اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا ہے اور اس کے جسمانی خدوخال کے ساتھ ساتھ اس کے رنگ و روپ سنوارے ہیں۔ یہ تمام مخلوقات علاقے اور جغرافیائی اعتبار سے مختلف جسامت اور رنگ و روپ والے ہوتے ہیں۔ شجر و حجر‘ پرند و چرند ، پھل پھول، اجناس، حیوانات و نباتات سب ایک خاص سانچے کے اعتبار سے پیدا کیے ہیں۔
مگر انسان کو سب سے نفیس اور بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ سورہ التین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا مگر یہ اپنی حرکتوں سے نیچوں میں نیچ ہو جاتا ہے۔‘‘
سورہ انفطار میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے انسانو! کس چیز نے تم کو اپنے رب سے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ جس نے جس طرح نک سک کے ساتھ جیسا چاہا تم کو پیدا کیا۔‘‘
سورۃ التحریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے انسان کو بڑا تھڈلا پیدا کیا ہے، یہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتا ہے جب اس پر مصیبت آتی ہے تو بلبلاتا ہے اور جب ٹل جاتی ہے تو اکڑنے لگتا ہے۔‘‘
سورۃ الروم میں فرمان الٰہی ہے ’’خشکی اور تری میں جو فساد پھیلا ہے سب اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘
انسان جب سے پتھر کے دور سے نکل کر معاشرے میں تبدیل ہوا گاؤں، شہر اور ملک قائم ہوئے لوگوں نے خود کو ایک نظام کے تحت زندگی گزارنے کا پابند کیا۔ قبائلی نظام سے لے کر بادشاہتیں قائم ہوئیں‘ ایک دوسرے پر برتری کے لیے جنگ و جدل میں انسانوں کا قتلِ عام شروع ہوا‘ جو آج تک جاری ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول بنا کر ایک ایسا نظامِ زندگی عطا کیا جو رہتی دنیا تک انسانیت کی فلاح کی ضامن ہے۔
اس طویل تمہید کا مقصد پوری دنیا میں قائم مختلف نظام مملکت کو زیر بحث لانا ہے جو ملکوں میں رہنے والے باشندوں کو اس کا پابند کرتا ہے‘ جو ملکی نظام اور قوانین پر عمل کرنے کے اپنی خواہشات کے برعکس پابند ہوتے ہیں۔ یہ در اصل ایک سانچۂ زندگی ہے جس میں انسان خود کو ڈھال لیتا ہے یا ڈھال دیا جاتا ہے۔
مختلف اشیا بنانے والی کمپنیاں پہلے سانچہ تیار کرتی ہیں پھر حسب ضرورت اس میں خام مال پگھلا کر اپنی مطلوبہ چیز بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
مثلاً کھلونا بنانے والی ایک کمپنی نے اگر بندر بنانے کا سانچہ بنایا ہے اور اس میں خام مال کے طور پگھلا ہوا پلاسٹک ڈالے گا تو پلاسٹک کا بندر نکلے گا، اگر پگھلا ہوا چاندی ڈالے گا تو چاندی کا بندر نکلے گا مگر نکلے گا بندر ہی۔
اب اس نظامِ حکومت کے اس سانچے کا جائزہ لیتے ہیں جس میں پوری دنیا کے انسان زندگی گزارنے کے پابند ہیں اور خود کو اپنی خواہشات کے برعکس ڈھال لیتے ہیں۔
اس وقت یورپ، امریکا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک یورپی جمہوریت کے تابع اپنے نظام ریاست کو چلانے اور حکمرانوں کو منتخب کرنے کے پابند ہیں، عرب ممالک بادشاہت کے زیر انتظام ہیں۔ چین‘ ویت نام کمیونسٹ نظام کے تحت ہیں۔ روس میں نام نہاد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں اور آمریت کا جابرانہ نظام ہے۔
موضوع تو اس جمہوری نظام ریاست کے متعلق ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
افراد کو گنتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ ایک ایسا سانچہ ہے جس میں مختلف فکر و نظر کے حامل و آزاد خیال امیدوار عوام کی نمائندگی کے دعوے دار بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور دھن‘ دھونس دھاندلی کے ذریعے ایوانِ اقتدار میں جا کر قوم کی تقدیر سے کھیلتے ہیں اور ہر بار عوام دھوکا کھاتے ہیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا۔
آ بتائوں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک
سلطنتِ اقوام غالب کی ہے اک جادہ گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری
دراصل یہ ایک ایسا جمہوری نظام یا سانچہ ہے جس میں ہر کوئی ایک جیسا بن جاتا ہے۔ جس طرح کوئلے کی دلالی میں لازمی ہاتھ کالا ہوتا ہے۔ کاجل کی کوٹھری میں کاجل کا داغ بھائی لاگے ہی لاگے۔
اس جمہوری ایوان کے پنجرے میں بند ہوکر کوئی لاکھ میٹھے سُروں میں گائے مگر کوئوں کی کائیں کائیں میں اس کی آواز دَب جاتی ہے۔ 56 ہوں یا چھ ہوں پنجرے کے کنجی جس مقتدرہ کے ہاتھوں میں ہے وہی پتلیوں کو نچاتا ہے۔
عجب حال ہے نیرنگیٔ سیاست کا
متغیر چہرہ ہے ہر قیادت کا
ضرورت غالب آ گئی اصولوں پر
گتھی سلجھتی نہیں ان کی فصاحت و بلاغت کا