ملازمت پیشہ خواتین اور لوگوں کے رویے

460

رضیہ: بس رہنے دو ضرورت وغیرہ کچھ نہیں، بس اپنی کزن کو دیکھ کر اس نے بھی ملازمت کرلی۔ بڑا شوق ہے اسےملازمت کا۔

ریحانہ بھابھی: ’’صائمہ بھابھی کہہ تو یہ رہی ہے کہ میں نے ملازمت بچوں کی تعلیمی اخراجات کی وجہ سے شروع کی ہے۔‘‘

رضیہ: ’’تو کیا ضرورت ہے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھانے کی، سرکاری اسکولوں میں پڑھاتیں۔‘‘

جب عنبر نے ساس کی یہ بات سنی تو اس کی آنکھوں میں نمی آگئی جب کہ اس نے صرف اپنے شوہر کی کم آمدنی کی وجہ سے ملازمت شروع کی تھی تاکہ گھر میں اضافی آمدنی ہو تو بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں۔

آج مریم کی آنکھ ذرا دیر سے کھلی، گھڑی دیکھی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی فوراً باورچی خانے میں چائے کا پانی رکھا اور انڈے بھی ابالنے کے لیے رکھےٗ، کمرے میں آکر دونوں بچوں کو اٹھایا اور جلدی سے انہیں اسکول کے لیے تیار کر کے میز پر بچوں اور شوہر کے لیے ناشتہ لگایا۔

مریم (گھڑی کی طرف دیکھ کر ) ’’آپ لوگ ناشتہ کر لیں میری وین آنے والی ہے میں جلدی سے تیار ہو جائوں…‘‘

شوہر نے میز پر ڈبل روٹی دیکھی تو منہ پھلا لیا ’’پراٹھا نہیں بنایا کیا؟‘‘

مریم : ’’سوری آج آپ بھی بچوں کے ساتھ ڈبل روٹی سے ناشتہ کر لیں، مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

مریم کی بات سن کر ارشد کو غصہ آگیا ’’تمہاری ملازمت سے میں تنگ آگیا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میں صبح پراٹھا کھاتا ہوں تم جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہو۔‘‘

مریم نے کافی ضبط سے کام لیا اور تیار ہونے کے لیے کمرے میں چلی گئی واپس آئی تو بچے ناشتہ کر چکے تھےؓ۔

’’مریم آپ لوگوں نے ناشتہ کر لیا۔ لو میری وین آگئی۔ بس دس منٹ میں آپ لوگوں کی بھی وین آجائے گی اچھا میں چلتی ہوں۔‘‘ اس نے شوہر اور بچوں کو خدا حافظ کہا… پیچھے سے شوہر کی آواز آئی ’’نہ گھر کی فکر نہ میری…‘‘

مریم کو ملازمت کا شوق نہیں تھا ملازمت اس کی مجبوری تھی شوہر کی آمدنی سے بہ مشکل گھر کا خرچا ہی پورا ہوتا تھا اس لیے جب دونوں بچوں کی پڑھائی شروع ہوئی تو اس نے اسکول میں ملازمت شروع کر دی حسب معمول شوہر نے اعتراضات شروع کر دیے کہ گھر کو کون دیکھے گا بچوں کی ذمہ داری، کون سنبھالے گا؟

مریم نے ارشد سے وعدہ کیا کہ آپ کو کبھی شکایت نہیں ہو گی، میں پوری کوشش کروں گی کہ گھر کو اور آپ سب کو وقت دوں اور وہ اپنے وعدے کے مطابق ساری ذمے داریاں بڑی ایمان داری سے نبھا بھی رہی تھی لیکن ذرا سی کہیں کمی رہ جاتی تو ارشد کا موڈ خراب ہو جاتا صبح وہ بچوں اور شوہر کی ضرورتوں کو پورا کرتی لیکن اکثر وہ خود بغیر ناشتہ کیے اسکول چلی جاتی جس کی شوہر کو کوئی پروا نہ ہوتی۔ گھر سے نکلتے اکثر و بیشتر میاں کے تلخ جملے بھی سنتی… لیکن بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے درگزر سے کام لیتی حالانکہ شوہر کو بھی معلوم تھا کہ اس کی بیوی کا ملازمت کرنا ضروری ہے۔

اسلم: ’’بس بھئی آج کل عورتوں کے لیے ملازمت کرنا بھی فیشن بن گیا ہے کہ چلو گھر سے باہر چند گھنٹے گزاریں، شوقیہ کرتی ہیں یہ عورتیں ملازمت، بلکہ گھر کے کاموں سے بچنے کے لیے۔‘‘

ریحان: ’’کیا بن ٹھن کر نکلتی ہیں یار۔‘‘

’’تعلیم کو کار آمد بنانے کے لیے بھی اپنی تعلیم کی مناسب سے نوکری کرتی ہیں۔‘‘
مجھے ایک چالیس، پینتالیس سالہ خاتون نے بتایا کہ طلاق کے بعد میری والدہ نے میری شادی کے لیے بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد گھریلو معاملات اور بھابھیوں کے رویوں کی وجہ سے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ میں کہیں ملازمت کر لوں اور چند گھنٹے سکون سے گزاروں غرض ملازمت پیشہ خواتین کی اکثریت کچھ وجوہات کی بنا پر گھر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں لیکن اکثر میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے رویے اور ان کے خیالات ان خواتین کے ساتھ نامناسب ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہاں میں سب کے بارے میں یہ نہیں کہہ رہی بہت سے لوگ ایسی ذہنیت کے مالک نہیں ہوتے لیکن کچھ لوگ ملازم پیشہ خواتین کے لیے اچھی رائے نہیں رکھتے یا ان کے گھر والے بھی ان کے ساتھ نا مناسب رویہ اختیار کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ دین اسلام نے عورت ذات کو سلاسل پابند نہیں کیا، حدود اسلامی میں انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمان خواتین نے تو جہاد میں بھی کارنامے انجام دیے، تبلیغ اسلام میں بھی یہ خواتین آگے آگے ہوتی تھیں۔ اپنے گھریلو امور کو بھی خیر و خوبی سے انجام دیتی تھیں۔ آج بھی بہت سی مسلمان خواتین مختلف شعبوں میں اپنے فرائض ایمان داری سے انجام دے رہی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ اپنے گھریلو امور سے بھی غافل نہیں ہیںؓ۔ میرے ارد گرد بہت سی ملازمت کرنے والی خواتین موجود ہیں جو نہایت شرافت اور پاکیزگی کے ساتھ اسلامی حدود کے دائرے میں ملازمت کرتی ہیں۔ ایسی خواتین کا احترام کرنا معاشرے پر فرض ہے ہمارے مثبت رویے ان کو ذہنی پریشانیوں سے بچاتے ہیں خصوصاً گھر والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسی خواتین کے ساتھ تعاون کریں اور ان کی قدر کریں۔ کیوں کہ ایسی خواتین دہری ذمے داریوں کو پورا کرتی ہیں خصوصاً کسی بھی نوعیت کی ملازمت کرنا آسان نہیں، وہاں محنت کرتی ہیں اکثر انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے پھر گھر آکر یہ خواتین (خصوصاً متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی) اپنے گھریلو امور کا سامنا کرتی ہیں۔ یعنی ڈبل ڈیوٹی انجام دیتی ہیں اور اتنی محنت اور مشقت بعد آس پاس کے لوگوں کے منفی رویے ہوں تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ ویسے بھی میرا دین دوسروں کو آسانی دینے کی ہدایت کرتا ہے مشکلات پیدا کرنا یا نامناسب رویہ اختیار کرنا غیر اخلاقی عمل ہے۔ دوسری طرف ملازمت پیشہ خواتین کو بھی اسلامی حدود کی پاسداری کرنی چاہیے اور اپنے بیرونی اور گھریلو امور انجام دینے چاہیے۔

حصہ