جدیدیت کا رقص ابلیس اور نسل نو

494

قرآن نے شیطان کو بنی آدم کا ازلی اور کھلا ہوا دشمن قرار دیا ہے۔ شیطان نے آدم علیہ السلام کو نہ صرف سجدہ کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنی دشمنی کا بھی برملا اظہار کیا۔ اس کا سب سے بڑا اور کارگر حملہ یہ ہوا کہ اس نے آدم اور حوا کو ترغیب دلائی کہ اس درخت کا پھل کھا لوگے تو جنت کے ابدی مکیں بن جاؤ گے۔ حالانکہ آدم اور حوا علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ اللہ نے اس شجر کے پھل کھانے سے منع کیا ہے مگر ابلیس کے جھانسے میں آکر جیسے ہی دونوں نے یہ پھل کھایا ان کے جسموں سے جنت کا لباس فاخرہ اتر گیا۔

یہ شیطان کا انسان کے خلاف ایک طرح سے ایٹمی حملہ ثابت ہوا اور ہمارے ماں باپ کو جنت سے زمین پر آنا پڑا۔ شیطان کے اس تیر بہ ہدف حملے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برہنگی اس مردود کا مشن ہے اور اولاد آدم کو برہنہ کرنا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اور صرف شرم و حیا اور ستر پوشی سے ہی کیا جا سکتا ہے جو انسانی فطرت کا خاصا ہے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ شیطان کی پیروی اللہ کی ناراضی اور جنت سے محرومی ہے۔ جب سے یہ دنیا انسانوں سے آباد ہوئی ہے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

اللہ نے آدم سے لے کر آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا اور رسول ہماری رہنمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث کیے اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نازل کرکے ہدایت و رہنمائی کی تکمیل فرمائی۔

موضوع تحریر جدیدیت کا رقصِ ابلیس اور ہماری نسل نو ہے لہٰذا دورِ حاضر میں اس کا جائزہ لیں گے۔ انسان کو اللہ نے نہ صرف عقل سلیم سے نوازا ہے بلکہ تسخیر کائنات کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ انسان علم الاشیا کی بنیاد پر دریافت و ایجادات کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ بگڑی ہوئی اور معتوب قومیں نہ صرف اپنے زمانے میں علم و ہنر، مال و دولت اور طاقت کے اوج ثریا پہ تھیں بلکہ ان کا مد مقابل بھی کوئی نہیں تھا۔ مگر یہ اُس وقت عذاب الٰہی کا شکار ہو کر نشان عبرت بن گئیں جب انہوں نے رسولوں اور نبیوں کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرادیا بلکہ شرک، ظلم اور اخلاق رزیلہ کے دلدل میں غرقاب ہو گئیں۔ عاد و ثمود ، فراعنہ مصر ، باغِ ارم، اصحاب الرس اور قوم لوط کی بستیوں کے کھنڈرات جدید دور کے بدمست نسل اور نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کے لیے کافی ہیں۔ جدید دور کا سائنس بھی اس دور کے تعمیراتی انجینئرنگ اور احرام مصر کے تعمیرات اور حنوط شدہ لاشوں پر استعمال ہونے والے کیمیائی اشیا کے بارے میں حیرت زدہ ہے۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعثت کا زمانہ ایسا تھا کہ روئے زمین پر کہیں بھی اللہ کی کبریائی اور عبادت نہیں ہوتی تھی‘ وحدانیت کی جگہ شرک اور بت پرستی کا غلبہ تھا۔ اللہ کا گھر خانہ کعبہ بھی 360 بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ مصر میں ابو الہول کی پوجا، ایران میں آگ کی پوجا، عیسائی تثلیث کے پجاری، یہودی عزیز علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنائے ہوئے تھے، بھارت میں لاکھوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا، چینی کنفیوشس کی تعلیمات بھول گئے تھے۔ گویا ہر طرف شرک اور اخلاقی نراجیت پھیلی ہوئی تھی۔

پاپائیت کا جبر ایسا تھا کہ قیصر روم بھی پاپائے روم کے سامنے بے بس تھا۔ ایسے میں یورپ کے صنعتی انقلاب سے مذہب بے زاری پیدا ہونا شروع ہوئی۔ نت نئی ایجادات اور مشینی دور کا آغاز ہوا۔ جس کی بنیاد پر یورپی اقوام نے ملک ہوس گیری میں مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کیا اور 1923 میں خلافت کے خاتمے تک ترکی اور افغانستان کے علاوہ پوری مسلم دنیا انگریزی سامراج کا غلام ہو چکی تھی۔ روس کے کمیونسٹ انقلاب نے وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستوں پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو ہر طرح سے تاراج کردیا تھا۔

مشینی ایجادات ہی دراصل جدیدیت کا وہ شیطان ہے جس نے انسان کی فطری اقدار زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

دور قدیم کے ایجادات اور دور جدید کے ایجادات میں صرف اتنا فرق ہے کے دور قدیم کے ایجادات عوامی دسترس میں نہیں تھیں مگر آج کی ایجادات عوامی دسترس میں ہیں اور اربوں انسان نہ صرف اس سے استفادہ کر رہے ہیں بلکہ اس کے اثرات بد سے متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ اگر جامِ جمشید میں دنیا نظر آتی تھی تو آج اسمارٹ فون میں دنیا مقید ہے۔ اس لاسلکی اور ہوائی ایجادات نے دنیا کو Palm village میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ آلہ دراصل وہ زہر آلود پراسرار انسانی اخلاق کا دشمن ہے جس کے استعمال سے ایک جانب مذہب بے زاری پھیل رہی ہے تو دوسری جانب ایک ایسی آوارہ نسل تیار ہو رہی ہے جس کے سامنے رشتوں کا کوئی تقدس باقی نہیں رہا۔ امریکہ اور تمام مغربی اقوام کے نیو ورلڈ آرڈر اور انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام پر برہنہ ہونے اور حیوانوں کو شرمندہ کرنے والے جنسی بے راہروی کو ریاست کی سرپرستی دی ہے اور میرا جسم میری مرضی کو پروان چڑھایا ہے اور حیا اور پاک دامنی اور پردہ داری کو انسان دشمنی قرار دے کر اپنے ملکوں میں سزائیں مقرر کر دی ہیں۔ مسلمانوں کے ممالک کے حکمران بھی اس کی پیروی کرنے میں پیش پیش ہیں۔ شیطان کا پہلا حربہ آدم اور حوا کو بے لباس کرنا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنا تھیں۔ آج جدیدیت نے اس کے لیے تمام راستے اور وسائل نیز ریاست کی سرپرستی کو فراہم کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے جنسی برہنگی، جرائم، سماجی فراڈ، اغوا، بلیک میلنگ کے تمام ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ اعصابی بیماریاں، خاندانی انتشار، معاشرتی اور اخلاقی افراتفری سیلابی ریلے کی طرح سب کچھ بہا لے جا رہے ہیں۔ حکمران چونکہ خود اس قماش کے ہیں لہٰذا وہ اسے روکنے کے بجائے اس کیسرپرست بن گئے ہیں۔

مسلم دنیا میں آج بھی خاندانی نظام اور رشتوں کا تقدس پامال نہیں ہوا ہے مگر اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ سر زمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجودہ حکمرانوں کی جدید مزاجی سے اس اثرات خبیثہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش جو کثیر مسلم آبادیوں والے ممالک ہیں اس کا نوجوان اس جدیدیت کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ ہندوستان کے 30 کروڑ مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

دور جاہلیت میں بازاروں میں میلوں میں یہ منظر عام تھا۔ مگر اس کا سد باب قرآنی تعلیمات اور پیرویِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ممکن ہوا اور آج بھی اسی کے ذریعے اس شیطانی حربے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور اسی ذریعہ ابلاغ کے مثبت استعمال سے۔ ڈاکو کے ہاتھ سے تلوار چھین کر سپاہی کو دینا ہوگی۔

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

حصہ