تعارف… ڈاکٹر محمد فاروق
ڈاکٹر انجینئر محمد فاروق کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور سے بی ای کی سند حاصل کی اور پھر KRL سے منسلک ہوگئے۔ وہ نہ صرف فن تقریر میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور اردو ادب کی تحریر میں بے مثال ہیں ۔ وہ امریکہ کی LOWAیونیورسٹی کے پی ایچ ڈی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ KRLسے ہی اپنے فنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا آغاز کیا اور 2009 میں تقریباً 35 سال کی سروس کے بعد ڈائریکڑجنرل کے عہد ے سے ریٹائر ہوئے۔ زمانہ کی سختیوں اور ارباب اقتدار کے حواریوں کے مظالم کے باوجود حوصلہ بلند رکھا۔ یہ درخت نہ ہی جھکا نہ ہی ٹوٹا۔ ڈاکٹر محمد فاروق میرے نہایت قریب تر ین رفیق تھے۔ پاکستان کو ایٹمی اور میزائل قوت بنانے میں ڈاکٹر محمد فاروق اور ان کے ساتھیوں کا کلیدی کرداررہا ہے۔ ڈاکٹر محمد فاروق اور ان کے رفقائے کارہیرو ںمیں تولنے کے قابل ہیں۔ڈاکٹر محمد فاروق نے ملک کی سلامتی میں جو قابل فخر کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ وہ نہایت ہی قابل تحسین ہے۔ ان کی اعلیٰ کوششوں کےصلہ میں صدر مملکت نے ستارہ امتیاز (1997) اور ہلال امتیاز (2000)کے اعلیٰ اعزازت سے نوازا ہے۔
کتنے پتھر ہی مجھ پہ برسے ہیں۔ پھر بھی اچھالگتا ہےشجر ہونا
اللہ تعالیٰ ہم سب کا نگہبان ہو۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان (نشان امتیاز)
سابق چیئرمین ۔(KRL)
12مارچ2019
جناب جلیس سلاسل صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ ہوتے تو پاکستان کبھی بھی نیو کلیئر اور میزائل پاور نہ بنتا۔ گویا وطن عزیز کو دفاعی اعتبار سے مضبوط کرنے کا سہرا ڈاکڑ عبد القدیر خان ؒ اور ان کے رفقا کے سر ہے۔ اس وقت میرے ہاتھ میں تین ایک جیسی کتب ہیں۔
-1نشان امتیاز (پاکستان کا آخری بڑا آدمی) جبار مرزا (اسلام آباد)
-2ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ اور کہوٹہ جلیس سلاسل (کراچی)
-3محسن ملت۔ ڈاکڑ عبدالقدیر خانؒ فضل حسین اعوان (لاہور)
اگر میں ان تینوں کتابوں کے ٹاٹئل کا موازنہ کروں تو جبار مراز صاحب اور فضل حسین صاحب ناراض ہوجائیں گے۔ لیکن میں کسی کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتا۔ تینوں کتابیں بہت عمدہ ہیں اور تینوں کامواد سچائی پر مبنی ہے۔ اب مجھے یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ کون سی کتاب کا مواد قابل تعریف ہے۔ ڈاکڑ عبدالقدیر خانؒ کے بارے میں تینوں کتابیں بہت عمدہ ہیں اور مصنف کی تعریف میں قصیدہ کہنا مجھے زیب نہیں دیتا کیونکہ میں نے تو ابھی تک ادنیٰ سا قاعدہ تک نہیں لکھا۔ میں صرف پڑھنا جانتا ہوں۔ لکھنا بے حد مشکل لگتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر کتاب چھوٹی ہو تو پڑھی جاتی ہے اور موٹی کتاب اکثر پڑی رہتی ہے۔ ان تینوں کتابوں کا حجم یکساں ہے۔ اس لیے تینوں پڑھی جاچکی ہیں۔ لیکن اب ایک نئی مشکل میں پھنس چکا ہوں اور اس کا اظہار ضروری نہیں سمجھتا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ 10اکتوبر 2021 کو رحلت فرما چکے ہیں۔ ان کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ دعاؤں میں بھی یاد رکھتا ہوں۔ میں نے ان کے ہوتے ہوئے کسی بھی عالم دین سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں پوچھا۔ ڈاکڑ خان صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور میں پورا پورا استفادہ کرتا رہا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ صاحب کو اسلام آباد کےH.8 قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی روائے مغفرت میں شاداں و فرحاں رکھے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ ڈاکٹر خان صاحب کے قبر کے قریب ہی ان کی اپنی بنائی ہوئی جنازہ گاہ بھی ہے۔ جس دن ڈاکٹر محبوب الحق نے وفات پائی اس دن دھوپ بہت تیز تھی میں اپنے ساتھ دو چھتریاں لے گیا تھا ایک ڈاکٹر صاحب کو دی اور دوسری اپنے پاس رکھ لی۔ لیکن جلد ہی ہم دو دو ہوگئے۔ اس دن کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی عمدہ شیلٹر بنایا جو آج بھی قائم دائم ہے۔ ڈاکٹر خان صاحب بہت دور اندیش تھے۔ وطن عزیز میں دو دن کی چھٹی بھی ڈاکڑ عبدالقدیر خانؒ کے اعلان سے مطابقت ہے جو 1978سے شروع کی گئی ہے۔ دنیا میں بڑا نام اور مقام نیک افعال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اسد اللہ خان غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:
وہی زمانے کی گردش پہ آتا ہے غالب
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ کی وفات سے ہم یتیم ہوگئے ہیں اور حوصلوں کو دیمک لگ گئی ہے۔
تیرے ہوتے ہوئے بھر پور تھی زندگی میری
اب ہوں محروم و رسوائے جہاں، تیرے بعد
تیری صفتیں تھیں خدا جیسی، خدا جانتا ہے
کوئی دیکھا نہیں ۔ یکتائے زماں ، تیرے بعد
زندگی میں تھیں بہاریں تیری شفقت کے طفیل
اب بہار آئے تو لگتی ہے خزاں تیرے بعد
تیرا اخلاص دمکتا تھا، ستاروں کی طرح
اب ستاروں میں بھی وہ نور کہاں تیرے بعد
تیری برکت سے ہمیشہ ہی خوشی پائی ہے
اب خوشی بھی ہے طبیعت پہ گراں تیرے بعد
یو ں تو ہمدرد بھی مشفق بھی ہیں ہمارے
تجھ سا کوئی بھی نہ پایا اے قدیر تیرے بعد
جلیس سلاسل صاحب کی کتاب میں جلیل القدر شخصیات کے تاثرات کے علاوہ شہریوں اور اشخاص کی دلی توقعات کو منفرد انداز میں پرو کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ شخصیت کو مجتہدالعصر بنا دیا گیا ہے جو کہ نہایت خوش آئندہ ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ کاش آپ میرے قریب ہوتے تو تہلکہ خیز انکشافات سے روشناس کراتا اور آپ اپنی تحریروں میں خوب صورتی سے قلم بند کرتے تو مزا آجاتا۔ میں ڈاکٹر خان صاحب کی دور اندیشی اور ویژن سے بہت متاثر ہوتا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس مشین کی پیکنگ سنبھال کر رکھ لینا۔ میں نے حکم کی بجا آوری مکمل انداز سے کی۔ تقریباً اس کے کچھ دن بعد فارن کمپنی کا نمائندہ اچانک پہنچ گیا۔ میں نے ان کی ہدایات کے مطابق پیکنگ میں کچرا ڈال کر وزن برابر کر دیا اور متعلقہ مقام پر پہچا دیا۔ میں نے پوری احتیاط سے کام کیا اور وہ نمائندہ تفصیلاً دیکھ کر واپس چلا گیا کہ مشین ابھی تک استعمال میں نہیں لائی گئی۔ اسی طرح ہم نے خود 800 کلو گرام مٹیریل باہر کے کسٹم افراد سے پکڑوا دیا اور 100 ٹن مٹیریل کراچی کے بندرگاہ پر اتار لیا اور راولپنڈی ٹرین سے لے آئے۔ اس لیے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ کی ویژن کی داد دیتا ہوں۔
ایسے بے شمار واقعات ہیں جو قابل توجہ تو ضرور ہیں لیکن قابل بیاں نہیں بس اتنا کہتا ہوں کہ وہ ایک طلسماتی شخصیت تھے۔ میرے نزدیک پوری دنیا کے ایٹمی سائنس دانوں کی غیر فطری اموات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ ڈاکٹر خان صاحب بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں ۔ وہ میرے نہیں بلکہ مارے گئے ہیں۔
کہنےکو ایک شخص کے مرنے کی بات تھی
دیکھا تو اس کے ساتھ ہی ایک دور مر گیا
ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد دھماکے کرنے کے لیے بھی ڈاکٹر عبد القدیر خان ؒ کی کوششیں لاجواب رہی ہیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف ایٹمی دھماکہ کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ ڈاکڑ عبدالقدیر خانؒ بھارت کے ایٹمی دھماکہ کا جواب ہر صورت دینا چاہتے تھے۔ ایک جرمن کلاس فیلو نے ڈاکٹر خان کو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور بتایا کہ محمد نواز شریف صاحب اس وقت تک دھماکے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جب تک کوئی سپر پاور ان کا ساتھ نہ دے بلکہ مکمل حمایت کرے۔ اس کا بندوبست بھی ہو گیا تو محمد نواز شریف نے ثمر مبارک مند کو سامنے لے آئے کیوں کہ وہ نہ صرف گورنمنٹ کالج لاہور کا پڑھا ہوا تھا بلکہ ماڈل ٹاؤن لاہور کا رہائشی بھی تھا۔ اس طرح نواز شریف صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کو پس پشت ڈالنے کی بھرپور کوشش کی اور کئی عملی اقدامات بھی کیے لیکن وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کے نام کو نہ مٹاسکے۔ ڈاکٹر خان عوام میں بے حد مقبول تھے اور ایٹم بم کی تیاری میں اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا رہے تھے۔ اس لیے وطن عزیز کے عوام کے منہ سے یہ نوالہ چھینا محمد نواز شریف کے بس میں نہ تھا اور آج الحمدللہ بچے بچے کی زبان پر ایٹم بم کے خالق ڈاکڑ عبدالقدیر خانؒ کا نام ہے۔ گو کہ وہ 10 اکتوبر 2021 داغ مفارقت دے گئے ہیں اور اسلام آباد میں آسودئہ خاک ہیں انہوں نےتاریخ میں اپنا نام رقم کروا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے نام کو ہمیشہ روشن رکھے۔ آمین۔
ارباب اقتدار اور مجتہدالعصر اشخاص نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ کی کوششوں کو دل و جان سے سراہا اورمبارک باد پیش کی اگر ڈاکٹر خان صاحب ایٹمی دھماکوں کے لیے کوشاں نہ ہوتے تو عوام ہم سب کو اپنی اپنی بساط کے مطابق گالم گلوچ کر کے بدنام کردیتے۔ محکمہ بھی بدنام ہوتا ڈاکٹر خان صاحب کے ساتھ ساتھ عملہ بھی بدنام ہوتا۔ دن رات کی کاوشیں رائیگاں جاتیں۔ اور ہماری محنت کا صلہ منفی اثرات سے ملتا۔ اس لیے کامیاب دھماکے کرنا بہت ہی ضروری تھا۔ الحمدللہ سارے کام نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام پائے اور ہم پوری دنیا میں سرخ رو ہوئے۔ یہ سب اللہ کا کرم تھا کراچی میں ڈاکٹرعبدالقدیرخان ؒ کی تشہیر کا ذریعہ ابتدا سے ہی جلیس سلاسل صاحب کی شخصیت ہمیشہ سے معتبر رہی ہے اور ڈاکٹر صاحب ہر محفل میں ان کا ذکر خیر کرتے رہے ہیں اور جب کوئی دوسرے جلیس سلاسل کے بارے میں کچھ کلمہ خیر کہتے تو وہ خود بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے لیکن جلیس سلاسل صاحب کی شخصیت ان کی پہچان کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں حنیف خالد صاحب کو قرآنی آیات کے ذریعہ جس طرح چپ لگانے کی کوشش کی ہے وہ ان کا بہترین کارنامہ ہے۔ حنیف خالد صاحب ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو جھوٹے پروپیگنڈ کے ذریعے ان کے اوصاف اور اسلاف کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس کو معتبر کرنا چاہے اسے کون روک سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جتنی کاوش ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ نے کراچی یونیورسٹی اور ملحقہ تعلیمی اداروں کو چمک دار بنانے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے خاص کر مدینہ الحکمت میں حکیم محمد سعید صاحب کی گراں قدر کوششوں کو سراہا ہے وہ نہایت ہی قابل تعریف ہیں۔ حکیم محمد سعید صاحب اور ان کی بیٹی سعدیہ راشدہ صاحبہ کو یونیورسٹی کی سطح پر ادارے کی افادیت کو پوری دنیا میں روشناس کرایا اور اسے اخلاقیات سے درس دے کر ترقی یافتہ ادارہ بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجھے یہ خوشی ہے کہ محترم جلیس سلاسل صاحب ہر موقع نہ صرف موجود رہے ہیں بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ؒ کے قول و فعل کو منافقانہ اشخاص و اداروں سے ہر لمحہ بچانے کی سعی دل جان سے کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتب کو بہترین ترتیب دے کر بہت عمدہ نام کمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم سے نوازے۔
آپ کا خیراندیش
ڈاکٹر انجینئر محمد فاروق
سابق ڈائریکٹر جزل (KRL)
ڈاکٹر محمد فاروق صاحب کو حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز (2000)
ستارہ امتیاز (1997)اور جو ہر تمغہ بقااور سنچری گولڈ میڈل سے نواز جاچکاہے۔