کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

703

کتابیں ایک ایسی ملفوفہ تحریر ہیں جو تخلیق کائنات کی تمام مخلوق کی تخلیقات کے بارے میں ضبط شدہ دستاویزات کی صورت میں دنیا کے معلوم الماریوں میں موجود ہیں‘ جو اس کا مطالعہ کرنے والوں کی منتظر رہتی ہیں بلکہ بند شیشوں سے جھانکتی ہیں کہ ہے کوئی قدردان جو مجھ سے استفادہ کر کے تسخیر کائنات کے عمل کو بروئے کار لائے اور خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرے‘ جو رتبہ اللہ نے اس کو بخشا ہے۔ یہ کتابیں انسانوں نے فی زمانہ کبھی پتھروں پر کبھی درختوں کے چھالوں پر اور کبھی چمڑے پر اپنی علاقائی زبانوں میں تحریر کی ہیں جو انسانی ارتقاء سے لے کر دور جدید کے تمام تر معلومات، ایجادات، دریافت اور ماضی و حال کے واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ اقراء میں فرمایا ’’میں نے قلم کے ذریعے تم کو پڑھنا سکھایا۔‘‘ گویا کتابیں قلم و قرطاس کا مجموعہ ہیں۔ محرر کا قلم جب قرطاس پر چلتا ہے تو نہ صرف اس کو سیاہ کرتاہے بلکہ انسانی زندگی کے سربستہ رازوں کو بھی عیاں کرتا ہے اور مستقبل کی پیش بینی کے ساتھ ساتھ حال سے بھی واقف کراتا ہے۔ کتاب کے بغیر آدم کی اولاد شرفِ انسانیت سے محروم رہتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث فرمایا اور ہر نبی کو صحیفے عطا کیے جو اس زمانے کے اعتبار سے code of lifeتھے اور اپنے چار جلیل القدر رسولوں پر آسمانی کتابیں زبور، توریت ،انجیل اور قرآن نازل کیں۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے جو تکمیلِ ہدایات ہے اور ختم رسل صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اب کوئی کتابِ ہدایت نازل نہیں ہوگی اس لیے کہ اب کوئی رسول نہیں بھیجا جائے گا۔ یہ کتاب لاثانی اور لافانی ہے‘ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ یہ حکمت و تدبر، تسخیرِ کائنات کے اسرار، سابقہ قوموں کی قصص، نظامِ حیات و حکمرانی‘ تعزیر و قوانین اور صراط مستقیم کے واضح اور مدلل دلائل و براہین سے مرصع ہے۔ یہ رہتی دنیا تک انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ یہ اپنے ماننے اور عمل کرنے والوں کو امامت کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے قرآن کو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت بنا کر بھیجا‘ اس کا انکار کرنے والے سراسر خسارے میں ہیں۔‘‘ ۔سورہ بنی اسرائیل)آج یہ کتاب ہر مسلمان کے گھر الماری کے شیشوں میں بند ہے۔

تاریخ کے اس ہول ناک واقعے سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اور اہلِ ہنود ان کتابوں کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کو پامال کیا تو اس کے ساتھ جو عیسائی مشیر تھا اس نے بغداد کی عظیم الشان لائبریری کو جلانے کا مشورہ دیا۔ اس لائبریری میں موجود کتابوں کے جلنے سے دریائے دجلہ کا پانی سیاہ ہو گیا۔ دنیا یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ اگر یہ علمی سرمایہ موجود ہوتا تو مسلمان آج سے سیکڑوں سال پہلے ہی خلا کی تسخیر کر چکے ہوتے۔

مغربی اقوام اور اشتراکی بھیڑیوں نے جب جب مسلم ممالک پر قبضہ کیا ان کی لائبریریوں کو لوٹا ہے۔

مگر وہ علم کے موتی‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قرآن کی عملی تفسیر ہے اور آپ کی ہدایات صحائہ ستہ کی احادیث کی صورت میں موجود ہے جس کو علمِ دین حاصل کرنے والوں کے علاوہ دوسرے مسلمان شاذ و نادر ہی پڑھتے ہیں۔ ہمارے اجداد امام غزالیؒ، مولانا رومیؒ، شیخ سعدیؒ، مولانا ابنِ جوزیؒ، مولانا قدومیؒ‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا ابوالحسن ندوی و دیگر علماء نے زندگی کے تمام عنوانات پر ایک مفصل رہنمائی کرنے والی کتابیں ورثے کی طور پر چھوڑی ہیں۔ مسلم سائنس دانوں کے علمی کارناموں کی بنیاد پر آج یورپی اقوام ہم پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ مورخین نے زمانے کے ہر گوشے کو قلم و قرطاس کی زینت بنائی ہے۔ ابنِ بطوطہ کا اور ہوین سانگ کے سفر نامے حیرت زدہ کرکے دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ الف لیلیٰ کی ہزار داستانوں پر آج امریکہ میں Thousands miracle of the ancientکے عنوان سے تحقیقات جاری ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب پاپائے روم‘ گیلیلیو کو پھانسی کی سزا دے رہا تھا تو اُس وقت بلخ اور بخارا کی تجربہ گاہیں ستاروں کی چال ناپ رہی تھیں۔ جب اندلس کی سڑکیں رات کو زیتون کے چراغوں سے روشن ہوا کرتی تھیں اس وقت لندن اور پیرس کی سڑکوں پر کیچڑ ہوا کرتا تھا۔ یہ سب اس لیے تھا کہ ہماری نسل کتابوں کو حرز جاں بناتی تھیں۔ مگر جب کتابوں کی جگہ طاؤس و رباب نے لے لی تو یورپی لٹیروں ہمارے علمی کارناموں کو اپنا کر ہم پر غالب آ گئے۔

اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم الاشیا عطا کی اور اس بنیاد پر فرشتوں پر فضیلت دی۔ معتوب قوموں کو بھی اللہ نے بے پناہ علم و ہنر سے نوازا۔ اہرام مصر ، نینوا کا جھولتا باغ، ابوالہول کا مجسمہ ، دنیا کے عجائبات‘ موئن جودڑو کے قدیم مخطوطات‘ سب تحریروں کی شکل میں موجود ہیں۔

لائبریریاں قومی ورثہ ہی نہیں بلکہ تشنگان ایجادات اور دریافت والوں کے لیے بے بہا خزانے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جتنے محققین ہیں وہ لائبریریوں سے ہی استفادہ کر تے ہیں۔

لیکن ماتم کیجیے مسلمان طلبا پر کہ وہ اپنی درسی کتابوں کے علاوہ دوسرے علوم کی کتابوں سے استفادہ نہیں کر تے لہٰذا آج کا اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بھی محدود علمی معلومات رکھتا ہے کیوں کہ اس کو مطالعے کا شوق نہیں ہے۔ ملک کی لائبریریوں میں موجود الماری کے شیشوں سے کتابیں پڑھنے والوں کی منتظر رہتی ہے بلکہ کراچی میں موجود لائبریریوں میں تو مکڑی کے جالے لگے ہوئے ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ امریکی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں‘ وہ تو بس میں سفر کے دوران بھی مطالعہ میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم پاکستانی دنیا میں سب سے کم مطالعہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے ملک میں تحقیق و تالیف اور مختلف موضوعات پر کتابوں کی اشاعت کم ہی ہوتی ہے۔ اردو کی ترقی میں کلکتہ کی فورٹ ولیم کالج کی لائبریری اور پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کے ساتھ حیدرآباد دکن کی لائبریریوں کا بنیادی کردار ہے۔

شیطان کی چالوں سے بچنا چاہتے ہو تو علامہ ابنِ جوزی کی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ کا مطالعہ کرو۔ گمراہ کن فلسفہ سے بچنا چاہتے ہو تو امام غزالی کی ’’کیمیائے سعادت‘‘ اور ’’احیائے العلوم‘‘ پڑھو۔

کہا جاتا ہے کہ جس نے کیمیائے سعادت، احیائے العلوم، مولانا روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستان بوستان نہیں پڑھی تو اُس نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ مولانا دمیری کی علم الحیوانات کی کتاب ’’حیات الحیوان‘‘ پڑھو جدید دور کے تمام ماہرین حیاتیات اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ تین چار سال قبل جاپان کے ایک ماہرِ حیاتیات پروفیسر کو نوبل پرائز اس تحقیق پر ملا کہ انسان کی پیدائش کا مادہ منویہ پشت اور ریڑھ کی ہڈیوں سے آتا ہے جو قرآن میں سورہ ’’الطارق‘‘ میں بیان ہوا ہے۔ جب کہ اس ضمن میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ جسم کے تمام حصوں سے آتا ہے۔ طبیعیات اور ریاضی میں مسلم سائنس دانوں کا لوہا آج بھی نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر جدید ایجادات بھی کی جا رہی ہیں۔

آج مہنگائی اور ہم جہت مصروفیت کے دور میں گوگل نے سب کچھ پڑھنا آسان کردیا ہے۔ ہر موضوع پر لکھی گئی کتابیں pdf کی صورت میں موجود ہیں‘ آدمی پڑھنا چاہے تو صرف اپنی ضرورت کی تحریر کو نکال کر پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح کے مطالعے سے پختہ ذہن سازی نہیں ہوتی۔ پروفیسر ہارون الرشید مرحوم کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جب ہم چند کتابیں اپنے سینے سے لگا کر اسکول جایا کرتے تھے تب ان کتابوں کی محبت کے اثرات ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتے تھے۔

انسان فارغ وقت میں مختلف مشاغل اپناتا ہے ان میں سب سے بہترین مشغلہ ’’مطالعہ‘‘ ہے‘ بہترین دوستی کتابوں سے دوستی ہے۔ دنیا کے اکثر انقلابیوں نے پس زنداں بڑے بڑے علمی کام کیا۔ مولانا مودودیؒ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ کا ایک بڑا حصہ جیل میں مکمل کیا۔ قائد حریت کشمیر سید اسعد گیلانی صاحب نے اپنی ’’روداد قفس‘‘ جیل میں مکمل کی۔ کہنے کا مدعا یہ ہے کہ کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہیں۔

کتاب زندگی مکمل ہوئی نہیں لیکن
مگر پڑھنے سے یہ سہانی لگتی ہے

دنیا کی امامت زندگی کی سعادت آخرت کی سرخروئی قرآن وحدیث اور دیگر دنیاوی علوم کی کتابوں کے مطالعے سے مشروط ہے۔ اے تشنگان علم لائبریریوں کے شیشوں سے جھانکتی کتابیں آپ کی منتظر ہیں آگے بڑھیں اور دین و دنیا کی کامیابی حاصل کریں۔

حصہ