پاکستان کا متشدد معاشرہ

404

کوئی بھی قوم و ملک پنپ نہیں سکتے جب تک کہ ان میں باہم اتحاد اور مشترک قومی ایجنڈا نہ ہو۔ دنیا کے ہر ملک میں مختلف زبان، ثقافت، مذاہب، رنگ و نسل اور قبائل کے لوگ رہتے ہیں۔ کہیں کسی کی اکثریت ہوتی ہے اور کوئی اقلیت میں ہوتا ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ملک ایک لسانی ہوتا ہے۔ ملک کا آئین اپنے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مگر جب حکمرانوں کا رویہ متعصبانہ اور استحصالی ہوجائے تو ملک اور قوم کی وحدت اور یکجہتی بکھرنے لگتی ہیں۔ قومی سوچ اور ملک سے محبت کا جذبہ ماند پڑنے لگتا ہے، اور یہ وہ موقع ہوتا ہے جب دشمن اس ملک کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کرتا ہے۔

ملتِ اسلامیہ کے خلاف دشمن نے یہی چال چلی اور ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔ آج تک ملتِ اسلامیہ متحد نہیں ہوئی ،وہ صدیوں سے مختلف حادثات و سانحات کا شکار ہوتی رہی اور ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ شہادتِ حضرت عثمانؓ اور واقعہ کربلا سے ہوتا ہوا سقوطِ غرناطہ، بغداد، بنگال اور دکن سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک محیط ہے، اور آج سے نصف صدی قبل سقوطِ ڈھاکا کی صورت میں پاکستان کا دو لخت ہو جانا ہے۔

ان تمام سانحات کی داستان اتنی خونچکاں اور دل خراش ہے کہ اسے مؤرخین نے خون سے تحریر کیا ہے، جس میں ایک کلمہ والے نے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو بے دردی سے ذبح کیا۔ ان تمام داستانوں کا آغاز کسی نہ کسی تعصب سے ہوا۔ نفرتوں کے کھیت میں سروں کی فصل اُگی۔ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، شمال کا ہو یا جنوب کا مسلمان، سب کا کلمہ، رسول، قرآن، قبلہ، نماز، حج، قربانی ایک ہو اور وہ ملت فروعی معاملات میں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہو! جس کو اللہ کی ہدایت ہو کہ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔‘‘ (آل عمران)

جس کو اللہ پکارے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے رسول ہیں‘ مسلمان کافروں کے لیے سخت اور باہم شفیق ہیں۔ ‘‘ (الفتح)

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘

علامہ اقبال نے فرمایا:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

سو سالہ جد وجہد کے بعد 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آنے والی مملکت ِخداداد پاکستان دراصل کسی معجزے سے کم نہیں، اس کے پیچھے صرف کلمہ طیبہ کی برکت اور عقیدہ تھا کہ چترال کی وادی سے لے کر خلیج بنگال تک، بولان کے صحرا سے لے کر راس کماری کے ساحلوں تک یہی نعرہ گونج رہا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الااﷲ‘‘۔

اسی اتحاد کی برکت تھی کہ برصغیر کے نہتے مسلم عوام نے بیک وقت برہمن اور انگریز سامراج سے لڑ کر، لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا۔ مگر روزِ اوّل سے برہمن سامراج نے اپنے مغربی آقاؤں سے مل کر اس ملک میں اپنے گماشتہ حکمرانوں کے ذریعے لسانیت کو ہوا دینا شروع کی اور مشرقی پاکستان کے وہ بنگالی عوام جنہوں نے اس ملک کو بنانے میں بے مثال قربانیاں دی تھیں، بھارتی سازشوں کا شکار ہو کر ہم سے جدا ہو گئے۔

سقوطِ ڈھاکا کی ایک خونچکاں داستان ہے جو اپنوں اور غیروں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے جس کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں۔

اس کے بعد اس بچے کھچے پاکستان نے اپنے وجود کو نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرتا ہے، لیکن دشمن بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ اور دشمن کی چالوں کو کامیاب کرنے میں ماضی اور حال کے ہوس پرست جرنیلی اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے کالے کرتوت شامل ہیں۔ ورنہ بلوچستان کے ریگزاروں اور پہاڑوں میں آگ اور خون کی ہولی جاری نہ رہتی، سندھ کے داہری قوم پرست سندھو دیش کا نعرہ نہ لگاتے اور بھارت کی شہ پر تخریب کاری نہ کرتے تو گزشتہ 35 سال سے کراچی میں قیام پاکستان کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والوں کی اولادیں استحصالی قوتوں کے تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھتیں، 50 ہزار سے زائد نوجوانوں کا خونِ ناحق نہ بہتا۔ آج پاکستان میں کوئی ’’پاکستانی‘‘ نہیں۔ ہر ایک نے اپنی لسانی اور صوبائی شناخت اپنا لی ہے، اور نفرت میں اندھے ہوکر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل ہی موجودہ پاکستان کے صوبوں میں خوف ناک حد تک علاقائی تقسیم… لسانی، طبقاتی، قبائلی تعصب… فرقہ واریت اور مسلکی و نسلی امتیاز کا زہر موجود تھا۔ اس پر اسلام دشمن قادیانیت کاسازشی ارتداد انگریزوں کی سرپرستی میں اپنا دائرہ وسیع کر چکا تھا۔ گو کہ اس کے خلاف تحریک جاری تھی اور آج بھی ہے۔ اس ملکِ خداداد کے ساتھ جو المیہ ہوا وہ یہ کہ ملک کے وجود میں آتے ہی انگریزوں کی دلالی کرنے والے جاگیر دار، وڈیرے اور سردار اقتدار میں شامل ہوگئے۔ تبھی تو ایک موقع پر قائداعظمؒ نے فرمایا تھا ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘

حصہ