‘ ن۔م راشد‘ فیض احمد فیض اور ایسے کچھ اور نام مغرب کی قبولیت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتے تھے۔ لیکن مسئلہ اتنا سادہ اور یک طرفہ نہیں ہے۔ کوئی تہذیب دوچار بڑے شاعروں کے پیچھے اپنے اصول سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ ایک اقبال کے بعد سے ہم مغرب کا ہر اثر لالچی اور نادار بچوں کی طرف قبول کرنے لگے ہیں جس سے ہماری تہذیب وجود میں تو دور کی بات شعور میں بھی باقی نہیں رہتی۔ کم از کم اقبال نے مغرب کی فکری اور تخلکیقی روایت سے بہت گہرائی میں متاثر ہونے کے باوجود اپنی تہذیبی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہ ہونے دیا۔ لیکن ان کے بعد علم و ادب میں محمد حسن عسکری کو چھوڑ کر کوئی ایک ادیب و نقاد ایسا نہیں ہے جو مغرب سے استفادے کو بھی اپنی تہذیب کی بنیادی انفرادیت میں تقویت کا سبب بنا سکے۔
طاہر مسعود: اب ایک سوال آپ کے ذہنی اور علمی نشوونما کے حوالے سے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے ذہن و قلب پر کن شخصیات نے ادبی حوالے سے سب زیادہ اثرات مرتب کیے؟
احمد جاوید: میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ اپنی تمام تر نالائقی اور نااہلی کے باوجود مجھے لڑکپن سے ہی ایک تو دوست بہت اچھے ملے اور دوسرے اساتذہ۔ شعر و ادب میں سلیم احمد میرے لیے سب کچھ ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ ادب اور شاعری سے میری ٹوٹی پھوٹی دل چسپی کی سب سے بڑی وجہ وہ محبت ہے جو دسویں جماعت سے سلیم احمد کے لیے میرے دل کا بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ سلیم احمد شاعر و ادیب تو بہت بڑے تھے‘ اتنے بڑے کہ ہمارے مروجہ تنقیدی اصول ان کی مختلف النوع بڑائیوں کی طرف کوئی بلیغ اشارہ کرنے کے بھی قابل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ آدمی بہت عجیب تھے۔ محبت‘ انکسار‘ بے تکلفی‘ ایثار‘ درگزر‘ وسیع المشربی‘ کشادہ دلی‘ مخالف کا اکرام وغیرہ ایسے اوصاف اپنی انتہائی حالت میں ان کی شخصیت میں رچے بسے تھے۔ وہ دوست تھے تو بہترین دوست تھے۔ بیٹے تھے تو بہترین بیٹے تھے‘ باپ تھے تو بہترین باپ تھے وغیرہ وغیرہ۔ غرض زندگی میں آدمی جن جن پوزیشن پر ہوتا ہے وہ ہر پوزیشن پر بہترین تھے۔ میں نے ان کے علاوہ کوئی ادیب یا عالم وغیرہ ایسا نہیں دیکھا جو اپنے ناچیز شاگردوں کو بھی اصرار کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہو کہ مجھ سے اختلاف کیا کرو۔ یہ ایک خوبی ہی کسی بھی انسانی شخصیت کے لیے کرامت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں جس طرح کی وسیع الظرفی‘ بے نفسی‘ انکسار اور احساسِ ذمہ داری شامل ہے‘ اس کا تصور کرنا بھی اچھے اچھوں کے لیے محال ہے۔ میں نے الحمدللہ انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس انتہائی قریبی تعلق میں جو دس برسوں کو محیط ہے‘ ایک لمحہ بھی ایسا نہیںگزرا جس میں خدانخواستہ یہ محسوس ہوا کہ سلیم احمد میں تعلق کی جہت سے فلاں کمزوری پائی جاتی ہے۔ مجھے محمد حسن عسکری صاحب اپنی مسلمہ ادبی عظمتوں کے باوجود بہ طور شخصیت اچھے نہیں لگتے تھے‘ اس کا بھی بڑا سبب یہ تھا کہ میں انہیں سلیم بھائی کے ساتھ تحقیر آمیز روّیہ اختیار کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ لیکن سلیم بھائی کا یہ عالم تھا کہ اپنے استاد کی ہر استہزائی رویے کو نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ فخریہ قبول کرتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ عسکری تو ظاہر ہے حضرت نظام الدین اولیا نہیں ہیں لیکن سلیم احمد امیر خسرو ضرور ہیں۔ میں سلیم بھائی کے سامنے زیادہ تر گونگا بیٹھا رہتا تھا‘ کوئی بات کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی‘ ایسے کسی واقعے کے بعد میں نے جوشِ جذبات میں ان سے یہ کہہ دیا کہ آپ جس کے سامنے امیر خسرو بنے ہوئے ہیںوہ حضرت نظام الدین اولیا نہیں ہیں۔ اس بات پر وہ باقاعدہ ناراض ہو گئے کہ تم نے تین آدمیوں کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ جہالت کی وجہ سے مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ پوچھ لیا کہ وہ تین آدمی کون ہیں جن کی توہین کا میں مرتکب ہوا ہوں۔ فرمایا حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا‘ حضرت امیر خسرو اور محمد حسن عسکری۔ یہ سن کے مجھے غصہ آیا کہ عسکری صاحب کو ان دو بزرگوں میںکہاں شامل کر دیا۔ لیکن سلیم بھائی عسکری صاحب سے ایسی ہی عقیدت رکھتے تھے جیسے کوئی مرشد اپنے مرید سے رکھتا ہے۔
طاہر مسعود: معاف کیجیے۔ سلیم احمد سے آپ کی عقیدت کے تذکرے سے ایک پرانا قصہ یاد آگیا۔ آپ بھولے تو نہ ہوں گے کہ بہت سال پہلے ’’شبِ خون‘‘ میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کے حوالے سے ایک مذاکرہ شائع ہوا تھا۔ اس مذاکرے میں آپ نے فرمایا تھا کہ سلیم احمد کی فکر میں جو کچھ ہے وہ محمد حسن عسکری کی فکر کی بازگشت ہے‘ ان کا اپنا کچھ نہیں ہے۔ آپ کے ان خیالات پر ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر اور نقاد مبین مرزا نے گرفت کی تھی اور آپ دونوں کے درمیان ’’دنیا زاد‘‘ اور ’’مکالمہ‘‘ میں ایک بحث بھی چلی تھی۔ کیا آپ ان خیالات سے تائب ہو چکے ہیں جو سلیم احمد کے حوالے سے ’’شبِ خون‘‘ کے مذاکرے میں آپ نے ظاہر کیے تھے؟
احمد جاوید: بھائی! صاف بات یہ ہے کہ وہ میں نے جھک ماری تھی۔ مبین مرزا صاحب نے بالکل صحیح گرفت کی تھی۔ میں نے متنبہ ہونے اور ان کا شکر گزار ہونے کے بجائے ایک فضول سی بحث چھیڑ دی۔ مجھے اپنی خرافات پر معذرت کرنی چاہیے تھی مگر اندھیرے کی ایک باڑھ مجھے بہائے لیے پھرتی رہی۔ بہرحال اب ان تمام پر قلق ہے‘ شرمندگی ہے اور میں انہیں اون نہیں کرتا۔ عسکری صاحب پر بھی بہت بے احتیاطی سے گفتگو کی۔ تاہم ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اس فضول مذاکرے میں سلیم بھائی کے حوالے سے جو بے سروپا بات کی تھی‘ اس کے پیچھے نیت یہ تھی کہ اپنی غیر جانب داری ثابت ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ایک محبوب استاد کے قابل رشک کارناموں کو عسکری صاحب کے کھاتے میں ڈالنے کا عمل میں کم از کم اس نیت کے بغیر نہیں کرسکتا تھا لیکن یہ بھی بلاوجہ کا عذر ہے۔ منہاس نیت کی ضرورت تھی نہ اس کے غلط سلط اظہار کی۔ بس غلطی ہوگئی جو آج بھی یاد آتی ہے تو توبہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ کو سلیم احمد کے علاوہ قمر جمیل مرحوم کی صحبت سے بھی فیض اٹھانے کا موقع ملا‘ کچھ ان کے بارے میں اپنے تاثرات سے آگاہ فرمائیں۔
احمد جاوید: ستر کی دہائی میں شہر کراچی میں دو بڑے ادبی حلقے تھے۔ ایک سلیم بھائی کا اور دوسرا قمر جمیل کا۔ دونوں حلقے ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے لیکن سلیم احمد اور قمر جمیل خود آپس میں انتہائی بے تکلف دوست تھے۔ اس کشاکش کی فضا میں کہا جاسکتا ہے کہ مجھے یہ شرف حاصل تھا کہ میں دونوںحلقوں میں خاصا وقت گزارتا تھا اور سلیم احمد کا جذباتی مقلد اور حامی ہونے کے باوجود قمر جمیل صاحب اور ان کے حلقے کے لیے بڑی حد تک قابل قبول تھا۔ مجھے کچھ مہینوں تک قمر جمیل صاحب کے ساتھ رہنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ میں نے انہیں ایک جوالا مکھی کی طرح پایا۔ ہمہ وقت تخلیقی وفور سے بھرا ہوا‘ شاعری میں تمثال سازی کے معاملے میں ایک عزیز حامد مدنی صاحب کو چھوڑ کر کراچی کا کوئی شاعر ان کا حریف نہ تھا۔ اتنی گمبھیر اور طاقت ور امیج تخلیق کرتے تھے کہ لفظوں کے معنی ثانوی اور غیر ضروری محسوس ہونے لگتے تھے۔ نثری شاعری کے اگر بانی نہیں تھے تو امام ضرور تھے۔ اردو میں نثری نظم کا جتنا بھی فروغ ہوا اس میں سب سے زیادہ ہاتھ قمر جمیل کا تھا۔ شہر کے اکثر جدید مزاج کے شاعر اور ادیب ان کے گرد گھیرا کیے رہتے تھے اور ان کے خلاقانہ خطاب سے اپنا تخلیقی مواد اور لائحہ عمل حاصل کرتے تھے۔ اس زمانے کے کراچی کا ہر دید شاعر ممکن ہی نہ تھا کہ خود کو قمر جمیل کی شاگردی سے دور رکھ سکے۔ ثروت حسین‘ عذرا عباس‘ انور سن رائے‘ مرحوم محمود کنور‘ احمد ہمیش‘ رئیس فروغ‘ فاطمہ حسن‘ سیما خان اورک زائی‘ شوکت عابد‘ افضال احمد سید‘ سارہ شگفتہ‘ غرض کئی اور نام۔ جن کے شعری کیریئر کی تعمیر میں قمر جمیل کی رہنمائی کا خاصا دخل تھا۔
قمر بھائی بہت سخی‘ پُرجوش اور بھولے آدمی تھے۔ انہوں نے شاعری فلسفے وغیرہ میں اپنے اشتغال کو اس بھولپن پر اثر انداز نہ ہونے دیا جو ان کی شخصیت میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت خوش مزاج تھے اور یہ خوش مزاجی ابتذال اور گھٹیا پن سے بالکل پاک تھی۔ ان کی خوشی میں بھی ایک روحانی نشاط کا پہلو ہوا کرتا تھا اور پریشانی کا سامنا ایک پُر امید بچے کی طرح کیا کرتے تھے۔ قمر جمیل صاحب کے یہاں ہی احمد ہمیش‘ طلعت حسین‘ ضمیر علی بدایونی مرحوم‘ محمود کنور مرحوم اور سب سے بڑھ کر رئیس فروغ مرحوم صاحب سے تعارف بلکہ قلبی تعارف ہوا۔ یہ سب اپنی اپنی طرز کے نادر لوگ تھے۔ یہاںمیں خاص طور پر رئیس فروغ صاحب کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میرا ان سے بہت قریبی تعلق تھا‘ ان سے کسی بات کا کوئی پردہ نہ تھا لیکن میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی کے لیے غیبت اور بدخواہی کا ایک حرف بھی نہیں سنا۔ یہ ایسا وصف ہے کہ اولیاء اللہ بھی اس پر رشک کریں۔ اس کے علاوہ شاعر بھی بہت اچھے تھے ہاں ایک صاحب کا نام میں بھول گیا جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ علم اور خیر کا ایسا مجموعہ شاید ہی آج کوئی دیکھ سکے اور وہ صاحب تھے محب عارفی صاحب‘ قمر جمیل کے بہنوئی۔
طاہر مسعود: اپنی زندگی کے آخری دنوں میں قمر جمیل بہت تنہا ہو گئے تھے‘ نوجوان ادیب و شعرا نے ان کے پاس آنا جانا ترک کردیا تھا غالباً اسی ڈپریشن کی کیفیت میں انہوں نے میرے انٹرویو میں نثری نظم کی ناکامی کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ کیا آپ ان کے اس اعلان کی تصدیق کرتے ہیں؟
احمد جاوید: میرے خیال میں قمر بھائی کا یہ احساس ان کے ڈپریشن کے نتیجے میں نہیں تھا بلکہ یہ بات وہ پہلے بھی کیا کرتے تھے اور یہ بات ٹھیک ہے کہ اردو شاعری میں نثری نظم کو پنپنے کا ماحول بھی نہیں ملا اور ٹیلنٹ بھی۔
طاہر مسعود: کوئی اور سوال جو میں پوچھ نہ سکا ہوں؟
احمد جاوید: (ہنستے ہوئے) بہت عمدہ‘ کوئی اور بات نہیں۔