ننھے جاسوس۔ ڈبل ایجنٹ

350

چلتے چلتے ان کو اپنے پیچھے پیچھے چلنے کا کہنے والے ایک ہال نما ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچ کر جمال اور کمال کو جیسے 440 وولٹ کا جھٹکا لگا۔ بالکل سامنے والے صوفے پر ان کے والد صاحب تشریف فرما تھے جو استقبالیہ مسکراہٹ کے ساتھ انھیں اندر آتا دیکھ رہے تھے اور ان کےبرابر والے صوفے پر انسپکٹر حیدر علی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی جانب سے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا گیا کہ وہ سامنے والے خالی صوفوں پر وہ بیٹھ جائیں۔ وہ سراپا حیرانی کے عالم میں نہایت خاموشی کے ساتھ ان دونوں کے سامنے والے صوفوں بیٹھ گئے اور دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ دو اور قدآور شخصیات کمرے میں داخل ہوئیں جن کو دیکھتے ہی جمال اور کمال کے والد اور انسپکٹر حیدر علی کھڑے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر جمال اور کمال بھی کھڑے ہوکر ان ہی کی جانب دیکھنے لگے۔ آنے والوں نے جمال اور کمال کو دیکھتے ہی بہت پاٹ دار آواز میں “ویلڈن بچو” کہا۔ جمال اور کمال اس “ویلڈن” کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد آنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ ہم پولیس کے اسپیشل دستے سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تک کی جو بھی کاروائی ہوئی ہے وہ سب ہمارے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق عمل میں آئی ہے۔ ہمیں خبر ہے کہ تم دونوں کن کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہو اس لیے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم تمہاری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو انسپکٹر ملک احمد خان کی سر گرمیوں کی جانب سے بڑے شکوک و شبہات تھے۔ وہ ایک بڑے شہر کے تھانے میں تعینات تھے لیکن لگتا تھا کہ ان کے کچھ معاملات سرحد کے اس پار سے بھی جڑے ہوئے ہیں جس کو وہ کمال ہوشیاری سے چلا رہے ہیں۔ جمال اور کمال کی بستی کیونکہ پڑوسی ملک کی سرحد سے کافی قریب تھی اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیوں نہ ان کی پوسٹنگ اس بستی میں کر دی جائے تاکہ ان کے سرحد پار معاملات کھل کر سامنے آ سکیں۔ اسی لیے ہم نے انسپکٹر حیدر علی کو عارضی طور پر وہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور انسپکٹر ملک احمد خان کو وہاں تعینات کیا۔ الجھن یہ تھی کہ ان کا ایک ایسے فرد سے گہرا یارانہ تھا جو پولیس کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔ اس کا ہمارے ملک کے ریکارڈ میں نام خالد تھا لیکن بعد میں یہ بات علم میں آئی کہ اس کا نام “اجے” ہے لیکن اس سے عجیب بات خفیہ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ “اجے” مرد نہیں بلکہ عورت ہے اور اس کے رابطے پڑوسی ملک سے بہت گہرے ہیں۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا تھا کہ اجے کو اٹھا لیا جاتا اور اس بات کی تصدیق کی جاتی کہ عورت ہے یا مرد لیکن اس سے ہوتا یہ کہ اگر اس کی سرگرمیاں ہمارے ملک کے خلاف ہیں تو اس کا علم شاید ہمیں نہیں ہو پاتا۔ اب جبکہ بیشمار شواہد اس کے خلاف جمع ہو چکے تھے اس لیے بس اس بات کی تصدیق ضروری تھی کہ وہ عورت ہے یا مرد۔ اس سلسلے میں ہمیں جمال اور کمال کے والد کو اعتماد میں لینا پڑا اور ہمارے ہی کہنے پر جمال اور کمال کے والد دونوں کو ایسے مقام پر لے گئے جہاں وہ اکثر بیٹھ کر کوئی نہ کوئی شام گزارا کرتا تھا۔ اس کی موجودگی پر وہاں کئی اجنبی چہرے بھی علم میں آئے جن کو اجے کے ساتھ ہی گرفتا کر لیا گیا ہے لیکن اجے عورت تھا یا مرد اس کی تصدیق ہمارے ذہین ترین ننھے جاسوسوں، جمال اور کمال نے کی۔ ہمیں تعجب ہے کہ ان دونوں نے اتنی سی عمر میں عورت اور مرد کی حرکات و سکنات پر اتنی معلومات کہاں سے حاصل کیں جن کا علم ہمیں بھی نہیں تھا۔ جب جمال نے اجے کی جانب نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنا قلم اچھالا تو اس نے قلم کو اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ کر روکنے کی بجائے ٹانگوں کو کھول کر اپنی اسکرٹ پر روکا۔ مرد عام طور پر کیونکہ پتلون یا کرتا شلوار زیب تن کرتے ہیں تو اگر وہ بیٹھے ہوئے ہوں اور کوئی چیز ان کی ٹانگوں کے درمیان گرنے والی ہو تو وہ غیر ارادی طور پر اس گرنے والی چیز کو اپنی ٹانگیں بھینچ کر گرنے سے بچاتے ہیں جبکہ خواتین اپنی قمیص، جمپر یا اسکرٹ پر روکتی ہیں ہم کیوں کہ ہال کی پوری سر گرمیوں پر بہت بھر پور نظر رکھے ہوئے تھے اس لیے ہر ہر معاملے کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اجے اور اس کے ساتھ بیٹھے افراد کو جمال اور کمال پر یقین کی حد تک شبہ ہو چکا تھا کیونکہ ان کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ اس بستی میں دو ذہین بچے ایسے ہیں جو خداداد صلاصیتوں مالک ہیں اور وہ پولیس کے بہت کام آتے ہیں۔ ہم نے جمال اور کمال کے والد کو پہلے ہی واش روم ایریا سے اٹھا لیا تھا اور ہمیں یقین تھا کہ دیر ہونے پر وہ اپنے والد کی تلاش میں اس سمت ضرور آئیں گے۔ ہم نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ جیسے ہی جمال اور کمال واش روم ایریا کی جانب بڑھے تو ان کے ساتھ ہی کچھ لوگ اٹھ کر ان کی جانب لپک رہے تھے۔ لہٰذا مقدم ہو گیا تھا کہ دونوں کو محفوظ مقام پر اس طرح منتقل کیا جائے کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہو سکے۔ جمال اور کمال کا یہ شک درست ہے کہ انھیں کچھ خفیہ آنکھیں دیکھتی رہتی تھیں جس کا اظہار وہ اپنے والد سے کیا کرتے تھے۔ ہمارے محکمے نے ان کی حفاظت کے خیال سے ایسے اہل کار ان کی نگرانی کے لیے رکھے تو جو ہردم ان پر نگاہ رکھتے تھے لیکن وہ اتنے شارپ تھے کہ باوجود کوشش، انھیں دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ ہمارا خیال ہے ہم نے جتنی تفصیل بتانا ضروری سمجھا تھا بتادی۔ ہم جمال اور کمال کو ایک مرتبہ پھر ویلڈن کرتے ہیں اور ان کے والد کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور جمال اور کمال کو خوشخبری سناتے ہیں کہ انسپکٹر حیدر علی کو پھر سے ان کی بستی کے تھانے میں تعینات کیا جا چکا ہے۔

حصہ