امید ابھی کچھ باقی ہے

443

حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں کسی اچھی خبر کو سننے کے لیے کان ترس گئے ہیں۔ ایسے میں کوئی بالیقین روشن مستقبل کی خوش خبریاں سنانے لگے تو قلب و نظر میں امید کے جگنو جگمگانے لگتے ہیں، رگ و پے میں نئی توانائی بھر جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خوب صورت محفل کا احوال پیشِ خدمت ہے جو مقامی ہوٹل کے کرسٹل ہال میں سجائی گئی۔ یہاں کرسٹل جیسے ہی صاف شفاف دل لوگ جمع ہوئے، ایمان کی روشنی اسٹیج سے پھوٹی۔ حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان کی سیکرٹری جنرل محترمہ دردانہ صدیقی صدرِ محفل تھیں۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل محترمہ ثمینہ سعید پُرجوش انداز سے مہمانوں کو استقبالیہ کلمات اور عید مبارک کہہ رہی تھیں۔ انھوں نے حاضرین کی حیرت کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ عید ملن پروگرام میں تاخیر کی وجہ ہماری مہمانِ خصوصی محترمہ دردانہ صدیقی کی مصروفیت تھی جو حال ہی میں بیرونِ ملک ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرکے وطن واپس پہنچی تھیں۔ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین جن میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، بینک آفیسرز، ادیب، شاعرات، اسکالرز ، بوتیک مالکان، پولیس آفیسرز، جرنلسٹ اور میڈیا سے وابستہ شامل تھیں، مختلف اسٹالز کا وزٹ کرکے نشستوں پر براجمان ہوئیں۔ اسٹالز سے ملنے والے رنگا رنگ تحائف نے ماحول مزید خوش گوار کردیا تھا۔ تلاوتِ کلام پاک اور نعت شریف سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا، پروگرام کی کمپیئر شازیہ عبدالقادر نے جماعتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کی نگرانوں سے سوال جواب کا دل چسپ سلسلہ شروع کیا۔ پھر جیسے ہی صدرِ محفل کا خطاب شروع ہوا ہال میں یک دم سناٹا چھا گیا۔

سالارِکارواں محترمہ دردانہ صدیقی کی آواز گونج رہی تھی، جسے رپورٹنگ پر مامور خواتین قلمبند کر رہی تھیں:

’’یہ قرآن، ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں، عید اللہ کا انعام ہے، خوشی کا دن ہے، شکرانے کا موقع ہے۔ نزولِ قرآن کی خوشی، نعمتِ اسلام کی خوشی، شکرانے کا طریقہ قرآن میں بتایا گیا۔

ہدایت ملنے پر اللہ کی کبریائی کا اظہار کرنا شکر گزاری ہے۔ 14 سو برس قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا مدینہ اور عید کا دن تھا۔ فضاؤں میں آواز آتی تھی ’’اﷲ اکبر،اﷲ اکبر، لا الٰہ الا اﷲ، واﷲ اکبر، اﷲ اکبر و ﷲ الحمد۔‘‘

تکبیرات کا تسلسل باقی ہے۔ الحمدللہ ہم سب مسلمان ہیں، پاکستان رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں حاصل ہونے والی عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بھی رمضان میں عطا فرمایا تھا۔ اشارۂ الٰہی تھا کہ زمین پر اس کتاب (قرآن) کو نافذ کروگے تو وہ مقصد حاصل ہوسکے گا جس کی خاطر لاکھوں افراد نے آگ اور خون کے دریا پار کیے تھے، جانوں کے نذرانے دیے تھے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الااللہ، محمد رسول اللہ۔

پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ دیانت دار قیادت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ قائداعظم نے ایمان، اتحاد، تنظیم کے جو بنیادی اصول دیے تھے وہ ہماری زندگی کے رہنما اصول ہونے چاہیے تھے۔ جب لوگ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے بارے میں سوچتے ہیں اور مل کر ساتھ چلتے ہیں تو قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ اللہ نے وطنِ عزیز کی قیمتی امانت ہمارے سپرد کی ہے۔ جماعتِ اسلامی کیسا پاکستان بنانا چاہتی ہے، اس نظم سے عیاں ہوتا ہے:

امید ابھی کچھ باقی ہے
اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو
اور جینا کوئی جرم نہ ہو
وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں
اور موسم سارے ملتے ہوں
یہ بستی کاش تمہاری ہو
یہ بستی کاش ہماری ہو !‘‘

محترمہ دردانہ صدیقی کے خطاب کے بعد ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی محترمہ ثمینہ سعید نے جماعتِ اسلامی کا وژن اور منشور پیش کیا جو اسلامی، جمہوری اور خوش حال پاکستان کا عملی روڈمیپ بھی ہے۔ روزگار، خوراک، صحت، انصاف، تعلیم، علاج سب کے لیے ہوگا۔ مزدور خوش حال، نوجوان مطمئن، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، آزاد خارجہ پالیسی، بااختیار عورت، مستحکم معاشرہ، ترقی یافتہ پاکستان۔ اس کے لیے قوم کے تعاون کی ضرورت ہے۔ وعدہ کریں کہ جماعتِ اسلامی کا ساتھ دیں گے۔ شرکائے محفل نے ہاتھ اٹھا کے وعدہ کیا۔

محترمہ طاہرہ یاسمین کی دعا سے اس بامقصد، پُرامید، ایمان افروز عید ملن پروگرام کا اختتام ہوا اور ریفریشمنٹ کے لوازمات، میزوں پر لگادیے گئے۔ خواتین شرکاء روح کی غذا ملنے کے بعد مادّی غذا کی طرف متوجہ ہوگئیں۔

حصہ