جیسے جیسے انسان ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے تنہا ہوتا جارہا ہے۔ پہلے اس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا، اب وہ ایک موبائل کے ساتھ گھنٹوں گزار دیتا ہے اور اپنے اردگرد لوگوں کی کوئی پروا ہی نہیں ہوتی کہ وہ کیسے ہیں۔
انٹرنیٹ کی وسیع دنیا میں انسان اتنا مگن ہوگیا ہے کہ اسے وہاں کی دوستی، گفتگو اور ٹرینڈ کی ہر وقت فکر رہتی ہے، حتیٰ کہ ہماری سب سے پہلی سوچ اور نظریے، ہماری پسند ناپسند سے یہ موبائل پہلے سے واقف ہوتا ہے۔ گوگل میموری میں ہماری آج سے برسوں پہلے کی سرچنگ محفوظ ہے۔ آج کے دن ہم کیا سوچ رہے تھے وہ ہماری فیس بک کی میموری میں سامنے آجاتا ہے، یعنی ہماری ہر سرگرمی پر گوگل نظر رکھتا ہے۔ ہمیں کیسے لوگ پسند ہیں ویسے ہی لوگوں کا پروفائل پیج ہمارے سامنے لے آتا ہے۔ یعنی پرائیویسی نام کی کوئی چیز انسان کی زندگی میں نہیں ہے۔ بلکہ جو جتنا اپنی پرائیویسی کو شیئر کرے اتنے ہی ویوز اور لائیکس ملتے ہیں۔ اسی طرح پیسے کمانے کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ یعنی انسان کو تنہا کرکے دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں دل چسپی لینا، یہ ایک ہدف ہے۔ جو جتنا انٹرنیٹ کی دنیا میں کھل کر آتا ہے اتنا ہی کماتا ہے، یعنی ایک ہدف لوگوں کو بے حیا بنانے کا بھی ہے۔ اپنے وی لاگ کو دل چسپ بنانے کے لیے میاں بیوی کی آپس میں لڑائی کا ڈراما دکھانا، کبھی بیوی اور سوتن کی لڑائی دکھانا… غیبت اور چغلی کرنا۔ اسی طرح کے وی لاگز میں ملین ویوز آتے ہیں اور یہ سب برائیاں کرنے کے بعد وہ کروڑوں کماتے ہیں۔
برائی کرنے اور دکھانے پر کمائی ڈبل ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جہاں پسند و ناپسند کا معیار اتنا پست ہو وہاں نسلوں کی تربیت کیسے ہوگی؟بہ حیثیت مسلمان ہمارا معاشرے میں کیا کردار ہے؟ ہمارا دین اس طرح کے لایعنی، فحش کاموں کی اجازت دیتا ہے؟
ہمارا معیار صرف پیسے کے پیچھے اتنا گر گیا کہ اس کے حصول کے لیے حدود اللہ کو پامال کرنا ایک معمولی کام بن چکا ہے! وقت کا بہت بڑا حصہ یہ موبائل و انٹرنیٹ لے لیتا ہے، جس میں اگر ہم کوئی اسکل سیکھ لیں تو اس وقت کو فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔ لیکن انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی پھیلائی ہوئی ہے اور وہی وڈیو ٹاپ لسٹ پر آتی ہے جس پر لائکس ویوز زیادہ ہوں۔ خدارا اپنا معیار بلند کریں۔ اچھی وڈیوز کو دیکھیں اور لائک کریں۔ درسِ قرآن اور تجوید القرآن پر بھی بہت سی وڈیوز بنی ہیں، ان کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔ اچھی بات کو پھیلانا بھی صدقہ ہے۔ جہاں بھی ہو اچھی باتوں کو پروموٹ کریں۔ یہ موبائل ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے، لیکن اس کا مثبت استعمال ہمیں اللہ سے قریب بھی کر سکتا ہے اور زندگی میں تبدیلی بھی لا سکتا ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے، اس نے انسان کو عزت دی ہے، اس کی پرائیویسی کا خیال رکھا ہے۔ سورہ حجرات میں ارشادِ ربانی ہے: ’’نہ غیبت کرو نہ لعن طعن کرو، نہ تجسس کرو۔‘‘ یہی اخلاقی برائیاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر ویوز اور لائکس لے رہی ہیں۔ افسوس اس چند دن کی زندگی کے لیے ہم مستقل خسارے کا سودا کررہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ اِس دنیا سے جانے کے بعد ہماری سوشل میڈیا پر ڈالی جانے والی کسی وڈیو سے برائی پھیل رہی ہو اور وہ ہمارے لیے وبال بن جائے۔ انٹرنیٹ کی دنیا ایک سراب ہے، اس پر چلنے کے لیے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔