استقبال

293

 

شمع نے آج اپنی نئی بہو کے استقبال کے لیے گھر میں قدم رکھتے ہی وہی کیا جس کا اس نے برسوں پہلے تہیہ کیا ہوا تھا۔ وہ اپنی بہو پر واری نہیں گئی۔ اس کی راہوں میں پھول نہیں بچھائے۔ ہاتھوں کے چُلّو میں چاول اور خشک میوہ جات بھر کر پیچھے کی طرف نہیں اچھالے، جیسا کہ اس کی شادی کے وقت اس کے ساتھ کیا گیا تھا، جو اس گھر کے رسم و رواج تھے۔ وہ آج تہی دامن نہیں تھی‘ آج وہ اپنی گزری زندگی کو ماضی کا قصہ بنا دینے کے لیے کھڑی تھی۔ وہ اپنے گھر کی زندگی میں وہ اصول دینا چاہتی تھی جس میں بہو کے حصے میں محبت، انصاف اور عزت آئے۔
ماضی میں واپس نہیں جا سکتے، مگر سوچوں پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ شمع ماضی اور حال کے درمیان سوچ رہی تھی اور خود سے محوِ گفتگو تھی۔
شادی کے بعد جب پہلی مرتبہ میری زندگی کا ساتھی، جس کے لیے میں سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئی تھی، مجھ سے مخاطب ہوا‘ وہ کوئی میٹھے بول نہ تھے۔ ماں اور بہن کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’جب تم گھر میں موجود ہو تو میں اپنی ماں اور بہن کو کام کرتے ہوئے نہ دیکھوں، گھر کے کام کاج کی تمام ذمے داریاں تمہارے اوپر ہیں۔‘‘ اور میں اپنے شوہر کے اس تلخ حکم کو عمر بھر پورا کرتی رہی۔
نئی زندگی کی شروعات کے ساتھ تازہ ہوا کا جھونکا آ چکا تھا۔ سب قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں شمع اپنی بہو سے مخاطب ہوئیں:
’’تمہارا صرف ایک کمرہ نہیں ہے بلکہ پورا گھر تمہارا ہے، اس پورے گھر کو تم جیسے چاہو سجاؤ، سنوارو، بناؤ… مگر یہاں تمہاری ذمے داری تمہارا شوہر ہے۔ اپنے شوہر کا خیال رکھو، اس کے کام کاج وقت پر کرو، اسے شکایت کا موقع نہ دو… میں اپنا اور گھر کے دوسرے افراد کا خیال رکھ سکتی ہوں، تم ہمارا ساتھ دینا چاہو تو ہماری بانہیں تمہارے لیے پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘
اپنی ساس، نندوں کی موجودگی میں اور اس گھر کے سنگلاخ قوانین کی چکی میں پسنے کے باوجود شمع کے لہجے کی حلاوت دلوں کے پار ہو رہی تھی۔

حصہ