ننھے جا سوس۔ پُر اسرار عمارت

441

کمال اور جمال کے اسکول کے کلاس ٹیچر نے ایک دن آثارِ قدیمہ کے متعلق ایک سبق پڑھایا جس میں بتایا گیا تھا کہ آثارِ قدیمہ کسے کہا جاتا ہے۔ بچوں میں ہر چیز سیکھنے کی بہت جستجو ہوا کرتی ہے لیکن کچھ بچوں کو پاسِ ادب ہوتا ہے یعنی وہ اپنے بڑوں کی گفتگو کے درمیان کوئی سوال کرنا ادب و احترام کے خلاف سمجھتے ہیں اس لئے اگر ذہن میں کوئی سوال ابھر بھی رہا ہو تو خاموش رہتے ہیں، کچھ بچے چاہتے تو ہیں کہ ذہن میں ابھرنے والے ہر سوال کا جواب انھیں لازماً ملے لیکن ان میں جھجک اتنی ہوتی ہے کہ وہ کسی سوال کرنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے اور کچھ بچوں میں بہت کچھ جان لینے کی امنگ ہی نہیں ہوتی اس لئے اول تو ایسے بچوں کے ذہن میں کسی قسم کا کوئی تجسس پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی سوال ذہن میں ابھرے بھی تو “چلو جانے دو” کہہ کر اپنے لبوں کو سی لیتے ہیں لیکن ایسا جمال اور کمال کے ساتھ کیسے ہو سکتا تھا۔ جب استاد نے اپنے سبق کا نام ہی بلیک بورڈ پر “آثارِ قدیمہ” لکھا تھا تو ان کے ذہن میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ آثارِ قدیمہ کیا ہوتے ہیں۔ اب نہ تو انھیں کوئی سوال کرنے میں جھجک ہو سکتی تھی اور نہ ہی ان کا ذہن تجسس سے پاک تھا لیکن لائق بچوں کی طرح انھیں بڑوں اور خاص طور سے اساتذاء کے احترام کا بڑا خیال تھا اس لئے وہ دونوں فیصلہ کر چکے تھے کہ جب محترم استاد کی بات مکمل ہو جائے گی تو وہ ان کی اجازت سے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات اپنے استاد سے ضرور چاہیں گے۔ جب ان کے استاد نے آثارِ قدیمہ پر اپنی بات مکمل کر لی اور پاکستان میں جہاں جہاں آثارِ قدیمہ پائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں اجمالاً بچوں کو بتا دیا تو جمال نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اجازت چاہنے والے انداز میں کچھ پوچھنا چاہا تو ان کے استاد نے بخوشی اجازت دیدی اور ساتھ ہی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ کلاس کے ایک بچے نے کلاس کے سارے بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کچھ پوچھنا چاہا ہے۔ اس طرح ہوگا یہ اگر میں نے کسی بات کو اس طرح بیان کیا ہو گا کہ وہ بچوں کی سمجھ میں نہ آ سکی ہو تو میری وضاحت سے وہ بات سمجھ میں آ جائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر میں کوئی تفصیل نہ بتا سکا ہونگا تو وہ مجھے بتانے کا موقع مل جائے گا اس لئے اگر کسی بھی معاملے میں کوئی بھی بات بچوں کو سمجھ میں نہ آئی ہو تو وہ بتانے والے سے ضرور پوچھ لینی چاہیے تاکہ معلومات میں اضافہ ہو سکے۔ ہاں کہو جمال تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟۔ جمال نے اجازت ملتے ہی نہایت ادب سے سوال کیا کہ آپ نے آثارِ قدیمہ کے ذکر میں پرانی عمارتوں اور زمین میں دبے کئی پرانے شہروں کا ذکر کیا جس کو سن کر ہمیں بڑی خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں عمارتیں فنِ تعمیر کی اعلیٰ مثالیں بھی پیش کرتی نظر آتی ہیں اور مٹی میں دبے ہوئے کئی شہر اس بات کی نشاندہی کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ یہاں ہزاروں سال سے انسان آباد رہے ہیں جن میں سے کئی تہذیبیں ایسی ہیں جو آج کل کے انسانوں جیسی مہذب اور شہری نظام سے مکمل آشنا تھیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم کتنی مدت پرانی کسی عمارت کو قدیم یعنی پرانے زمانے میں شمار کر سکتے ہیں؟۔ یہ سن کر کمال کے استاد نے جمال کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہارا سوال بہت اچھا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ویسے تو ہر وہ لمحہ جو گزر جائے اصل میں وہ ماضی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن ہم اسے کبھی ماضی نہیں کہتے، جیسے اب سے پہلے جتنا بھی میں آپ کو سمجھا چکاہوں اب وہ لمحہ گزر چکا ہے اور جو جو سمجھاتا جا رہا ہوں وہ سب کا سب “ماضی” بنتا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اسے “حال” میں شمار کرتے ہیں لیکن جب کسی بات کو کافی سال گزر جائیں تو ان باتوں یا اس دوران کے واقعات کو کوئی بھی “حال” نہیں کہتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ماضی‘‘میں ایسا کہا جاتا رہا ہے یا ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حال کی کسی بات یا واقعے کو ماضی قرار دینے میں ایک مناسب وقت درکار ہوتا ہے بالکل اسی طرح عمارتوں اور شہروں کو آثار قدیمہ ہونے میں ایک اچھا خاصہ وقت درکار ہوتا ہے جو اندازاً دو تین سو برس پرانا تو ہوتا ہی ہے۔ اسی لحاظ سے وقت جتنا زیادہ بڑھتا جائے گا ان کی اہمیت ہر روز کے حساب سے بڑھتی جائے گی۔ استاد کی اس بات سے جمال ہی کیا کلاس بھی مطمئن ہو گئی، جمال نے ایک مرتبہ پھر ہاتھ بلند کیا تو اس کے استاد نے پوچھا کہ کہو جمال کیا بات ہے۔ اس پر جمال نے کہا کہ ہماری بستی سے کچھ دور کے فاصلے پر چند پرانے مقابر اور ایک بہت بڑی عمارت موجود ہے جس کے متعلق آس پاس کی بستی والے کہتے ہیں کہ تین چار سو سال ہو چکے ہیں، عمارت خستگی کا شکار ہونے کے باوجود کافی بہتر حالت میں ہے جبکہ اونچے اونچے گنبد نما مقابر کافی حد تک خستگی کا شکار ہیں تو کیا وہ بھی آثارِ قدیمہ کہلائے جا سکتے ہیں۔ جمال کے استاد نے کہا یقیناً انھیں آثارِ قدیمہ میں شمار کیا جا سکتا ہے اور محکمہ آثارِ قدیمہ والوں کو ان کی جانب توجہ دینا چاہیے تاکہ ان کو محفوظ بنایا جا سکے۔

گھر آنے کے بعد جمال اور کمال نے اپنے والد سے کہا کہ اگر اسکول میں کچھ دنوں کی تعطیلات ہوئیں تو وہ آپ کے ساتھ بستی سے کچھ دور، جہاں پرانے مقبرے اور بڑی ساری پرانی ویران عمارت ہے، وہاں ضرور جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ یہ جان سکیں کہ ان کی تعمیر کب ہوئی تھی، انھیں تعمیر کرنے والے کون تھے اور مقبروں میں مدفون لوگ کون ہیں۔ جب وہاں ان مقبروں کے علاوہ اور بھی کچھ قبریں ہیں تو بڑی ساری عمارت کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے مکانات کے کچھ نہ کچھ آثار تو ضرور ہونے چاہئیں اس لئے کہ ایک بڑی ساری رہائشی عمارت میں رہنے والے پوری دنیا سے الگ تھلگ تو یقیناً نہیں رہتے ہونگے۔ ان کی سوچ کی یہ رسائی اور تجسس دیکھ کر ان کے والدہ بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی۔ انھوں نے جمال اور کمال سے کہا کہ کیوں نہیں، جیسے ہی موقع ملا تو ہم وہاں جائیں گے اور سچ تو یہ ہے کہ تمہارا یہ تجسس دیکھ کر مجھے میں بھی یہ شوق پیدا ہو رہا ہے کہ میں ان مقابر اور عمارت کو تمہارے نقطہ نظر سے دیکھوں ویسے تو تمہیں پتا ہی ہے کہ مجھ سمیت ہم سب کا وہاں متعدد بار جانا ہوا ہے لیکن جس انداز میں اب تم نے دلچسپی لی ہے، اس کا ایک الگ ہی لطف ہوگا۔

کہتے ہیں گڑ کھانے والے کو کہیں نہ کہیں سے گڑ مل ہی جاتا ہے۔ موسم سرد ضرور تھا لیکن اچانک خراب ہونے کی حد تک سرد ہو گیا تھا۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ایسا چالیس سال پہلے بھی ہوا تھا۔ مقامی حکومت نے اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تمام اسکولوں کی پورے ہفتے کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا تھا۔ جمال اور کمال نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انھوں نے بھی کہا، ضرور لیکن شرط یہ ہے کہ موسم کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوئی لاپرواہی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آئے گا۔ جہاں ہمیں جانا ہے وہ جگہ یہاں سے ساٹھ پینسٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں سے کوئی دس کلو میٹر اور آگے ایک چھوٹا سا شہر ہے، وہاں مناسب ہوٹل بھی ہیں اور ایسے ریسٹورانٹ بھی جہاں قیام بھی کیا جا سکتا ہے۔ پروگرام کے مطابق وہاں ہم ایک رات قیام کریں گے اس طرح ہمیں وہاں گھومنے، پرانے مقبروں اور عمارت کو دیکھنے اور دیگر معلومات جمع کرنے کا خاطر خواہ موقع مل جائے گا۔ یہ سن کر جمال اور کمال کی خوشی کی انتہا نہیں رہی اور انھوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم اپنی امی کو بھی ساتھ لے لیں۔ ان کے والد نے کہا کہ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم تمہاری امی کو اکیلا گھر پر چھوڑ جائیں گے۔ یہ سن کرجمال اور کمال نے خوشی کا نعرہ لگایا اور جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

اگلے دن ناشتے کے فوراً بعد جمال اور کمال اپنے والدین کے ساتھ روانہ ہو کر کافی صبح پرانی عمارتوں کی بستی کے قریب سے گزرتے ہوئے قریبی ملحقہ شہر کے ایک ریسٹورانٹ جاکر رکے۔ اپنے لئے ایک کشادہ کمرہ کرایے پر حاصل کیا اور گاڑی سے سامان اتار کر کمرے میں منتقل کرنے کے بعد چائے کا انتظار کرنے لگے جس کا آرڈر ان کے والد صاحب نے کمرہ حاصل کرتے وقت دیدیا تھا۔ موسم آج بھی بہت سرد تھا جس کی وجہ سے چائے کی طلب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ چائے پینے کے دوران جمال نے اپنے والد سے کہا کہ ہم آج صرف اور صرف مقبروں اور عمارت کا بغور جائزہ لیں گے، اپنے تئیں اس کی جس حد تک بھی تحقیق ہو سکی کریں گے اور اس بات کا جائزہ بھی لیں گے کہ کیا آس پاس اسی دور کی کوئی رہائشی بستی بھی یہاں تھی یا نہیں اور کل کا دن ہم اس بستی کے اہم اور عام لوگوں سے ان پرانی عمارتوں اور ان سے وابستہ مکینوں کے متعلق جتنی بھی معلومات ہو سکیں، جمع کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسا سب کچھ کرنے میں ہمیں بہت مزا آئے گا۔ والد صاحب نے اقرار میں سر ہلا کر کہا کہ ایسا ہی ہوگا۔ (جاری ہے)

حصہ