’’قرض‘‘ ہمارے ہاں اُس رقم کو کہا جاتا ہے جو دو افراد آپس میں لیتے اوردیتے ہیں اور اس رقم کو لینے والا اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ دینے والے کو یہ رقم پوری واپس کرے۔ اس طرح کا لین دین ’’قرض‘‘ کہلاتا ہے۔
قرض کے بارے میں قرآن حکیم میں جو رہنمائی آ ئی ہے وہ درج ذیل ہے۔ سورۃ البقرہ آ یت نمبر 280 تا282 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔ اُس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو جب کہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے، وہاں ہر شخص کو اُس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔‘‘
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آ تا ہے (یعنی قرض لینے والا) اور اسے اللہ‘ اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو یا املا نہ کرا سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے جسے قرض لینے والے کو ہر حال میں ادا کرنا ہے اِلاّ یہ کہ قرض دینے والا ہی خوش دلی سے، بغیر کسی دباؤ، دھمکی یا دھونس کے قرض کی رقم کا کچھ حصہ یا پوری رقم معاف کردے۔‘‘
اس سلسلے میں آپؐ کی حدیث ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے ایک جنازہ لایا گیا تو آپؐ نے پوچھا ’’اس مرنے والے پر کوئی قرض تو نہیں ہے؟‘‘
لوگوں نے کہا ’’ہاں اس پر قرض ہے۔‘‘
آپؐ نے پوچھا ’’اس نے کچھ مال چھوڑا ہے کہ جس سے یہ قرض ادا کیا جاسکے؟‘‘
لوگوں نے کہا’’نہیں۔‘‘
تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘(گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے معذرت کرلی)
حضرت علیؓ نے یہ صورتِ حال دیکھ کر کہا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس قرض کو ادا کرنے کی ذمے داری لیتا ہوں۔‘‘ تب آپؐ آگے بڑھے اور نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا ’’اے علی! اللہ تعالیٰ تجھے آگ سے بچائے اور تیری جان بخشی ہو جیسے کہ تُو نے اپنے اس مسلمان بھائی کے قرض کی ذمے داری لے کر اس کی جان چھڑائی۔‘‘ کوئی بھی مسلمان آدمی ایسا نہیں ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رہائی بخشے گا۔(شرح السنتہ)
بارِ قرض کی ادائی کی اہمیت پر ایک اور حدیث ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص جس نے خدا کی راہ میں جان دی ہے اُس کا ہر گناہ معاف ہوجائے گا سوائے قرض کے (جو اسے ادا کرنا تھا)۔‘‘ (مسلم، عبداللہ بن عمروؓ)
اوپر کی دونوں حدیثیں قرض ادا کرنے کی اہمیت کو خوب واضح کرتی ہیں۔ جس شخص نے اپنی جان تک خدا کی راہ میں قربان کردی، اُس کے ذمے اگر کسی کا قرضہ ہے اور اس نے ادا نہیں کیا تو وہ معاف نہیں ہوگا کیوں کہ یہ بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ جب تک قرض خواہ معاف نہ کرے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا۔
اگر آدمی ادا کرنے کی نیت رکھتا ہو اور مر جائے اور ادا نہ کرسکے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ صاحبِ حق کو بلائے گا اور معاف کرنے کے لیے اس سے کہے گا اور اس کے بدلے اسے جنت کی نعمتیں دینے کا وعدہ کرے گا تو صاحب ِ حق اپنے حق کو معاف کر دے گا۔ لیکن اگر کسی نے باوجود قدرت رکھنے کے ادا نہیں کیا اور صاحب ِ حق کو اس کا حق نہیں لوٹایا، یا دنیا میں اس سے معاف نہیں کرایا تو اس کی معافی کی قیامت میں کوئی صورت نہیں ہوگی۔
قرض لینے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ناگزیر اور اشد ضرورت کے لیے قرض لیا جائے۔ تعیشات اور اللے تللوں کے لیے قرض نہ لیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ قرض کی ادائی کا پختہ ارادہ دل میں ہو۔ تیسری بات یہ کہ جو نظام الاوقات قرض کی واپسی کا طے کر لیا گیا ہو، حتی الامکان اس کی پابندی کی جائے۔