کھری تنقید سے معیاری ادب تخلیق پاتا ہے

551

شاعری سے معاشرے میںآداب زندگی پیدا ہوتے ہیں،نژری نظم شاعری میں مس فٹ جبکہ غزل زیادہ روشن ہے،معروف شاعر نسیم شیخ سے جسارت میگزین کی گفتگو

شاعر‘ ادیب‘ محقق اور تنقید نگار نسیم شیخ کی کتابوں میں منتشر سوچیں‘ درد بولتا ہے‘ انوار تجلی‘ گل دستہ‘ موجِ سخن‘ موجِ نسیمی اور اقراء شامل ہیں گزشتہ ہفتے راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے ان سے تفصیلی گفتگو کی جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک سادے کاغذ پر اصلاح دینا کیسا عمل ہے؟

نسیم شیخ: میرے نزدیک مشورۂ سخن بڑی اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ سلسلہ تقریباً ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ میں اصلاح کو برا نہیں سمجھتا مگر سادے کاغذ پر اصلاح کے عمل کو شاعری کی عمارت پر دیمک سمجھتا ہوں‘ میں سادے کاغذ کی اصلاح کے خلاف ہوں سادے کاغذ پر اصلاح لینے والے ’’متشاعر‘‘ چند قدم چل کر ہانپ جاتے ہیں۔

جسارت میگزین: علمِ عروض سے کیا مراد ہے‘ اس کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

نسیم شیخ: جہاں تک علمِ العروض کا تعلق ہے تو یہ ایک علم ہے اور دوسرے معنوں میں یہ ایک پیمانہ ہے جو شعر کے وزن کو ناپتا ہے اور بحر کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ شعر کس بحر میں ہے‘ یہ شعر کے اوزان بھی بتاتا ہے۔ علم العروض کا تعلق شاعری سے بالکل بھی نہیں ہے۔ شاعری ایک الگ چیز ہے اور علم العروض الگ چیز ہے جس سے آگاہی کے بغیر آپ شاعری نہیں کرسکتے‘ علم عروض کے ماہرین شعرا کے ہاں بے ساختہ پن نظر نہیں آتا۔ اس علم کا سیکھنا فائدہ مند ہے۔

جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے؟ کیا آج کے تنقید نگار اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟

نسیم شیخ: جہاں تک تنقید کا تعلق ہے تو میرے نزدیک تنقید ایک مستند مضمون ہے اس کے لیے علم کا ہونا اور دلائل کا ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے آج کل تنقید کہا ہو رہی ہے بس جان پہچان‘ اثر و رسوخ کی بنا پر مضامین آفرینی کو تنقید کا نام دے کر اچھالا جا رہا ہے میرے نزدیک تنقید وہ ہے جس میں دلائل کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح کو پہلو بھی ڈسکس ہو‘ اگر اصلاح کا پہلو ساتھ ساتھ لکھا جائے تو پھر تنقید نگار کے قد کا علم ہوتا ہے مرادی اور اصلاحی معنی میں کسی تخلیق کی اچھائی یا برائی پرکھنے کا نام تنقید ہے چنانچہ شعر و شاعری‘ مقالات و مضامین میں محاسن کے بیان اور مصائب کی نشان دہی کو ادبی تقنید کہا جاتا ہے جس طرح کسی فرد کے اعمال کا احتساب اس کے راہِ راست پر گامزن ہونے میں معاون ہوتا ہے اسی طرح تنقید ادبی کاوشوں میں اصلاح کا سبب بنتی ہے بشرط یہ کہ تنقید ہمہ جہت اور غیر جانب دار ہو۔

جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کس اہمیت کے حامل ہیں؟

نسیم شیخ: اردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا ایک اہم مقام ہے مگر یہ دونوں ادارے آج کل کمرشل ازم کے تحت کام کر رہے ہیں اردو ادب کے لیے ان کے دل میں کوئی احترام نہیں ہے۔ ٹی وی چینل اردو ادب کو وقت نہیں دے رہے اخبارات بھی اپنے صفحات پر ادبی خبریں لگانے سے ہچکچاتے ہیں ادبی تنظیمیں بھی مصلحت پسندی سے کام کر رہی ہیں۔ جینوئن قلم کاروں کی پزیرائی اور حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔ الیکٹرونک میڈیا کے بیشتر اینکرز اردو زبان کو صحیح طریقے پر ادا نہیں کرتے اردو املا کی غلطیاں کرتے ہیں جس سے ہمارے بچے غلط تلفظ سیکھ جاتے ہیں اخبارات و رسائل کو چاہیے کہ وہ اردو ادب کو سپورٹ کریں۔

جسارت میگزین: انسانی زندگی پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں نیز آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟

نسیم شیخ: یہ حقیقت ہے شاعری سے معاشرے میں آدابِ زندگی پیدا ہوتے ہیں ہر شاعر اپنے حالات و واقعات اپنی غزلوں میں بیان کرتا ہے تاہم وہ معاشرتی مسائل سے بھی نظریں نہیں چراتا وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی نظم کرتا ہے گویا شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے ادب میں نظریہ سازی کی گنجائش ہے معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں شعرائے کرام کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ شاعری تو ماضی‘ حاصل اور مستقبل کا آئینہ ہوتی ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک نثری نظم کی کیا حیثیت ہے‘ کیا اس کا کوئی رول ماڈل ہے؟

نسیم شیخ: میں نثری نظم کو شاعری نہیں مانتا‘ نظم اور نثر دونوں الگ الگ جہتیں ہیں بغیر ردیف‘ قافیے کے شاعری میں غنائیت پیدا نہیں ہوتی۔ بہت سے سہل پسند شعرا نے نثری نظمیں کہی ہیں لیکن وہ نثری نظم کے رول ماڈل نہیں بن سکے۔ میرے خیال نثری نظم نہ زندہ ہے اور نہ زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پابند شاعری ہماری فکری تربیت کا نتیجہ ہے‘ نظم معریٰ اور آزاد نظم بھی ہماری شاعری کا حصہ ہیں لیکن نثری نظم شاعری میں مس فٹ ہے۔

جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں‘ اس صنفِ سخن میں تنقید کی گنجائش نکلتی ہے؟

نسیم شیخ: نعت کے لیے الفاظ کا چنائو بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ نعت میں غلط بیانی کی گنجائش نہیں ہوتی‘ نعت کا مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہے لہٰذا نعت میں شمائل رسول اور فضائل رسول شامل ہونا ضروری ہیں تاہم اب نعت ذاتی عرض داشت میں لکھی جا رہی ہے مدینہ کی زیارت کی تمنا بھی لکھی جا رہی ہے اور تبلیغ اسلام کے مضامین نعت میں لکھے جا رہے ہیں کہ ان تمام کا مقصد یہ ہیٔ کہ اسوۂ رسولؐ کی پیروی میں ہماری نجات مضمر ہے۔ نعتیہ شاعری میں شعری حدود سے تجاوز کرنا جرم ہے زبان و بیان کی خوبیاں سچائی کے ساتھ نعت کا حصہ ہونا لازمی ہے نعت میں تنقید نگاری کی گنجائش ہے۔ ایسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں کہ جن کے بہت سے مطلب و معنی نکلتے ہوں۔ نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت جاری ہے‘ یہ سلسلہ قائم و دائم رہے گا کیوں کہ آنحضرتؐ کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

جسارت میگزین: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو ادب روبہ زوال ہے‘ اگر ایسا ہے تو اس کی وجوہات بھی بتایئے گا؟

نسیم شیخ: اردو ادب روبہ زوال نہیں ہے تاہم معیاری تخلیقات سامنے نہیں آرہی ہیں کیوں کہ تنقیدی رویے اپنے نظریے سے ہٹ گئے ہیںسچی اور کھری تنقید سے معیاری ادب پروان چڑھتا ہے۔کتب بینی کا ادارہ کمزور ہو گیا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے فوائد نے مطالعہ کا شوق کم کر دیا ہے۔ادبی گروہ بندیوں سے ادب کی ترقی متاثر ہوتی ہے لیکن گروہ بندیاں ہمارے مزاج میں شامل ہیں۔ ناقدینِ ادب مصلحت پسندی کا شکار ہیں جو کہ اردو ادب میں نقصان کا باعث ہیں کمرشل ازم نے بھی اردو زبان کی ترویج کو نقصان پہنچایا ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک مزاحمتی شاعری کی کیا اہمیت ہے؟

نسیم شیخ: مزاحمتی ادب ولی دکنی کے زمانے سے لکھا جا رہا ہے میر تقی میرؔ کے اشعار میں ایسے مضامین موجود ہیں جن میں اس وقت کے مروجہ نظامِ معاشرت اور نظام معیشت پراحتجاج کیا گیا ہے۔ غالبؔ نے بھی مزاحمت اشعار کہے ہیں‘ جوش ملیح آبادی بہت بڑے مزاحمتی شاعر تھے‘ مولانا ظفر علی خان کو بھی ہم مزاحمتی شعرا میں شامل کر سکتے ہیں۔ مزاحمتی شاعری کے دو حصے ہیں ایک ہنگامی شاعری جو کہ ایک خاص وقت کے لیے ہوتی ہے جیسا کہ قیام پاکستان کے دوران ہمارے شعرا نے ایسے اشعار کہے کہ جن سے آزادی کا جذبہ پروان چڑھا۔ مزاحمتی شاعری کا دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو ہر دور میں قابل قبول ہوتا ہے جس میں معاشرے کے ظلم و استبداد کا تذکرہ ہوتا ہے‘ شاعری ہمیشہ کے لیے زندہ رہتی ہے جیسے حبیب جالب کی شاعری ہے۔

جسارت میگزین: یہ بتایئے کہ آپ کو سب سے زیادہ کون سی صنفِ سخن پسند ہے؟

نسیم شیخ: اصنافِ سخن میں غزل مجھے بہت پسند ہے کہ اس کا ہر شعر ایک مختصر نظم ہے آپ دو مصرعوں میں بڑی سے بڑی بات کہہ سکتے ہیں جہاں تک غزل کے مضامین کا تعلق ہے تو روایت سے جڑی غزلیں ایک عرصے سے کہی جارہی ہیں اور کوئی ایسا مضمون میرے خیال میں نہیں بچا ہے۔ دنیا میں ہر چیز تخیر کا شکار ہے تو غزل بھی اپنا رنگ و اسلوب الگ انداز سے بنا رہی ہے یہ یقینا ایک اچھا عنصر ہے کیوں کہ علاقائی لہجہ اور علاقائی اسلوب بھی غزل میں رائج ہیں یہ غزل کی تازہ کاری ہے کہ یہ ہر خیال کو اپنا لیتی ہے۔ غزل شاعری کی روشن روایت ہے کہ اس میں عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے اردو نظم کی روایت بھی معتبر ہے لیکن اردو نظم کی ترقی کی رفتار سست ہے۔ غزل اپنے وجود میں ایک کائنات ہے اس میں مختلف رنگ شامل ہیں اپنی بات کہنے کے لیے یہ ایک آسان صنفِ سخن ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک اردو زبان اس وقت کن مراحل سے گزر رہی ہے؟

نسیم شیخ: اردو زبان ہماری قومی زبان ہے عدالتی احکام کے تحت اس زبان کو سرکاری دفاتر میں بھی نافذالعمل ہونا ہے لیکن اس کام میں فی الحال بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ وقت و حالات کے تناظر کے تحت اردو زبان میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں ہم اپنے مانوس الفاظ کو ترک کرتے جا رہے ہیں ان کی جگہ انگریزی الفاظ کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم اردو کو رومن انگریزی میں لکھ کر اردو کا قتل عام کر رہے ہیں اردو زبان کا اپنا رسم الخط ہے اپنا سوفٹ ویئر ہے ہم اردو کو اردو رسم الخط میں لکھیں تو بہتر ہے۔

جسارت میگزین: کراچی کے موجودہ ادبی منظر نامے کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

نسیم شیخ: کراچی منی پاکستان ہے‘ یہاں مختلف قوموں اور مسالک و مذاہب کے لوگ آباد ہیں‘ ایک ایک غریب پرور شہر ہے‘ ادبی حوالے سے کراچی کو ہم انتہائی متحرک شہر تسلیم کرتے ہیں دبستان کراچی کا اپنا مزاج ہے یہاں کی شاعری میں یہاں کا بیانیہ ہوتا ہے اس کا اپنا جداگانہ تشخص ہے‘ یہاں روزانہ ادبی محفلیں ہوتی ہیں گورنمنٹ کے قائم کردہ اداروں میں بھی ادبی پروگرام ہو رہے ہیں تاہم اپنی مدد آپ کے تحت بہت سی ادبی انجمنیں مذاکرے اور مشاعرے منعقد کر رہی ہیں اردو کے دیگر مراکز سے قلم کار یہاں آتے ہیں اور کراچی والے ان کی پزیرائی کرتے ہیں‘ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

جسارت میگزین: آپ نوجوان شعرا کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟

نسیم شیخ: میں نئے لکھنے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مطالعے پر زور دیں‘ اساتذہ کا کلام پڑھیں ہم اپنے کلاسیکی نثری اور شعری ادب سے ناتا توڑ کر کوئی اعلیٰ چیز تخلیق نہیں کرسکتے کلاسیکی ادب کو چھوڑ کر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ نوجوانوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں چاہیے کہ وہ ادبی گروہ بندیوںسے دور رہیں‘ بڑوں کی عزت کریں۔

حصہ