متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم بہن بھائیوں میں کبھی کسی بھی طرح کا احساسِ کمتری پیدا نہیں ہوا، اس کی وجہ والدین کی وہ تربیت ہے جو انہوں نے شکر گزاری اور رحم دلی کے بھرپور جذبات کے ساتھ ہم سب بہن بھائیوں کی، کی۔
بچپن میں ہم سب خود کوایک خوش حال ریاست کی رعایا سمجھتے تھے جو امن اور تحفظ کے احساس کے ساتھ بے فکری سے اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔ ہمارے ماں باپ کے پاس روپے پیسے کی کثرت تو نہیں تھی مگر ان کے پاس رشتے ناتے اور تعلق داریاں نبھانے کا ہنر بہت کمال کا تھا۔ ان کی اس ہنرمندی سے ہم ہمیشہ فیض یاب ہی ہوتے رہے۔ رشتے ناتوں کی دولت سے ہم ہمیشہ غنی رہے، بے لوث محلے داری اور ایثار و قربانی میں جکڑی ہمسائیگی ہمیں وراثت میں ایسے ملی کہ ہمارے اندر کبھی کم مائیگی کا احساس پیدا ہونے ہی نہیں پایا۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ جو لوگ رشتے داریوں سے مالامال اور تعلق داریوں میں جڑے ہوتے ہیں اصل میں دولت مند لوگ تو وہی ہیں۔
ہمارے دائیں ہاتھ پڑوس میں کوثر خالہ اور ان کے شوہر چچا افضل، پھر سلطانہ باجی اور ان کے میاں بھائی کریم، دو گھر چھوڑ کر بی بی جی کا گھر‘ جہاں گلی کے سب بچے سپارہ پڑھنے جاتے تھے۔ سپارہ بھی پڑھتے تھے اور گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا بھی سیکھتے تھے۔ ہمیں آٹا گوندھنا بی بی جی نے سکھایا۔ والدہ اس کے لیے ہمیشہ اُن کی مشکور رہیں۔ گھر میں جب اچھی چیز بنتی تھی اُن کو لازمی بھیجی جاتی تھی۔ سامنے والی خالہ ریحانہ اور چچا آفتاب، کونے والی زنیرہ کی امی (ان کا نام نہ جانے کیا تھا)، چوں کہ ان کا گلی والوں سے ملنا جلنا ذرا کم تھا تو وہ کسی کی خالہ نہ بن سکیں نہ کہلا سکیں، اور ہم انہیں ’’زنیرہ کی امی‘‘ کے نام سے ہی یاد رکھتے تھے۔
یہ ساری منہ بولی خالائیں اور چچا ہمیں اپنے خونیں رشتوں جیسے عزیز تھے، ہم سب پڑوسیوں کی خوشیاں اور غم سانجھے تھے‘ ایک دوسرے کے حالات کسی سے چھپے ہوئے نہ تھے۔ رواداری اور خلوص کا یہ عالم تھا کہ اپنے بچوں کے رشتوں اور شادی بیاہ کے معاملات میں اڑوس پڑوس سے بھی مشورے لیے جاتے تھے۔
ساتھ والی کوثر خالہ کی بیٹی روبینہ کا رشتہ ہمارے ہی گھر بیٹھ کر طے ہوا۔ کوثر خالہ کی نند اپنے بیٹے کا رشتہ روبینہ سے کرنا چاہتی تھیں مگر کوثر خالہ کچھ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھیں۔ ایک دن ان کی نند جو دوسرے شہر میں رہتی تھیں‘ اچانک اپنے شوہر کے ساتھ آگئیں۔ اُس وقت باقاعدہ اطلاع دے کر آنے کا رواج نہیں تھا، کسی بھی دن کسی بھی وقت مہمان آجاتے تھے۔ اُس دن اتفاق سے کوثر خالہ گھر پر نہ تھیں، ان کی نند ہمارے ہاں آگئیں، والدہ سے اس رشتے کے لیے مدد مانگی۔ جیسے ہی کوثر خالہ آئیں، والدہ نے انہیں اپنے گھر بلا لیا، کچھ اونچ نیچ سمجھائی اور اس رشتے پر راضی کرلیا۔ گرمیوں کے دن تھے، دوپہر کے کھانے میں خربوزہ تھا، اسی کو کاٹا اور سب کا منہ میٹھا کروایا گیا۔ آج روبینہ چار بچوں کی ماں اور ہنستے بستے گھر کی مالکن ہے۔
ہمارے بڑے بھائی عظیم جب پہلی دفعہ سعودیہ سے واپس آئے تو سارے گلی والوں کے لیے تحفے لائے۔ والدہ ہاتھ میں گلابی جاپانی سوٹ لیے سامنے والی خالہ ریحانہ کے گھر گئیں، کہا کہ ’’عظیم تم لوگوں کے لیے لایا ہے‘‘۔ خالہ ریحانہ خوش ہو کر بولیں ’’آپا سوٹ تو بہت پیارا ہے مگر رنگ شوخ ہے، میرے والا نہیں ہے۔‘‘ والدہ ہنس کر کہنے لگیں ’’تمہیں تھوڑی دیا ہے، تمہاری چھوٹی مانو کو دیا ہے‘ اس کے جہیز میں کام آئے گا۔‘‘
خالہ ریحانہ کی مانو اُس وقت پانچویں میں پڑھتی تھی، خالہ ریحانہ اب بھی ملتی ہیں تو ہنستی ہیں کہ مانو کے جہیز کی ابتدا تمہاری ماں کے دیے گلابی جاپانی جوڑے سے ہوئی۔
ایسی کتنی ہی عیدیں‘ شب براتیں اور رمضان دلوں پر نقش ہیں جو بہت بھرپور گزرے۔ اُس وقت جوڑے شاذ و نادر سلتے تھے، کھانے میں سبزی روٹی ہوتی تھی مگر میل جول ایسے تھے گویا شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہوں۔ ضرورت پڑنے پر برتن، بستر لینا کوئی معیوب بات نہیں تھی، شادی بیاہ کے موقعوں پر مہمان ایک دوسرے کے گھروں میں ٹھیرائے جاتے تھے، یہ بڑی عزت اور نیک نامی کی بات سمجھی جاتی تھی کہ فلاں شخص حقِ ہمسائیگی جانتا ہے۔
اتنی مخلص اور پیاری محلے داریاں اب خواب ہوگئی ہیں، صرف خونیں رشتوں میں ہی فاصلے نہیں آئے ہیں بلکہ ہمسائیگی میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ ’’پرائیویسی‘‘ کے نام پر اجنبیت اور بے گانہ پن آگیا ہے۔ ہر کوئی خود میں سمٹ گیا ہے، اپنی اپنی الگ دنیا آباد ہوگئی ہے۔ لیکن بے فکری سے اپنا وقت دوسروں کو دینے والا اب خال خال ہی کوئی بچا ہے جو غمی خوشی میں سانجھے داری کرے اور جسے ماں جایا کہا جا سکے۔