سین نے سراپا التجا بن کر کہا۔ ’’عالیجاہ! میں غدار نہیں ہوں۔ میرے بال آپ کی خدمت میں سفید ہوئے ہیں۔ میں نے دشمن کے کئی شہروں اور کئی قلعوں پر آپ کی فتوحات کے پرچم نصب کیے ہیں‘‘۔
’’خاموش!‘‘ پرویز بلند آواز میں چلایا۔ ’’اس غدار کو یہاں سے لے جائو۔ اس کی کھال اُتاردو اور لاش مغربی دروازے سے باہر لٹکادو اور دشمن کے جو جاسوس اس کے ساتھ آئے ہیں انہیں حراست میں لے لو‘‘۔
سین سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ کسریٰ کے سامنے پیش ہوتے وقت اسے یہ خدشہ ضرور تھا کہ وہ ٹھنڈے دل سے صلح اور امن کی باتیں نہیں سنے گا اپنی مہم کی ناکامی کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے معزول ہونے کے بعد قید یا نظر بند ہونے کے لیے بھی تیار ہو کر آیا تھا۔ تاہم یہ اُمید اُس کا آخری سہارا تھی کہ پرویز کا غصہ عارضی ثابت ہوگا اور جب جنگ کی طوالت سے اُکتائے ہوئے فوجی مشیر اور مصاحب اس کی تائید میں آواز بلند کریں گے تو وہ اس کی بیڑیاں اُتارنے پر مجبور ہوجائے گا۔ بدترین حالات میں بھی ایک وحشیانہ موت کی سزا اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ وہ پرویز کی طرف اس بچے کی طرح دیکھ رہا تھا جسے طمانچہ کھانے کے بعد پیار کی توقع ہو۔ سپاہی، داروغہ اور دوسرے افسر جو وہاں موجود تھے دم بخود ہو کر کبھی سین اور کبھی پرویز کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اگر کسی اور کا معاملہ ہوتا تو وہ اس پر بھوکے درندوں کی طرح جھپٹ پڑتے لیکن ایرانی لشکر کا ایک بہادر جرنیل اور پرویز کے بچپن کا دوست اس بے بسی کی حالت میں بھی عام انسانوں سے مختلف دکھائی دیتا تھا۔
پرویز کے لیے یہ صورتِ حال غیر متوقع تھی۔ وہ چلایا۔ ’’دیکھتے کیا ہو، اسے لے جائو‘‘۔
وہ آگے بڑھے۔ داروغہ نے سین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دبی زبان میں کہا۔ ’’چلیے!‘‘
اور سین نے اچانک ایسا محسوس کیا کہ اس پر چاروں اطراف سے آگے کے دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہورہی ہے۔ اس نے داروغہ کا ہاتھ جھٹک دیا اور بلند آواز میں چلایا۔ ’’ہرمز کے بیٹے! میں تمہارا اس وقت کا ساتھی ہوں جب اس دنیا میں تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ تم میری کھال اُتروا سکتے ہو۔ میری بوٹیاں نوچ سکتے ہو لیکن مجھے یہ کہنے سے نہیں روک سکتے کہ تم ظالم ہو اور تمہارا انجام اپنے باپ سے مختلف نہیں ہوگا۔ تم امن کے دشمن اور انسانیت کے قاتل ہو اور مجھے مرتے وقت اس بات کا افسوس ہوگا کہ میں تمہارے مظالم میں شریک تھا۔ میں اس یقین کے ساتھ مروں گا کہ میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرچکا ہوں اور تم اس خوف اور اضطراب کے ساتھ زندہ رہو گے کہ زندگی کا ہر سانس تمہیں ایک عبرتناک تباہی کی طرف لے جارہا ہے اور مرتے وقت تمہاری چیخیں میری سسکیوں سے زیادہ دردناک ہوں گی۔ میں مستقبل کے اُفق پر ان آندھیوں کے آثار دیکھ رہا ہوں جو تمہاری سلطنت کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا لے جائیں گی۔ قانونِ قدرت میں ہر ظلم کی سزا کا دن معین ہے اور تمہاری سزا کا دن دور نہیں‘‘۔
جس طرح سین کے لیے ایک وحشیانہ سزا کا حکم غیر متوقع تھا اسی طرح سین کی یہ تقریر پرویز کے لیے غیر متوقع تھی۔ اس کا غصہ، اضطراب اور اضطراب خوف میں تبدیل ہورہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن چکے تھے اور وہ جو اسے گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے تھے تذبذب کی حالت میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پرویز جس کی قوت گویائی تھوڑی دیر کے لیے سلب ہو کر رہ گئی تھی ایک کپکپی لینے کے بعد چلایا۔ ’’اسے لے جائو… اسے لے جائو اور ہمیں کسی تاخیر کے بغیر اطلاع دی جائے کہ ہمارے حکم کی تعمیل ہوچکی ہے۔
آن کی آن میں سپاہیوں کی ننگی تلواریں سین کے بدن کو چھو رہی تھی لیکن وہ اپنے گردو پیش سے بے پروا ہو کر پرویز کی طرف دیکھ رہا تھا اور مغرور بادشاہ کو اس کی نگاہیں اس کے الفاظ سے زیادہ خوفناک محسوس ہوتی تھیں۔ داروغہ نے سین کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا لیکن اس مرتبہ اس نے مزاحمت کی ضرورت محسوس نہ کی وہ مڑا اور ننگی تلواروں کے پہرے میں لمبے لمبے قدم اُٹھاتا ہوا باہر نکل گیا۔
پرویز کے دماغ میں ابھی تک سین کے الفاظ گونج رہے تھے اس نے اپنا بھاری تاج اُتار کر ایک لونڈی کے حوالے کیا اور کچھ دیر سر پکڑ کر بیٹھا رہا۔ پھر اچانک چلانے لگا۔ ہمیں شراب دو۔ ہمیں اتنی شراب دو کہ ہم زندگی کے سارے غم بھول جائیں۔ ہمیں یہ خاموشی پسند نہیں۔ یہاں رقص و سرور کی محفل آراستہ کرو۔ اور شراب کے دریا بہادو‘‘
اور قریباً ایک ساعت بعد جب رقص و سرور کی یہ محفل اپنے شباب پر تھی، تورج بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ رقصائوں کے جھرمٹ سے گزر کر مسند کے قریب پہنچتے ہوئے بولا۔ ’’عالیجاہ! میں اس گستاخی کے لیے معذرت چاہتا ہوں لیکن شہر میں کہرام مچا ہوا ہے اور میرے لیے یہ بات ناقابل یقین ہے کہ آپ سین کی موت کا حکم دے چکے ہیں‘‘۔
پرویز نے مدہوشی کے عالم میں اس کی طرف دیکھا اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنا جام اس کی طرف بڑھاے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو!‘‘
تورج نے شراب کا جام اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔ ’’عالیجاہ! میں سین کے لیے رحم کی التجا لے کر آیا ہوں‘‘۔
’’وہ غدار ابھی تک زندہ ہے؟‘‘
’’عالیجاہ آپ اس کی جان بچا سکتے ہیں‘‘۔
’’اس کی جان اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ تم یہاں بیٹھ جائو!‘‘
’’عالیجاہ!‘‘
’’بیٹھ جائو! یہ ہمارا حکم ہے اور تم جانتے ہو کہ ہماری حکم عدولی کی سزا کیا ہوسکتی ہے‘‘۔
تورج انتہائی اضطراب کی حالت میں مسند سے کچھ دور بائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور پرویز نے کچھ دیر خاموشی سے اس کی طرف گھور گھور کر دیکھنے کے بعد کہا۔ ’’تمہیں ہماری شراب پسند نہیں‘‘۔
تورج نے جلدی سے شراب کا جام خالی کرنے کے بعد کہا۔ ’’عالیجاہ! سین آپ کا جاں نثار ہے‘‘۔
پرویز نے جھلا کر کہا۔ ’’یہ ابھی تک سین کا ذکر کررہا ہے اسے اور شراب دو‘‘۔
ایک لونڈی نے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنی صراحی سے تورج کا خالی جام بھر دیا اور اس نے بادلِ ناخواستہ چند اور گھونٹ پی لیے۔
پرویز نے کہا۔ ’’ہم تمہیں سین کی جگہ قسطنطنیہ کی مہم پر بھیج رہے ہیں لیکن یہ ایسی باتوں کا وقت نہیں، تم جی بھر کر شراب پیو۔ پھر تمہیں سین کا خیال نہیں ستائے گا۔ تمہیں یہ رقص پسند نہیں آیا‘‘۔
’’مجھے یہ رقص بے حد پسند ہے عالیجاہ! تورج نے یہ کہہ کر شراب کا جام دوبارہ منہ کو لگالیا اور اسے خالی کرنے کے بعد ساقی کی طرف بڑھادیا۔
تیسرا جام حلق سے اُتارنے کے بعد تورج کا رنج و اضطراب دور ہوچکا تھا۔ لونڈی چوتھی مرتبہ اس کا جام بھرنے کے لیے آگے بڑھی تو تورج نے اس کے ہاتھ سے صراحی چھین لی اور یکے بعد دیگرے دو اور جام بھر کر خالی کردیئے۔ اس عرصہ میں ایک اور لونڈی پرویز کو ایک نیا جام پیش کرچکی تھی۔ پرویز نے چند گھونٹ پینے کے بعد خمار آلود نگاہوں سے تورج کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’تم ہمارے پاس ایک غدار کے لیے رحم کی درخواست لے کر آئے تھے؟۔
’’نہیں عالیجاہ!‘‘ اس نے شکست خوردہ لہجے میں جواب دیا۔
’’لیکن تم یہ کہتے تھے کہ شہر میں کہرام مچا ہوا تھا‘‘۔
ایک ثانیہ کے لیے تورج کے دماغ سے شراب کا نشہ اُتر گیا اور اس نے خوفزدہ ہو کر کہا۔
نہیں عالیجاہ! آپ کی رعایا کسی غدار کے حق میں آواز بلند کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی‘‘۔
’’ہمیں صرف اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے کانوں تک اس غدار کی چیخیں نہیں پہنچ سکتیں لیکن معلوم ہے کہ اس نے ہمیں دھمکیاں دی ہیں؟‘‘
’’نہیں علیجاہ! اگر میں یہاں موجود ہوتا تو اسے زبان کھولنے کا موقع نہ دیتا‘‘۔
’’تمہیں ایسے موقعوں پر غیر حاضر نہیں رہنا چاہیے۔ تم کہاں تھے؟‘‘
’’عالیجاہ! اگر مجھے یہ علم نہ ہوتا کہ اس کے ساتھ آپ کی ملاقات تخلیہ میں ہوگی تو میں یقینا یہاں موجود ہوتا‘‘۔
’’اب تمہیں ہمارا یہ حکم ہے کہ اگر دست گرد میں اس کا کوئی حامی نظر آئے تو اسے کسی تاخیر کے بغیر تختیہ دار پر لٹکادو‘‘۔
’’عالیجاہ! میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ دست گرد میں کوئی انسان آپ کے غدار کا حامی نہیں ہوسکتا‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ دست گردمدائن سے دور ہے اور وہاں سے ہمارے دشمن اس طرف کا رُخ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اس طرف اگر مدائن کی ساری آبادی اُمڈ آئے تو صرف ہمارے ہاتھی انہیں کچل دینے کے لیے کافی ہوں گے‘‘۔
’’عالیجاہ! آپ کے نام کی ہیبت مسلح افواج اور ہاتھیوں سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔
کسریٰ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’کسی زمانے میں تم گایا کرتے تھے اور ہمیں تمہارا ایک گیت بہت پسند تھا‘‘۔
ہاں عالیجاہ! جب ہم نے رومیوں کے ایک سرحدی قلعے میں پناہ لی تھی تو آپ مجھ سے اکثر وہ گیت سنا کرتے تھے‘‘۔
’’ہم آج پھر وہ گیت سننا چاہتے ہیں‘‘۔
’’لیکن عالیجاہ! اب مجھے گانا نہیں آتا‘‘۔
’’ہم تمہیں حکم دیتے ہیں‘‘۔
’’عالیجاہ! میں آپ کے حکم کی تعمیل سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ گیت سین نے لکھا تھا‘‘۔
’’پرویز نے تلملا کر کہا۔ ’’ہمارے سامنے اس کا نام نہ لو۔ وہ جس نے یہ گیت لکھا تھا ہمارا بچپن کا ساتھی تھا اور وہ جسے ہم نے آج موت کی سزا دی ہے ایک غدار ہے… تم گائو… رقص بند کردو‘‘۔
(جاری ہے)