مثالی والد کیسے بنیں؟

439

انسانی معاشرہ مختلف گھرانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر گھرانہ شوہر اور بیوی کے رشتے سے وجود میں آتا ہے۔ ان دونوں رشتے کے امتزاج سے اللہ تعالیٰ انہیں صاحبِِ اولاد بناتا ہے۔ اس طرح ایک گھرانے کی تکمیل ہوتی ہے۔ چوں کہ معاشرہ گھرانوں سے وجود میں آتا ہے اس لیے بہترین معاشرے کے تشکیل کے لیے بہترین گھرانوں کی بنیاد رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں تاکہ ان کے تربیت یافتہ گھرانے سعادت مند معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوں۔

بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی صحت اور غذا کا خیال رکھنا ایک ماں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک باپ اپنے گھر والوں کے لیے اچھی زندگی کا انتظام کرتا ہے۔ وہ اپنی طاقت کے مطابق انہیں وہ تمام وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں بچوں کی تربیت کے متعلق عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری ماں کے حصے میں آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچے سارا دن ماں کے ساتھ گھر پر رہتے ہیں اس لیے وہی ان کی تربیت کی واحد ذمہ دار ہے۔ اس کے برعکس چونکہ باپ اپنی معاشی مصروفیت کی بنا پر اکثر گھر سے باہر رہتا ہے اس لیے وہ خود کو اس ذمہ داری سے آزاد سمجھتا ہے۔ یاد رکھیں یہ تصور درست نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں باپ دونوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ دونوں جب اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں تو تعلیم و تربیت کا عمل اعتدال کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد آپ کو یہ توجہ دلانا ہے کہ بطور والد قرآن و سنت میں ہمارے لیے کیا تعلیمات موجود ہیں جن پر غور و فکر کرکے ہم بحیثیت والد اپنے کردار کو نکھارسکتے ہیں۔

یوں تو قرآن کریم میں مختلف انبیاء کے واقعات کے ذریعے اس موضوع سے متعلق ہماری رہنمائی کی گئی ہے لیکن سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں اس کے متعلق خوب رہنمائی ملتی ہے۔ اگر آپ سورۂ یوسف کا مطالعہ کریں تو اس کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ بچے تھے تو وہ ایک خواب دیکھتے ہیں اور آکر اپنے والد کو اپنا خواب سناتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جب یوسف نے اپنے والد سے کہا تھا : ابا جان ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ (یوسف:4)

اس آیت کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام نے بطور والد اپنے بیٹے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کو کتنا اعتماد دیا ہوا تھا کہ وہ ان کے سامنے اپنے دِل کا حال رکھتے ہیں اور انہیں اپنا خواب سنا تے ہیں۔ ایک والد سے اپنی اولاد کے لئے اسی طرح کی شفقت اور محبت مطلوب ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط کرے کہ بچے اس کے گھر آنے پر خوشی محسوس کریں۔ وہ اپنے والد کو دیکھ کر پریشان نہ ہوں اور نہ ہی اپنے والد سے بات کرتے وقت وہ کوئی خوف محسوس کریں بلکہ وہ جب چاہے بڑی آسانی کے ساتھ اپنے دل کی ہر بات اپنے والد کو بتاسکیں۔

سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کا خواب پوری توجہ سے سنا اور نہایت حکمت سے اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میرے پیارے بیٹے ! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہارے لیے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے کیوں کہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔‘‘ (یوسف: 5)

ایک والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں کو جمع کرکے رکھے‘ ان کے درمیان محبت پروان چڑھائے اور دوریوں کو ختم کرے۔ یہاں پر سیدنا یعقوب علیہ السلام نے یہی کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو جوڑنے کی بات کی۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ بیٹا یوسف! تم یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت سنا نا میں تمہیں اس لیے روک رہا ہوں کیوں کہ تمہارے بھائی تمہارے دشمن ہیں۔ وہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ تم سے جلتے ہیں۔ کیوں کہ وہ تمہارے سوتیلے بھائی ہیں۔نہیں، بلکہ انہوں حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ’’بیٹا! یہ خواب اپنے بھائیوں کو اس لیے مت سنانا کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ تمہارے بھائیوں کے دل میں برے وسوسے ڈال کر انہیں اس بات کر آمادہ کرے گا کہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں اور تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔‘‘

یہ فطری بات ہے کہ گھر میں چھوٹے بچوں سے زیادہ محبت کی جاتی ہے۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب ان سے لاڈ کرتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام ایک تو سیدنا یعقوب علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے تھے۔ دوسرا بچپن میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اس لیے سیدنا یعقوب علیہ السلام اس فطری جذبے کی وجہ سے انہیں اضافی توجہ دیتے تھے۔ مگر سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اس فطری جذبے کوسمجھنے اورسیدنا یوسف علیہ السلام پر رحم کھانے کے بجائے اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ہمارے ابا جان ہمارے مقابلے میں یوسفؑ سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کی یہ منفی سوچ حسد میں تبدیل ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ کسی بھی طرح سیدنا یوسف علیہ السلام کو راستے سے ہٹا دیا جائے تاکہ والد گرامی کی تمام تر توجہ اور محبت ان کی طرف مبذول ہوجائے۔

بالآخرسیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو ٹھکانے لگانے کا ایک منصوبہ تیار کرلیا۔ وہ اپنے والد کے پاس آکر اصرار کرنے لگے کہ ابا جان ہم تفریح کرنے جارہے ہیں آپ ہمیں یوسف کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دیں۔ہمارا یہ چھوٹا بھائی وہاں جاکر ہمارے ساتھ کھیلے گا اور خوش ہوجائے گا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے پہلے پہل تو انہیں ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ مسلسل اصرار کرنے لگے تو انہوں نے ان کو اس شرط پر یوسف کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی کہ وہ اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ جنگل میں اگر بھیڑیا نے اسے اکیلے دیکھ لیا تو وہ اسے کھا جائے گا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے والد کو مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ابا جان آپ فکر نہ کریں ہم دس افراد مضبوط جسامت کے مالک ہیں۔ بھیڑیے کی کیا جرات جو ہمارے ہوتے ہوئے یوسف کو نقصان پہنچائے۔

پھر ہوا یوں کہ وہ یوسفؑ کو اپنے ساتھ لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا۔ اس کی قمیص لی اس پر جھوٹا خون لگا کر رات کے وقت اپنے والد کے پاس جا کر آنسو بہانے لگے۔کہنے لگے کہ اباجان یوسف کو بھیڑیا کھاگیا ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس کی حفاظت نہ کرسکیں۔ دیکھیں یہ اس کی قمیص ہے جو اس کے خون سے لتھڑی ہوئی ہے۔

سیدنا یعقو ب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کی بات سنی مگر ان پر یقین نہیں کیا کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ میرے بچے چال بازی کر رہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ ویسے بھی جرم کرنے والا شخص اپنے جرم کے کچھ ایسے نشانات ضرور چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جرم پکڑا جاتا ہے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام ان بچوں کے باپ تھے اور باپ اپنے بچوں کو خوب سمجھتا ہے کیوں کہ اس شخص نے ان بچوں کی پرورش کی ہوتی ہے۔ اسے اپنے بچوں کے تمام رویوں کا خوب علم ہوتا ہے۔

سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا اور کہنے لگے ’’تم لوگوں نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔‘‘ (یوسف:18)

اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا صبر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اے ابراہیم تم اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حکم کو بجا لائے اور اپنے بیٹے کی گردن پر چھرا چلانے لگے اندازہ لگائیں کہ یہ ان کے لیے کتنی بڑی آزمائش تھی جس پر انہیں صبر کرنا پڑا۔ اگرچہ اس آزمائش پر پورا اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور بطور فدیہ ایک مینڈھا بھیجا جس کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام ذبح کیا۔ (صافات: 102-107)
ہماری اولاد ہمارے لیے آزمائش ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یقیناً تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔‘‘ (الانفال:28) کیوں کہ آزمائش پر پورا اترنے کے لے صبر کرنا لازم ہے اس لیے ایک والد کے منصب کے ساتھ صبر جڑا رہتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اچھا والد نہیں بن سکتا ہے۔

طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب سیدنا یوسف علیہ السلام اپنی تمام آزمائشوں سے گزر کر مصر میں وزیر بن چکے تھے۔ اس وقت جہاں بہت سارے علاقوں میں قحط پڑ چکا تھے وہیں پر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا علاقہ بھی قحط سالی سے دوچار تھا۔ چنانچہ ان کے بیٹے جب غلہ لینے دوسری دفعہ مصر روانہ ہوتے ہیں تو اپنے والد گرامی سے کہتے ہیں ابا جان ! بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں اس طرح ہمیں ایک حصہ غلہ زیادہ مل جائے گا۔ جب وہ بنیامین کو لے کر مصر جانے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو میں تمہیں بنیامین کو ساتھ لے جانے کی اجازت تو دے رہا ہوں مگر اب کی دفعہ امانت میں خیانت نہ کرنا کیوں کہ تم پہلے بھی ایک وعدہ توڑ چکے ہو۔

پھر جب ان کے بیٹے مصر کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’اے میرے بچو ! تم سب ایک دروازے سے (مصر میں) داخل مت ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے‘ میرا کامل توکل اسی پر ہے اور ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘ (یوسف:67)

سیدنا یعقوب علیہ السلام کا اندازِ تربیت دیکھیں کہ وہ بار بار اپنے بچوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ تے ہیں۔ انہیں توحید کا درس دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ اللہ کے پاس ہی سارے اختیارات ہیں۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔
جب سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹے مصر پہنچتے ہیں اورسیدنا یوسف علیہ السلام اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیتے ہیں تو ان کے بیٹے کنعان واپس آکر اپنے والد کو ان کا قصہ بتاتے ہیں کہ ابا جان بنیامین کے تھیلے میں سے بادشاہ کا پیالہ نکلا تھا جس کی وجہ سے انہیں مصر میں روک دیا گیا ہے۔ اس موقع پرسیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں کو دوبارہ مصر روانہ کیا اور کہا کہ: ’’میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور بنیامین کے متعلق جاننے کی کوشش کرو اور ناامید نہ ہونا کیوں کہ ناامیدی کافر قوم کی علامت ہے۔‘‘ (یوسف:87)

اس طرح ایک دفعہ پھر سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو اللہ کی رحمت کے متعلق بتاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بالآخر یہ بچے مصر پہنچتے ہیں تو یہ اپنے بھائی یوسف کو پہچان لیتے ہیں اور وہ سب کو اپنے پاس بلاکر مصر میں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب سیدنا یعقوب علیہ السلام کے انتقال کا وقت قریب آتا ہے تب وہ اپنی تمام آل اولاد کو جمع کرتے ہیں اور ان سے سوال پوچھتے ہیں ’’(بتاؤ) میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار رہیں گے۔‘‘ (البقرۃ:133)

یہ ہے سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی میں سے اولاد کی تربیت کے چند نمونے کہ اس دنیا سے جاتے جاتے بھی انہیں اپنے بچوں کی فکر لاحق ہے کہ میرے مرنے کے بعد ان کی عبادت کا کیا ہوگا؟ کہیں وہ اللہ کو بھول تو نہیں جائیں گے؟ اس لیے وہ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں کہ بچو! جو سبق ساری زندگی تمہیں پڑھایا ہے ذرا میرے مرنے سے پہلے اسے میرے سامنے دہراؤ تاکہ میں مطمئن ہوجاؤں۔ اس لیے ایک والد کی ہمیشہ یہی فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر سے بہتر کس طرح کرسکتا ہے۔ وہ انہیں اللہ کے قریب کرے ، ان سے محبت و شفقت سے پیش آئے اور انہیں سمجھائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی تربیت کے لیے باپ کو کہیں سختی اور کہیں نرمی کرنی پڑتی ہے۔کہیں محبت کی ضرورت پڑتی ہے تو کہیں پر ڈانٹنا بھی پڑتا ہے۔ بس یہ بات ذہن میں تازہ رہے کہ ایک والد کی تربیت کا حاصل یہ ہو کہ کس طرح اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجائے۔ ھنبی کریمؐ کا فرمان ہے ’’جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) صدقہ جاریہ‘ ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (مسلم:1631)

اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو نیک و صالح بنادے۔ ہمارے مرنے کے بعد انہیں ہمارے لیے دعا کرنے والا اور صدقہ جاریہ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت والد ہمیں اپنا کردار نبھا تے ہوئے منہاج انبیا کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حصہ