معاشرے کے عروج زوال میں ادب بھی حصہ دار ہے،ترقی پسند تحریک کے اثرات آج بھی موجود ہیں،معروف شاعر،افسانہ نگار،سلمان ثروت سے گفتگو

609

ڈاکٹر سلمان ثروت ایک سرکاری جامعہ میں درس و تدیس سے وابستہ ہیں‘ شعبہ تجارت کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہیں اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تحقیق‘ فلسفہ‘ معاشیات اور مالیات آپ کے مضامین ہیں۔ آپ کم و بیش پندرہ برس سے سلمان ثروت کے قلمی نام ے شعری منظر نامے پر بہت نمایاں اور فعال ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے‘ 2020ء میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’میں استعاروں میں جی رہا ہوں‘‘ شائع ہوا۔ گزشتہ ہفتے راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے ان سے ایک مکالمہ کیا جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔

جسارت میگزین: اپنے اور اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایئے۔

سلمان ثروت: ہمارا خاندان قیام پاکستان کے وقت انڈیا کے صوبے اترد پردیش کے شہر بدایوں کے ایک علاقے سہسوان سے ہجرت کرکے کراچی ملیر چھائونی میں مقیم ہوا‘ کراچی میں والد گرامی ثروت حسین کی پیدائش ہوئی جو اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر ہیں‘ ویسے ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میری پیدائش 1977ء میں کراچی میں ہوئی‘ پھر والد صاحب کا تبادلہ پہلے لاڑکانہ اور بعد میں حیدرآباد کے نواحی علاقے مٹیاری میں ہو‘ لہٰذا میری ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی جب کہ کالج سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مجھے کراچی کی درس گاہوں میں پڑھنے کا موقع ملا‘ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی اسناد جامعہ کراچی سے حاصل کیں۔ کچھ عرصے بینکنگ اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوا۔

جسارت میگزین: شاعری کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی‘ مشاعروں اور شعری محافل میں شرکت کا سلسلہ کب شروع ہوا؟

سلمان ثروت: شاعری کی ابتدا کے بارے میں اگر یہ کہوں کہ میں شاعری تو بچپن سے سے کر رہا ہوں تویہ رسمی بات نہ ہوگی‘ گھر کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ کم عمری میں نظمیں لکھنا‘ والد صاحب اور ان کے دوستوں کو سنانا ایک مشغلہ سا بن گیا تھا‘ پھر زندگی کے بکھیڑوں میں شاعری کی طرف توجہ بہت کم ہوگئی‘ ویسے بھی والد صاحب کے ہوتے ہوئے یہ خیال بھی دل میں نہ آیا کہ خود کو کبھی بحیثیت شاعر متعارف کروایا جائے۔ والد صاحب کے انتقال کے بہت عرصے بعد جب تدریس کے شعبے میں قدم رکھا تو شاعری کی دبی ہوئی چنگاری دوبارہ بھڑک اٹھی‘ ساتھ ہی فلسفے کا بھی شغف پیدا ہو گیا‘ ان دنوں مرحوم رفیق نقش صاحب اور شمیم روش صاحب نے میری نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ رہنمائی بھی فرمائی اور یوں 2008ء سے شاعری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور مشاعروں میں بھی شرکت رہنے لگی۔

جسارت میگزین: آج کے زمانے میں اردو تنقید کا کیا معیار ہے‘ کیا تنقید نگار اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں؟

سلمان ثروت: معیاری تنقید نہ صرف شعر و سخن کے تجزیے اور تفہیم کے راستے ہموار کرتی ہے بلکہ تعینِ قدر بھی کرتی ہے فی زمانہ اس میدان میں بہت گجائش موجود ہے۔ ایک تنقید نگار کے لیے شعری روایت‘ عصری شعور‘ فنی باریکیاں‘ عالمی تناظر اور فلسفیانہ ادبی مباحث کا گہرا ادراک ازحد ضروری ہے۔

جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کیسا کر دار ادا کر رہے ہیں؟

سلمان ثروت: ابلاغِ عامہ کے تمام ذرائع یعنی ٹی وی‘ ریڈیو‘ اخباات اور جرائد وغیرہ زبانوں کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں یہ ذرائع زبان کی ترویج اور اس کی صحت برقرار رکھنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ آئے دن تلفظ اور املا کی اغلاط ہمارے سامنے آتی ہیں‘ پھر زبان و بیان کی درستی کا بھی کوئی پروگرام نظر سے نہیں گزرتا‘ شعر و ادب پرمبنی پروگرام آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ روایت‘ ثقافت اور زبان کی اہمیت اجاگر کرنا ابلاغِ عامہ کی ترجیحات میں نہیں ہیں۔

جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو پر کیا اثرات مرتب کیے‘ نیز جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فلسفے کیا ہیں اور اردو ادب میں ان سے کیا اثرات پیدا ہوئے؟

سلمان ثروت: مختلف ادبی تحریکیں اور فلسفے جیسے ترقی پسند تحریک‘ جدیدیت اور مابعد جدیدیت اپنے اپنے دور کی ضرورت اور مزاج کی بنیاد پر وجود میں آئے اور پنپتے ہیں۔ اگر ہم ترقی پسند تحریک کی بات کریں تو اس تحریک نے ادب برائے زندگی کا نعرہ لگایا جو اس وقت کے حالات و واقعات کے تناظر میں بہتر سمجھا گیا‘ اس تحریک نے اردو ادب کے مزاج میں ایک نمایاں تبدیلی رونما کی اور ادب کو اس وقت کے معروضی حالات کے قریب لے آئی۔ چونکہ ترقی پسند تحریک میں جمالیات کو بہرحال مقدم رکھا گیا تھا لہٰذا جو ادب اس تحریک کے زیر اثر لکھا گیا اس کے مقام اور معیار پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ بعد میں آنے والے ادیب اور شعرا ترقی پسند تحریک کی نظریاتی سطح پر تفہیم نہ کر پائے اس لیے ان سے اس معیار کا کام بھی نہ ہو پایا۔

جہاں تک بات رہی جدیدیت کی تو یہ مغرب سے بہت عرصے بعد ہم تک پہنچی۔ پھر ہمارے ادیبوں اور شعرا نے جدیدیت کے فلسفے کو محدود کرکے محض ادبی فلسفے کے طور پر سمجھا اور برتا‘ نتیجتاً اردو میں جدیدیت فقط روایت سے انحراف اور ہیئت کے چند تجربات تک محدود رہی اور حد تو یہ ہے کہ شاعری میں انگریزی الفاظ کے استعمال کو جدیدیت کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ مغرب میں جدیدیت یک ہمہ گیر اور کثیر الجہت تحریک تھی جس نے مغرب کی سوچ اور طرزِ زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔

جسارت میگزین: اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں آؒپ کی کیا رائے ہے‘ اس کا نفاذ دفتری زبان کے طور پر کیوں عمل میں نہ آسکا؟

سلمان ثروت: اردو زبان دورِ حاضر کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے‘ اس زبان کا شعری اثاثہ اتنا ہے اور اس معیار کا ہے کہ ہم دوسری زبانوں سے بہ خوبی موازنہ کرسکتے ہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ کیا اردو کا مستقبل درخشاں ہے تو یہ بات ہم پر منحصر ہے کہ بہ حیثیت ادیب مستقبل میں کس معیار کا ادب تخلیق کر پائیں گے‘ بہ حیثیت مفکر اور ماہرِ علم اپنی افکار کی ترسیل کا ذریعہ اردو کو بنائیں گے یا نہیں۔

جسارت میگزین: رثائی ادب کے بارے میں آپ کے نظریات کیا ہیں‘ ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ مزاحمتی شاعری کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

سلمان ثروت: شاعری کی جو بھی موضوعاتی اقسام ہیں یعنی مذہبی شاعری اور مزاحمتی شاعری وغیرہ یہ ہماری زندگی کے مختلف پہلو اور ان پہلوئوں کا شاعرانہ اظہار ہے‘ ان کی اپنی اپنی اہمیت اور افادیت ہے‘ ان کے جمالیاتی پیرائے اور تنقیدی زاویے بھی جداگانہ ہیں جیسے مزاحمتی شاعری بہت اہم رہتی ہے جب تک وہ نعرے بازی نہ بن جائے بلکہ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ شاعری نام ہی زندگی میں جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا ہے لیکن اس احتجاج میں جمالیات مقدم رہنی چاہیے۔

حمد نگاری‘ نعت ناری اور رثائی ادب یہ سب اصناف مذہبی شاعری کے زمرے میں آئی ہیں‘ اس کی بنیاد عقیدے اور عقیدت پر ہے۔ چونکہ مذہبی شاعری میں تخیل کی اڑان آزادانہ نہیں‘ یہاں عقیدے کی قیود ہیں‘ عقیدت کی باریکیاں ہیں لہٰذا مذہبی شاعری میں شعریت پیدا کرنا قدرے مشکل ہے۔ اردو میں مذہبی شاعری کا بیش بہا سرمایہ موجود ہے چاہے وہ نعت ہو‘ مرثیہ‘ سلام یا منقبت ہو۔

جسارت میگزین: کون سی صنفتِ سخن سے آپ زیادہ متاثر ہیں اور کس صنف کو اپنی تخقلیقی صلاحیتوں کا بہتر اظہار سمجھتے ہیں؟

سلمان ثروت: نظم ہو یا غزل‘ شاعری کے کئی رنگ ہیں‘ اپنی اپنی جگہ خوش نما اور دل کش‘ جب بات اپنی تخلیق کی آئے تو ایک تخلیق کار ان میں امتیاز روا نہیں رکھ سکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ قارئین میری نظم زیادہ سراہتے ہیں‘ نظم میں وحدتِ تاثر کے سبب ایک موضوع اپنے تمام تر امکانات کے ساتھ وارد ہوتا ہے اور میں نظم کے تسلسل اور اختتام پر خاص توجہ دیتا ہوں۔ میرے موضوعات بھی عصر حاضر کا پرتو اور اپنے معاشرے سے جڑے ہوتے ہیں پھر یہ موضوعات میرا اپنا مسئلہ ہوتے ہیں اس لیے احساس کی شدت در آتی ہے۔ شاید یہی وجوہات ہیں کہ میری نظم سامع کے دل میں زیادہ تیزی سے اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔

جسارت میگزین: غزل کے روایتی مضامین سے کیا مراد ہے‘ اب جو غزل لکھی جا رہی ہے آپ اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

سلمان ثروت: جہاں تک غزل میں روایتی مضامین کی بات ہے تو ہم غزل پر موضوعاتی قدغن نہیں لگا سکتے ہاں یہ ضرور ہے کہ روایتی طور پر غزل کے کچھ تلازماتی نظام ہیں جیسے گلشن اور پھول‘ شمع اور پروانہ وغیرہ وغیرہ‘ ان سے ہماری غزل کی جمالیات نے جنم لیا ہے لہٰذا ایسے اشعار جن میں یہ تلازمے موجود ہوں اور اگر ان کو ایک نئے انداز میں باندھا گیا ہو تو وہ ہمیں زیاد پُرکشش معلوم ہوتے ہیں لیکن اب کافی عرصے سے نئی علامات اور استعارے غزل میں لائے جا رہے ہیں جو نہ صرف غزل میں موضوعاتی بلکہ جمالیاتی وسعت کا باعث بن رہے ہیں۔

جسارت میگزین: مبتدی قلم کاروں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سلمان ثروت: نوآموز شعرا سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اپنا مطالعہ وسیع رکھیں‘ محض شاعری پڑھنے سے شعر کہنے کا ہنر تو آجائے گا لیکن شاعری نہیں ہو پائے گی ایسی شاعری جس میں ندرتِ خیال ہو‘ فکر زاویے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ شاعری میں احساس کی شدت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ اپنا مسئلہ نظم کرتے ہیں۔ ایک بات اور کہ شعر و سخن میں ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور سیکھتے ہیں لیکن انداز و اسلوب نہیں سیکھ سکتے اگر آپ اسلوب سیکھنے کی کوشش کریں گے تو لامحالہ کسی شاعر کا اسلوب اپنا لیں گے لہٰذا آپ نے اپنا انداز و اسلوب خود دریافت کرنا ہے اور اسی طرح شاعری میں بھی آپ نے خود کو دریافت کرنا ہے۔

حصہ