قیصرو کسریٰ قسط (109)

329

کلاڈیوس نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ فسطینہ کے سر پر رکھ دیئے اور انتہائی کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’میری بہن مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے لیے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔ میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ میں تمہیں تسلی دے سکوں۔ میری ذمہ داری تھی میں تمہیں اور تمہاری والدہ کو ایک بہت بڑے خطرے سے نکالنا ہے اور اس ذمہ داری سے میں اس صورت میں عہدہ برا ہوسکتا ہوں کہ تم حوصلے اور ہمت سے کام لو۔ میں یہ جانتا ہوں کہ میں دست گرد سے جو خبر لایا ہوں اُسے سننے اور برداشت کرنے کے لیے ایک پہاڑ جیسے دل کی ضرورت ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری چیخیں تمہارے سینے میں دبی رہیں اور تمہارے آنسو تمہاری آنکھوں سے باہر نہ نکلیں‘‘۔

فسطینہ سکتے کے عالم میں کلاڈیوس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور کلاڈیوس ایسا محسوس کررہا تھا کہ اُس کے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ ’’فسطینہ‘‘! اُس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’تمہارا باپ واپس نہیں آئے گا۔ اُسے پرویز نے قتل کردیا ہے۔ عاصم کو قید کرلیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کسی دن آزاد ہو کر تمہارے پاس پہنچ جائے لیکن دستِ گرد میں تمہارے باپ کے دوستوں کو اِس بات کا خدشہ ہے کہ شاید تمہارے متعلق بھی پرویز کی نیت ٹھیک نہ ہو۔ مجوسی کاہن اُسے ہروقت تمہارے خلاف مشتعل کرسکتے ہیں۔ تمہارے خلاف اُن کا یہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ تم عیسائی ہو۔ اب پرویز کی سلطنت میں تمہارے باپ کے کسی عزیز یا ساتھی کی زندگی محفوظ نہیں۔ کاش کوئی ایسی صورت ہوتی کہ ہم تمہیں اپنے ساتھ قسطنطنیہ لے جاتے لیکن یہ ممکن نہیں۔ ایران کے سفیر ہمارے ساتھ جارہے ہیں۔ پرسوں رات اگر تم کسی بہانے یہاں سے نکل سکو تو شہر سے باہر قریباً تین میل، جنوب کی طرف سمندر کے کنارے ایک اُجڑی ہوئی خانقاہ کے قریب چند آدمی تمہارا انتظار کررہے ہوں گے۔ اگر میں کسی وجہ سے اُن کے ساتھ نہ آسکا تو میری جگہ ولیریس وہاں موجود ہوگا۔ ہمارا جہاز ساحل سے دور کھڑا رہے گا اور تمہارے لیے رات کے وقت ایک کشتی بھیج دی جائے گی۔ آپ میری باتیں سُن رہی ہیں‘‘۔

فسطینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ دیر تک پتھر کی بے جان مورتی کی طرح بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔ پھر اچانک اُس نے ایک جھرجھری لی اور اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔

کلاڈیوس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تمہارے باپ کی آخری خواہش یہی ہوسکتی تھی کہ تم مجوسیوں کے انتقام سے بچ کرکسی محفوظ جگہ پہنچ جائو۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ قسطنطنیہ کب تک محفوظ رہ سکے گا۔ لیکن میں تمہارے ساتھ یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ جب تک باسفورس کا پانی ہمارے خون سے سرخ نہیں ہو جاتا اور جب تک قسطنطنیہ کی گلیوں اور بازاروں میں ہماری لاشوں کے انبار نہیں لگ جاتے ہم تمہاری جان اور عزت کی حفاظت کریں گے۔ کم از کم تمہیں یہ شکایت نہیں ہوگی کہ قیصر کے کسی سپاہی نے اپنے زندگی میں سین کی بیوی اور بیٹی کی بے بسی کا منظر دیکھا ہے۔

سین نے جس مقصد کے لیے قربانی دی ہے وہ صرف اس حد تک پورا ہوا ہے کہ پرویز نے ہمارے ساتھ گفتگو کرنا قبول کرلیا تھا۔ لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ صلح کے لیے اُس کی توہین آمیز شرائط انتہائی بزدل رومیوں کے لیے بھی ناقابل قبول ہوں گی۔ ہمارے لیے دستِ گرد سے زندہ واپس آنے کی، یہی ایک صورت تھی کہ ہم پرویز کے سامنے سرتسلیم خم کردیں لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اب امن کی بجائے رُوم اور ایران کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جنگ کی صورت میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔

ابھی تک یہاں سین کی موت کے متعلق کوئی سرکاری اطلاع نہیں پہنچی۔ دست گرد سے جو ایرانی ہمارے ساتھ آئے ہیں انہوں نے صرف ایرانی فوج کے چند بڑے عہدہ داروں سے باتیں کی ہیں اور قائم مقام سپہ سالار نے انہیں بڑی سختی سے یہ ہدایت کی ہے کہ وہ عام سپاہیوں سے اس حادثے کا ذکر نہ کریں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ بہت جلد یہ خبر سارے لشکر میں مشہور ہوجائے گی اور اس کے بعد تمہارے لیے قلعے سے باہر نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوچار دنوں تک پرویز کا ایلچی تمہیں دست گرد پہنچانے کا حکم لے کر آجائے اور یہاں تمہارے باپ کے بہترین دوست بھی تمہارے لیے کچھ نہ کرسکیں۔ اِس لیے ابھی یہ بات کسی پر ظاہر نہیں ہونی چاہیے کہ تمہیں اپنے باپ کی موت کی اطلاع مل چکی ہے۔ میری بہن! میں یہ جانتا ہوں کہ اس وقت تمہارے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ لیکن یہ جگہ آنسو بہانے کے لیے موزوں نہیں ہے‘‘۔

فسطینہ نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ پرویز نے میرے باپ کو قتل کردیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ امی جان! کہا کرتی ہیں کہ وہ بچپن کے دوست تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اگر آپ کی باتیں درست ہیں تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گی‘‘۔

کلاڈیوس کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوچکی تھیں۔ اُس نے بھرآئی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’فسطینہ تمہارا باپ مرچکا ہے۔ لیکن عاصم زندہ ہے، اور تمہیں اس کے لیے زندہ رہنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ رہائی کے بعد وہ تمہاری تلاش میں دُنیا کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ کیا تم یہ گوارا کرلو گی، تم ایک قیدی کی حیثیت میں دست گرد پہنچادی جائو اور کسریٰ کے محل کی دیواریں مرتے دم تک عاصم اور تمہارے درمیان حائل رہیں، تمہیں معلوم ہے کہ اب بھی وہاں تم جیسی تین ہزار لڑکیاں موجود ہیں۔ جن کی فریاد اُن کے والدین، اُن کے بھائیوں یا شوہروں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی؟‘‘۔

فسطینہ نے شدت کرب سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

کلاڈیوس قدرے توقف کے بعد فیروز کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میں زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہر سکتا۔

اگر تم سین کے وفادار ہو تو تم ان کی مدد کرسکتے ہو۔ پرسوں رات میرے آدمی تمہیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کریں گے، اور یہ اُن کی پہلی اور آخری کوشش ہوگی۔ اس کے بعد ہمیں شاید دوسرا موقع نہ مل سکے۔ اگر فوج کا کوئی بڑا افسر تمہارے آقا کا وفادار ہے تو وہ میری باتوں کی تصدیق کردے گا‘‘۔

فیروز کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اُس نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فوج کا کوئی افسر مجھ سے یہ خبر چھپانے کی کوشش نہیں کرے گا، لیکن مجھے تصدیق کی ضرورت نہیں۔ میرے آقا کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ دست گرد سے واپس نہیں آئیں گے۔ اب اگر پرسوں تک کوئی اور حادثہ پیش نہ آگیا تو ہم سمندر کے کنارے آپ کی کشتی کا انتظار کریں گے۔ میں وہ پرانی خانقاں کئی بار دیکھ چکا ہوں‘‘۔

کلاڈیوس نے فسطینہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی والدہ کو تسلی نہیں دے سکا۔ لیکن اگر وہ یہاں موجود ہوتیں تو شاید میرا کام اور زیادہ مشکل ہوجاتا۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔

فسطینہ نے اُس کی طرف دیکھا، لیکن کوشش کے باوجود اُس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔

کلاڈیوس ایک ثانیہ کے بعد خدا حافظ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا اور فیروز اس کے پیچھے ہولیا۔

سلطنت روما کی صدیوں کی عظمت خاک میں مل چکی تھی اور کجکلاہِ ایران قیصر کے ایلچیوں سے انتہائی توہین آمیز شرائط منوانے کے بعد روئے زمین کا مغرور ترین انسان بن چکا تھا۔ عوام فتح کا جشن منا چکے تھے اور ان سات دنوں میں ان کے میکدے شراب سے خالی ہوچکے تھے۔ کسریٰ کے مفتوحہ ممالک کی افواج کو اپنے حکمران کی کامیابی کی اطلاع ذرا تاخیر سے ملی۔ تاہم انہوں نے بھی جشن کی رسومات پورے جوش و خروش سے ادا کیں۔ بے بس عوام کے لیے یہ دن قیامت کے دن تھے۔ شراب سے بدمست سپاہیوں کی ٹولیاں ان دنوں بھوکے بھیڑیوں کی طرح انسانوں کی بستیوں میں گھومتی تھیں اور وحشت اور بربریت کے جگر خراش مناظر جو ان لوگوں نے اپنی شکست کے ایام میں دیکھے تھے وہ پھر ایک بار پوری شدت کے دہرائے جارہے تھے۔ ایشیائے کوچک مصر اور شام کی فضائیں ظالموں کے قہقہوں اور مظلوموں کی چیخوں سے لبریز تھیں۔

کسریٰ کے لیے اس جشن کے بعد بھی ہر دن جشن کا دن تھا۔ وہ عام طور پر شراب سے مدہوش رہتا تھا اور جب کبھی شراب کا نشہ کم ہونے لگتا یا رقص و موسیقی کی محفلوں سے اسے کچھ اُکتاہٹ محسوس ہوتی تو وہ ان خوشامدیوں اور جی حضوریوں کو اپنے گرد جمع کرلیتا جو خسرو اور دارا کی فتوحات کے ساتھ اس کی کامیابیوں کا موازنہ کرکے اسے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ان میں سے کوئی آپ کا ہم پلہ نہیں تھا۔

مجوسی کاہن بظاہر اسے ایک دیوتا کا رتبہ دیتے تھے لیکن انہیں اس بات کا افسوس تھا کہ سینٹ صوفیہ اور سلطنت روما کے دوسرے عظیم گرجوں کو آتش کدوں میں تبدیل نہیں کرسکتے۔

ایک دن یمن کا گورنر سالانہ لگان کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے لیے دست گرد پہنچا۔ پرویز نے اس کی آمد کی اطلاع ملتے ہی اسے اپنے پاس طلب کیا اور یمن کے حالات پوچھنے کے بعد سوال کیا۔ ’’ہم نے سنا ہے کہ عرب کے کسی باشندے نے خدا کا نبیؐ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تم اس کے متعلق کیا جانتے ہو؟‘‘

گورنر نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! میں نے صرف یہ سنا ہے کہ یہ نبیؐ مکہ میں پیدا ہوا ہے اور اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے‘‘۔

’’تمہیں یہ معلوم ہے کہ اس نبیؐ نے رومیوں کے ہاتھوں ہماری شکست کی پیش گوئی کی ہے؟‘‘

’’میں نے یہ سنا ہے عالیجاہ! لیکن آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اہل مکہ نے نبوت کے اس دعویدار اور اس پر ایمان لانے والے چند نادار اور بے بس لوگوں کو وہاں سے نکال دیا ہے اور اس نے وہاں سے کئی منزل دور یثرب میں پناہ لی ہے اس کے بعد مکہ سے جو اطلاعات میرے پاس پہنچی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس کے اپنے قبیلے کے لوگ اس کے خون کے پیاسے ہیں اور وہ اسے یثرب میں بھی چین نہیں لینے دیں گے۔ عالیجاہ! شام سے مکہ کے راستے یمن آنے والے تاجر مجھے عرب کے حالات سے باخبر رکھتے تھے اور میں ان کی زبانی اکثر یہ سنا کرتا تھا کہ جب مکہ میں ہماری فتوحات کی خبریں پہنچتی ہیں تو وہاں کے لوگ اس نبیؐ کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اب حضور کے دربار میں قیصر کے ایلچیوں نے جس بے چارگی کا ثبوت دیا ہے اس کے بعد جب یثرب میں بھی اس معاہدے کی اطلاع پہنچے گی تو وہاںبھی مکہ کے نبیؐ کا مذاق اُڑایا جائے گا لیکن عالیجاہ! میں ان لوگوں کی جسارت پر حیران ہوں جنہوں نے آپ کو اس پیشگوئی کی اطلاع دے کر پریشان کیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ