بچائو اپنے آپ کو اور اہل عیال کو

617

سورہ التحریم کی آیت 6 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان بنیں گے‘ جس پر تند خو فرشتے متمکن ہیں جو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ذرا بھی رو گردانی نہیں کرتے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور انہیں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے چند تفویض کردہ اختیارات سے نوازا اور نیکی و بدی کے راستوں کو واضح کیا اور اس پر انعام و سزا کی واضح پیغام دے دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا اور رسول کو راہِ ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا جو توحید و رسالت، فکرِ آخرت‘ تطہیر افکار و نظریات اور تعمیر سیرت وکردار کے حکیمانہ پیغام لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ختمِ رسلؐ بنا کر بھیجا اور قرآن کو آخری کتابِ ہدایت کے طور پر نازل کرکے تکمیل ہدایات دین و دنیا کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل انسانیت، تکریم آدمیت، غلبہ اسلام اور تہذیب اسلامی کو نافذ کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور کارِ نبوت کا بارِ گراں اپنے خلفائے راشدین کے حوالے کر گئے اور امت محمدیہ کو امرباالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمے داریاں سونپیں۔

مذکورہ بالا آیت میں حکم ربانی کی بجا آوری میں ہی ہمارے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ اب اس کا سیدھا سادہ حاصل نتیجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اِس دنیا سے رخصت ہوں جو ہمیں جہنم کا ایندھن بننے سے بچا سکتا ہے۔ مگر یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے ہمارا اذلی دشمن شیطان کے مکر و فریب‘ اس کی ترغیبات اور تلبیس سے بچنا آسان نہیں ہے۔

آیئے یہ جائزہ لیں کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کی پرورش و پرداخت کیسے ہوتی ہے؟ اگر وہ کسی مشرک ، لا دین یا دہریہ کے گھر پیدا ہوا ہے تو اس کی نشوونما اسی ماں باپ کے فکر و نظر اور دین کے مطابق ہوگی اور اربوں انسان دور جدید میں موجود خدا بے زار زندگی گزار رہے ہیں اور جہنم ان کا منتظر ہے۔ مگر آیت مذکورہ تو اہل ایمان سے مخاطب ہے لہٰذا اس تحریر کا موضوع اہلِ ایمان ہیں جن کو یہ باور کرانا ہے کہ کیسے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچا سکتے ہیں۔ہر بچہ جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی پرورش و پرداخت تین دائروں میں ہوتی ہے۔

پہلا دائرہ اس کے ماں کی گود اور اس کے گھر کا آنگن ہے۔ یہی اس کی مابعدالطبیعیات کا بنیادی مرکز ہے جہاں وہ اپنے دینی، اخلاقی اور خاندانی جبلت سے نہ صرف آگہی حاصل کرتاہے بلکہ اس کی پوری زندگی کی عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بس مسلم والدین اس معاملے میں کتنی حساسیت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں‘ ماں کی گود کا مدرسا پانچ سال کی عمر تک کس طرح کی بنیاد رکھ رہی ہے۔

دوسرا دائرہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں بچہ دنیاوی اور دینی تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے۔ جس کا سلسلہ پرائمری اسکول سے شروع ہو کر اعلیٰ تعلیم گاہوں تک دراز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک کا نصابِ تعلیم کیا ہے جو نصاب تعلیم ہے نسل نو اسی سانچے کے مطابق پروان چڑھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو دیکھنا ہو تو اس ملک کے نصاب تعلیم کو دیکھ لو۔ بدقسمتی سے کلمہ والے ملک مملکت خداداد پاکستان کا کوئی نصاب تعلیم نہیں ہے بلکہ برنیڈ رسل کی مسلط کردہ نصاب تعلیم کا ہی کرشمہ ہے کہ پاکستان کے تعلیم گاہوں سے لاکھوں کی تعداد میں ایسی نسل فارغ ہو کر مختلف شعبوں میں متحرک اور ذمہ داریوں پر فائز ہیں جنہیں ’’معاشی بھیڑیا‘‘ کہنا غلط نہ ہوگا۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر دینی تحریکوں سے وابستہ نوجوان اس ملک میں بے راہ روی کو روکنے میں مصروف ہیں ورنہ ریاست کے تمام اداروں کے ذمے داران نے قانون کا قلم اور تعزیر کا ڈنڈا استعمال کرتے ہوئے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اساتذہ قوم کے معمار ہیں یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد قابلِ احترام ہیں۔ جو اب اپنے منصب سے روگردانی کی وجہ سے پہلے جیسے نہیں رہے۔ اس موضوع کے قارئین تو اہل ایمان ہیں جو دنیا کے جس خطے میں آباد ہیں۔ تمام مسلم ممالک کی کیفیت ایک جیسی ہے مگر وہ کروڑوں مسلمان جو دارالحرب میں ہیں‘ وہ بھی اپنی اولادوں کو پہلے دائرے میں پرورش کی ذمے داری اس طرح سے نبھائیں کہ بچہ توحید و رسالت اور فکرِ آخرت اور اسلامی تہذیب و اخلاق سے آشنا ہو اور پھر اس ملک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے دین و اخلاق کی حفاظت کر سکے۔

تیسرا دائرہ معاشرہ ہے‘ جس میں بچہ جب گھر سے باہر نکلنا شروع کرتا ہے تو سن بلوغت سے عمر کے آخری ایام تک اپنے دوستوں، رشتے داروں، دفاتر، اپنے معاشی مصروفیات کے دائروں میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ صحبتیں، یہ تعلقات اور یہ رشتے انسان کی زندگی پر نہایت ہی اچھے یا برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا۔

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند

اچھے کی صحبت میں آدمی اچھا اور برے کی صحبت میں آدمی برا بنتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور شاہیں کا جہاں اور

نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عطر فروش کی دکان پر بیٹھو گے تو عطر کی خوشبو محسوس ہوگی مگر لوہار کی دکان پر بیٹھو گے تو گرمی محسوس ہوگی۔‘‘

اس کے علاوہ انسان اپنے فاضل وقت کو گزارنے کے لیے مختلف مشاغل بھی اختیار کرتا ہے یہ بات درست ہے کہ کتابوں کی دوستی سب سے اچھی ہے۔ مگر یہاں بھی خود کو جہنم سے نجات کے لیے مثبت اور معلوماتی کتابوں سے دوستی ضروری ہے۔ ریاست جو اپنی رعایا کو بالخصوص نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے فحش ویڈیوز اور تصاویر و گندی کہانیاں اور کتابوں پر نہ صرف پابندی لگاتی ہے بلکہ اس کے لیے قانون سازی بھی کرتی ہے اور ہمارا ملک تو اپنے آئینی اعتبار سے اس کا پابند ہے۔ عالمی طاغوت انسانی حقوق کے نام پر واویلا مچاتا ہے مگر انسان کا بہترین حق یہ ہے کہ اس کو ہر اُس کام سے روک دیا جائے جو اس کو ذہنی، اخلاقی، جسمانی اور روحانی اعتبار سے تباہ کرنے کا سبب ہے۔ یہ Digital War کا زمانہ ہے اور ہر نوجوان بنا رنگ و نسل اور قومیت کے اس حملے کی زد میں ہے۔

یہ دنیا ہے‘ اس کی تین حصے کی آبادی مذہب بے زاری میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ مسلمان ہی شیطان کا اصل ہدف ہے دیگر مذاہب کے لوگ اور ان کے پیشوا ہتھیار ڈال چکے ہیں اور تلبیس ابلیس کا شکار ہو چکے ہیں۔

یہ آیت اہلِ ایمان کو ہی حکم دیتا ہے کہ بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان بنیں گے۔

آخر میں رحیم خان خاناں کا ایک دوہا جس کا مطلب ہندی نہ جاننے والے قارئین کو تحریر کر دوں گا‘ یقین ہے آپ پڑھ کر اس مضمون کا احاطہ کر پائیں گے۔

’’ہنسا بگولا اک سا مانسرور ماہی

بگولا کھائے ماچھری ہنسا موتی کھاہی‘‘

(ہنس اور بگولے مان سرور جھیل میں ساتھ رہتے ہیں‘ بگولا مچھلی کھاتا ہے مگر ہنس موتی کھاتا ہے۔)

ہنس کی وفاداری مسلمہ ہے وہ جھیل کے خشک ہو جانے پر اس کو چھوڑ کر نہیں جاتا اس کے کنکروں پر اس امید پر گزارا کرتا ہے کہ بارشوں میں جھیل بھرے گی اور پھر اس کو موتی کھانے کو ملے گا۔

’’اے ایمان والو! حالات کے جبر اور لالچ میں خود کو شیطان کا آلہ کار نہ بنا ڈالو یہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

آدمی کا جسم کیا ہے جس پر شیدا ہے جہاں
ایک مٹی کی عمارت ایک مٹی کا مکاں
موت کی پُر زور اندھی جب اس سے ٹکرائے گی
یہ عمارت ٹوٹ کر پھر خاک میں مل جائے گی

اسلامی تحریکوں کا موٹو اور مشن یہی ہے کہ وہ لوگوں کو نار جہنم سے بچانے کا فریضہ انجام دیں گی۔ اگر یہ کام نہیں ہو رہا ہے تو تحریک بے مقصد ہو کر رہ جائے گی۔

حصہ