شاہ زیب کے بابا

383

شازیب ماشاء اللہ آپ میٹرک میں پہنچ چکا تھا، اچھے برے کی اسے پہچان بھی ہونے لگی تھی اس کے بابا نہ صرف خود پانچ وقت نماز کے پابند تھے بلکہ اسے بھی نماز پڑھنے کی تاکید کرتے تھے اسکول کی تعلیم کے ساتھ مسجد میں مولانا صاحب سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کر رہا تھا گھر میں دونوں چھوٹی بہنوں کو بھی استانی قرآن پڑھانے آرہیں تھیں اماں باقاعدہ عبایہ لیتی اور دونوں بیٹیوں کو بھی جو ابھی دس بارہ سال کی تھیں سرڈھانپے رکھنے کی ہدایت کرتی… لیکن اسے اس بات پر بڑی حیرانی ہوتی جب وہ بابا کو دکان پر ناپ تول میں بے ایمانی کرتے دیکھتا اور اکثر آنے والے کاہکوں کے ساتھ کو بد تمیزی کرتے دیکھتا بلکہ اس گاہک کے جانے کے بعد بابا اس کو پیچھے سے گالیوں سے بھی نوازتا۔

…٭…
آج نماز مغرب کے بعد مولانا صاحب سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 85 ی تفسیر بیان کررہے تھے آیت کے اس حصے کا ترجمہ سن کر اس کا دھیان فوراً اپنے بابا کی طرف گیا’’کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو؟ اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو گاکہ دنیا میں رسوائی اور یہ قیامت کے دن سخت عذاب کی مار، اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں‘‘۔

شاہ زیب نے مولانا صاحب سے جب اس کی تفصیل معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ بیٹاہم دین اسلام کی کچھ تعلیمات اور احکامات پر عمل کریں اور کچھ کو نظر انداز کردیں یہ اللہ کو پسند نہیں یہ طریقہ کار یہود و نصاریٰ کا تھا کہ وہ جن احکامات پر آسانی سے (اپنے فائدے کے لیے) عمل کر سکتے تھے کرتے، جو احکامات ان کی مرضی کے خلاف لگتے یا مشکل لگتے انہیں چھوڑ دیتے، جبکہ میرا رب تو یہ چاہتا ہے کہ تم ’’پورے کے پورے دین میں داخل ہو جائو‘‘ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کے لیے درد ناک عذاب ہے آخرت میں اس کی پکڑ ہو گی۔

…٭…
شاہ زیب: پکڑ ہو گی؟وہ تمام دن یہ سوچتا رہا کہ میرے بابا تو اتنے نیک ہیں زکوٰۃ خیرات بڑی ایمانداری سے دیتے ہیں تو کیا بابا کی پکڑ ہو گی… وہ لرز گیا اس نے قرآن کی تفسیر میں حضرت شعیبؑ کی قوم کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ بھی ناپ تول میں کمی پیشی کرتے تھے اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا۔

سارا دن وہ سوچتا رہا بابا کو کس طرح سمجھائے پھر اسے آپؐ کی حدیث یاد آگئی کہ وہ مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہ رہے (مفہوم) وہ بابا کا بڑا ادب کرتا تھا لہٰذا برائے راست انہیں روک بھی نہیں سکتا تھا۔

…٭…
آج اتفاقاً اسے فیس بک پر ایک معروف مولانا صاحب کا بیان مل گیا جو اسی سلسلے میں تھا اس نے وہ بیان اپنے موبائل پر سیو کر لیا رات کو کھانا کھا کر اس نے وہ آڈیو آن کر دی مولانا صاحب فرما رہے تھے ’’کیا تم ہماری کتاب ہماری شریعت کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کو رد کرتے ہو اور جو کوئی تم میں سے یہ روش اختیار کرلے تو کوئی سزا اس کے سوا اس کے لیے نہیں ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار کر دیے جائیں اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیے جائیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے جو تم کررہے ہو…

اے اللہ کے بندوں اس آیت سے ظاہر ہے کہ تم پورے کے پورے دین میں داخل ہو جائو… اللہ کے کسی ایک حکم کی پاسداری اور دوسرے حکم سے بیزاری اس طرح تمہارا دین مکمل نہیں مومن تو وہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے تمام احکامات سے اپنی شخصیت کو سنوار لیے۔

شاہ زیب نے ترچھی آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور کہا بابا کیا مسلمان ایسے بھی ہیں جو یہود و نصاریٰ کی طرح اللہ کے کچھ احکامات کو مانتے ہوں اور کچھ کو نہیں؟ میرے خیال میں تو مسلمان ایسے نہیں ہو ں گے۔

بیٹے کی اس بات پر بابا چونک گئے اسے بڑی پشیمانی محسوس ہوئی کہ اس کے بیٹے کا یہ جملہ اسے جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھا۔

آج چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہم مسلمانوں کی اکثریت دین کے معاملے میں کچھ احکامات پر عمل کرتے ہوئے نظر آتی ہے اور کچھ معاملات میں نہیں، یعنی آدھے تیتر آدھے بٹیر، مجھے یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے لیکن اس اسلامی ریاست میں اکثر مسلمانوں کی حالت دیکھ کر میرے منہ سے یہی جملہ نکلتا ہے نہ صرف دوسرے بلکہ میں اپنی ذات کو بھی اس میں شامل کروں گی۔ کچھ خواتین سخت صوم الصلوٰۃ کی پابند نظر آتیں ہیں حج کی سعادت بھی حاصل کر چکی ہوتیں ہیں لیکن جھوٹ و غیبت سے پرہیز نہیں کرتی۔کچھ وعظ و نصیحت کرتی نظر آتیں ہیں لیکن پردے کا اہتمام نہیں کرتی، کچھ مرد داڑھی کے ساتھ صوم والصلوٰۃ کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے کاروبار وغیرہ میں بے ایمانی اور خیانت کرتے نظر آتے ہیں… یہی حال ہماری تمام سرکاری محکموں کا ہے۔ الحمدللہ اس ریاست اسلامی کی تشیر آبادی مسلمان ہے لیکن معذرت کے ساتھ اس ریاست اسلامی میں ہم مسلمان مکمل طور پر مسلمان نہیں ہیں کچھ احکامات پر عمل پیرا ہیں کچھ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جبکہ مسلمان کو حکم ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہو جائو… ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم اللہ کے کچھ احکامات پر تو عمل کررہے ہیں اور کچھ پر نہیں۔ ایک خاتون نے اپنی ساس کے لیے بتایا بہت نیک اور پرہیز گار خاتون ہیں لیکن اس کا اپنی نندوں کے ساتھ رویہ صحیح نہیں کبھی انہیں اپنے گھر آنے کے لیے بھی نہیں کہتی عید وغیرہ پر بھی نہیں بلاتی حالانکہ وہ ان کی اکلوتی بھابھی ہیں ایک آدھ بار میں نے اس طرف دھیان دلایا تو الٹا مجھ پر ناراض ہو گئی مزکورہ بالا کردار ہمیں اپنے معاشرے میں چاروں طرف نظر آتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اللہ رب العزت کو راضی کرنے کے لیے اس کے تمام احکامات کی پیروی کریں تاکہ آخرت کے درد ناک عذاب سے بچا جا سکے۔

حصہ