اقبال کا تصور شاہین

9429

اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

کیا میں نے اس خاخ داں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ

اقبالؒ نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لیے بلبل اور شیلے کے لیے اسکائی لارک کی تھی‘ بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیوں کہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہو گئی ہیں جو ’’اقبال کی بنیادی تعلیمات‘‘ سے ہم آہنگ ہیں۔ یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو‘ پروانہ‘ طائوس‘ بلبل‘ کبوتر‘ ہرن وغیرہ کا ذکر آیا ہے لیکن ان سب پر شاہین کو ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال کے وجدان اور جذبات شاعری کو جو چیز سب سے زیادہ متحرک کرتی ہے۔ وہ مظہر ’’قوت‘‘ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بلبل اور قمری کی تشبیہوں کی بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دیتا ہے۔اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوانوںکی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے۔ اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دل چسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکوت کے پیامبر ہیں۔

کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے‘ طائوس فقط رنگ

شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے‘ اس جانور میںاسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیر مند ہے کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا‘ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا‘ بلند پرواز ہے‘ خلوت نشین ہے‘ تیز نگاہ ہے۔ اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں۔ ’’بال جبریل‘‘ کی نظم ’’شاہین‘‘ میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے:

خیابانوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا‘ پلٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب‘ یہ پچھم‘ چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں سے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

اقبال نے شاہین کی جن خوبیوں کا تذکرہ کیا جن کے باعث وہ ان کا پسندیدہ جانور بنا ہے‘ ان کی نظر میں شاہین کی چند صفات پر روشنی ڈالتے ہیں:

غیرت و خودداری: غیرت و خودداری درویش کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہی حال شاہین کا بھی ہے۔ اس لیے وہ مرغ سرا ہے ساتھ دانہ چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے اور نہ گرگس کی طرح مردہ شکار کھاتا ہے۔ درویش اور فلسفی میں یہی فرق ہے کہ گدھ اونچا تو اُڑ سکتا ہے لیکن شکار زندہ یعنی حقیقت اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔

پھرا وہ فضائوں میں گرگس اگرچہ شاہیں دوار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

فقر اور استغنا: فقر بھی اقبال کے نزدیک مردِ درویش کی بڑی خصوصیت ہے جس طرح شاہین چکور کی غلامی نہیں کرسکتا اسی طرح درویش شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس طرح شاہین کی صفات پیدا کرکے فقیر بھی کسی چڑیا‘ کبوتر یا فاختہ کا شکار نہیں کھیلے گا بلکہ وہ فطرت و کائنات کی تسخیر کرے گا یا باطل کی قوتوں کا مقابلہ کرے گا۔

اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان بے نیازی
کنِجشک و حمام کے لیے موت
ہے اس کا مقام شاہبازی

آشیانہ نہ بنانا: اقبال کو شاہین کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا‘ آشیانہ بنانا اس کے فقر کی تذلیل ہے۔

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہِ بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

شاہین کی طرح درویش بھی سرمایہ جمع کرنے کو درویشی کے خلاف سمجھا ہے۔ اقبال شاہین کو قصر سلطانی کی گنبد پر نہیں بلکہ پہاڑوں کی چٹانوں میں بسرا کرنے کے لیے کہتے ہیں‘ ان کے خیال میں جب نوجوانوںمیں عقابی روح پیدا ہوتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔

نہیں ترا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

بلند پروازی: اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لیے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے۔ اقبال شاہین کے اس وصف کو اپنے مردِ مومن میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

خلوت پسندی: اقبال کا شاہین خلوت پسند ہیٔ‘ وہ کبوتر‘ چکور یا زاغ کی محبت سے پرہیز کرتا ہے۔ اقبال کو ایسا شاہین پسند نہیں جو گرگسوں میں پلا بڑھا ہو کیوں کہ وہ رسمِ شاہبازی سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ گرس اور شاہین ایک فضا میں پرواز کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
گرس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

تیز نگاہی: اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی اور دور بینی بھی پسند ہے یہی خصوصیت ان کے خیال میں مردِ مومن کی بھی ہونی چاہیے۔ شاہین کی پرواز اس کی نگاہوں کو وسعت بخشتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ دوسرے پرندوں کو بھلا ان مقامات کا کیا پتا جو فضائے نیلگوں کے پیچ و خم میں چھپے ہوئے ہیں‘ انہیں صرف شہباز کی تیز نگاہی دیکھ سکتی ہے۔

لیکن اے شہباز یہ مرغان صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے باخبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دَمِ پرواز سرتاپا نظر

سخت کوشی: اقبال جدوجہد اور سخت کوشی کے مبلغ ہیں۔ یہ صفات بھی شاہین میں ملتی ہیں۔ اقبال مسلم نوجوانوں میں شاہین کی یہ صفات پیدا کرکے انہیں مجسمہ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سبق اقبال نے ایک بوڑھے عقاب کی زبانی اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے دیا کہ سخت کوشی اور محنت کی بدولت زندگی کو خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں

چیونٹی اور عقاب کے عنوان سے اقبال نے دوشعر لکھے ہیں ان میں چیونٹی عقاب سے پوچھتی ہے:

میں پائمال و خوار و پریشاں و درد مند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

عقاب جواب دیتا ہے:

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں!

آزادی: اقبال کو حریت اور آزادی کی قدر بہت پسند ہے یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے۔ اقبال کا شاہین میر و سلطاں کا پالا ہوا باز ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے آزادی ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ:

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو گرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی

تجسس: اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کے لیے تجسس ممکن ہے ورنہ غلامہ ذہنیت تو اس کو بزدل اور کمزر بنا دیتی ہے وہ پر تجسس نگاہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کے جگر کو‘ ان کے خیال میں یورپی علوم ہمارے لیے اتنے ضروری نہیں جتنا تجسس کا ذوق ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔

چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ

یہ تجسس حصول علم کے لیے بھی ضروری ہے اور حصول قوت کے لیے بھی۔ مرد مومن کو شاہین ی طرح دور بیں اور پُر تجسس ہونا چاہیے کہ اسی ذریعے سے حیاتِ کائنات کے اسرار تک رسائی ہوتی ہے۔ اقبال ملک کے نوجوانوں کو ’’شاہین کے بچے‘‘ قرار دیتے ہیں جو اگرچہ شاہین کی صفات رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کو مناسب تعلیم و ترتبیت نہیں دی جاتی‘ وہ اربابِ تعلیم کے خلاف خدا سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

حصہ