بزمِ محبان ادب کے زیر اہتمام تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

405

گزشتہ ہفتے بزمِ محبان ادب کے زیر اہتمام بزم نشاطِ الادب کے تعاون سے تقریبِ پزیرئی اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں محسن اسرار صدر تھے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ثبین سیف‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ تلاوت کلامِ مجید کی سعادت سفیان ادریس نے حاصل کی۔ اس تقریب کے دو حصے تھے پہلے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں محسن اسرار‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ افتخار ملک‘ ثبین سیف‘ مقبول زیدی‘ کشور عروج‘ مرزا عاصی اختر‘ فخر اللہ شاد‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ شائق شہاب‘ خورشید احمد‘ سرور چوہان‘ کاوش کاظمی‘ ہما ساریہ‘ نعیم قریشی‘ جاوید اقبال جاوید‘ فرح کلثوم‘ اعجاز احمد اعجاز اور رخشی عامر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ پروگرام کی نظامت مقبول زیدی اور کشور عروج نے کی۔ دوسرے دوسرے دور میں راشد نور‘ سہیل احمد‘ اوسط جعفری‘ زاہد حسین زاہد‘ حامد علی سید‘ پروین حیدر‘ انجم عثمان‘ حیدر حسنین جلیسی اور رانا خالد محمود نے اپنا کلام پیش کیا اور تمام شعرا کو شیلڈ اور اجرکیں کی گئیں۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس میں دس شعرا کی پزیرائی کی گئی اس قسم کے پروگرام اس سے قبل ریکارڈ پر نہیں ہے اس کا سہرا کشور عروج کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایک شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ یہ پروگرام اس لحاظ سے کامیاب تھا۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے اس موقع پر کہاکہ وہ اردو زبان و ادب کے خدمت گزار ہیں اور ادبی پروگراموں کے لیے حاضر ہیں‘ ہم تواتر کے ساتھ ادبی تقاریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔ آج کی تقریب پزیرائی اور مشاعرہ بہت عمدہ رہا۔ ہر شاعر نے بہترین کلام پیش کیا۔ پروگرام آرگنائزر کشور عروج نے بڑی خوب صورتی سے مشاعرہ سجایا ہے‘ یہ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا مظہر ہے‘ یہ ایک اچھی شاعرہ ہونے کے علاوہ بہترین آرگنائزر بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو شاعری میں نظم کرتا ہے۔ غزل کے مضامین زمانے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اب غزل کے روایتی مضامین کے بجائے جدید لفظیات اور جدید استعارے استعمال ہو رہے ہیں۔ گویا شاعری کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ کشور عروج نے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی وہ اس قسم کی تقریب کا انعقاد کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں متعدد ادبی تنظیمیں ہیں جو مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں لیکن ادبی گروہ بندیوں سے ادب کا نقصان ہو رہا ہے۔ کشور عروج نے کہا کہ ان کی ادبی تنظیم ہر ماہ پروگرام کر رہی ہے ہم کراچی کے تمام شعرا کو بیک وقت مشاعرے میں نہیں بلا سکتے آج کے مشاعرے میں جن شعرا کو نہیں بلایا گیا ہے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم آئندہ انہیں بھی مدعو کریں۔ ہم ارد ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے میدانِ عمل میں آئے ہیں‘ ہمارا کسی ادبی ادارے سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ مشاعرے کے انعقاد میں جن لوگوں نے تعاون کیا ہے میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں۔ شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی ہارے ادارے کے منشور میں شامل ہے۔ محسن اسرار نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام پیش کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔ آج کی تقریب میں سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس بات کی گواہی ہے کہ محبانِ ادب زندہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کی ترقی ہمارا نصب العین ہے‘ عدالتی فیصلے کے مطابق اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں ملا اس کے لیے ہمیں جدوجہد کرنی ہوگی۔ اب اردو عالمی زبان ہے جو ایک نہ ایک دن سرکاری دفاتر میں رائج ہو گی۔

سلام گزار ادبی فورم کی محفل سلام

سلام گزار ادبی فورم انٹرنیشنل کراچی کے تحت اصغر علی سید کی رہائش گاہ پر ماہانہ محفل سلام حسین کا انعقاد کیا گیا۔ صدارت نسیم شیخ نے کی۔ سمیع نقوی مہمان خصوصی تھے‘ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عدنان عکس نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلام گزار ادبی فورم طرح مشاعروں کا اہتمام کرتی ہے تاہم یہ مشاعرہ غیر طرحی تھا جس میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ اختر حسین کاظمی‘ بختیار خاور‘ سلطان رضوی‘ اخلاق احمد‘ ضیا سرسوی‘ عدنان عکس‘ مہتاب عالم مہتاب‘ خمار زیدی‘ نظر فاطمی‘ اعجاز نقوی‘ افضل شاہ‘ نور سہارن پوری‘ علی زیدی‘ ڈاکٹر مانوس‘ رانا خالد محمود‘ فرحت عباس‘ شائق شہاب‘ علی اسود‘ اوسط جعفری‘ ہما ساریہ اور اصغر علی سید نے اپنا کلام پیش کیا۔ نسیم شیخ نے صدارتی خطاب میں کہا کہ حضرت امام حسینؓ نے حق کی خاطر اپنی اور اپنے 72 ساتھیوں کی قربانیاں پیش کیں دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ یزید اپنے طاقت کے باوجود امامِ حسینؓ سے بیعت نہیں لے سکا۔ واقعہ کربلا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم باطل کے سامنے سر نہ جھکائیں۔ مقبول زیدی نے کہا کہ رثائی ادب میں کربلا ایک اہم موضوع ہے جس میں صبر و استقلال کا درس موجود ہے کربلا ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ امام حسینؓ ہمارے رہنما ہیں‘ انہوں نے کربلا کے ذریعے اسلام کی ترویج و اشاعت کی ہے‘ ان کے اقدامات ہمارے لیے روشن مینارہ ہیں اگر ہم ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔

حصہ