آپ اِسمارٹ ہیں، سمجھ دار ہیں… ہوں گے، بالکل ہوں گے۔ مگر جان لیں کہ آپ کا موبائل فون آپ سے کہیں زیادہ اسمارٹ ہے۔ براہِ کرم اِس غلط فہمی میں مت رہیے گا کہ یہ فون آپ کا ہے، یہی اِس کی سب سے بڑی خوبی ہے، کیونکہ بے شک آپ نے بڑی محنت سے پیسے جمع کرکے اس کو خریدا ہو، مگر یہ قطعاً آپ کا نہیں۔ اِس میں موجود آپ کی، آپ کے اہل خانہ کی تصاویر صرف آپ کی ملکیت نہیں۔
اس میں موجود آپ کے اپنے دوست و احباب کے فون نمبرز صرف آپ کی ملکیت نہیں۔ اس فون میں موجود کوئی دستاویز، ای میل، خط کتابت آپ کی ملکیت نہیں۔ حیرت تو نہیں ہورہی؟ چلیں آپ کو اس بارے میں کچھ عملی مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک دن آپ کے موبائل پر فون کال آتی ہے۔ یا آپ فیس بک استعمال کررہے ہوں تو ایسا ایک اشتہار آپ کے سامنے آجاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’کیا آپ مالی طور پر پریشان ہیں؟ پیسے چاہئیں؟ تو فکرمند نہ ہوں۔ ہم آپ کو دے رہے ہیں، آپ کی مشکل حل کرنے کے لیے فوری رقم۔ ایک ہزار سے ایک لاکھ روپے تک فوری حاصل کریں۔ ابھی ہماری ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کریں اور اپنی ضرورت کے مطابق ’ایزی لون‘ حاصل کریں“۔ اِس جیسے کئی اشتہار یا کوئی ایس ایم ایس، واٹس ایپ میسیج، یا فون کال آپ کے تجربے میں ضرور آئے ہوں گے۔ ہاں، اس میں کہیں کہیں یہ اسلامی ٹچ بھی ہوتا ہے کہ یہ بلاسود قرضے ہیں۔ ’’بروقت‘‘ کے نام سے، کہیں زیٹا لون، ایزی لون، کریڈٹ کارڈ جیسے ناموں سے یہ مستقل عوام کو گھیر رہے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو پیسے بانٹ رہے ہیں، بغیر جان پہچان کے۔ تو یہ کیسے جرم کررہے ہیں؟ جی، سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ سب سودی قرضے ہیں۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد سود ہمارے ملک میں قانوناً بھی جرم ہوچکا ہے، صرف بینکوں سے ختم کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ اتفاق سے ملک میں اسٹیٹ بینک و دیگر ریگولیٹری اِدارے موجود ہیں جن کو بائی پاس کرکے کوئی فیس بک یا پلے اسٹور کی مدد سے جو کام کرے گا وہ کسی بھی دائرے میں نہیں آسکے گا۔ اس لیے اس کو فراڈ کرنے کی مکمل آسانی ہوگی۔ یہ سب باتیں عام لوگ نہیں سمجھتے اس لیے پیسوں کے لالچ میں آسان شکار ہوتے ہیں۔ اصل میں ان کا شکار آپ تب بنتے ہیں جب آپ اپنے فون پر ان کی ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں۔ یہاں سے ان کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ اپنی اس ایپلی کیشن کے ذریعے وہ آپ کے اسمارٹ فون میں مکمل رسائی لیتے ہیں، جس کی اجازت بھی آپ خود ہی دیتے ہیں، اور بس آپ کا سب کچھ اُن کا ہوجاتا ہے۔ پیسے تو مل جاتے ہیں مگر واپسی کے لیے جو کچھ ہوتا ہے، وہ اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ بندہ چیخ اٹھتا ہے کہ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ میں بھیک مانگ لیتا۔
اِسی طرح ایک دن اچانک آپ کے پاس فون آتا ہے۔ آپ کو نام لے کر مخاطب کرتے ہیں، پھر بتاتے ہیں کہ ’کسی‘ تھانے سے فون ہے۔ نام وغیرہ پوچھتے ہیں، ہلکی پھلکی معلومات کا ایسا تبادلہ کرتے ہیں جس سے آپ کو لگتا ہے کہ وہ شاید سچ بول رہے ہیں۔ بتاتے وہ یہ ہیں کہ آپ کے کسی بھانجے، بھتیجے یا قریبی رشتے دار کو پولیس نے رنگے ہاتھوں ’کسی جرم‘ میں پکڑ لیا ہے۔ پھر کیس کی خطرناک صورت حال بتاتے ہیں، یہاں تک آپ خوف زدہ ہوجائیں۔ پھر تیر چلاتے ہیں کہ آپ تو شریف خاندان سے لگ رہے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا رشتے دار بدنامی سے بچ جائے تو پھر کچھ لین دین کرکے بات ختم کرلیں۔ آپ اگر جھانسے میں آجاتے ہیںو تو پھر ایزی پیسہ، جیز کیش طرز کی ٹرانزیکشن کروائی جاتی ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی عزیز رشتے دار کسی تھانے میں نہیں تھا۔ ویسے پڑھتے وقت تو ضرور آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ سب فراڈ (سائبر کرائم) کی ایک جامع شکل ہوتی ہے، مگر اِس فراڈ کا شکار کئی لوگ مستقل ہورہے ہیں۔
ایسے ہی کسی دن آپ کے موبائل پر فون کال آتی ہے، آپ نمبر دیکھتے ہیں کہ وہ تو بالکل آپ کے بینک کا 9 ہندسوں والا نمبر ہوتا ہے۔ دوسری جانب ایک خوبصورت سی آواز یہ بتاتی ہے کہ وہ آپ کے بینک کی ہیلپ لائن سے بات کررہی ہے۔ پھر وہ آپ کو کسی بہانے سے اے ٹی ایم کارڈ، یا بینک کے کسی عمل میں رکاوٹ کا بتائے گی، یہی نہیں بلکہ آپ کی کچھ معلومات کی تصدیق بھی کرے گی، جیسے آپ کا شناختی کارڈ نمبر بتادے، تاریخ پیدائش بھی بتادے، والد کا نام بھی بتا دے، بس، اس سے کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد وہ جب دیکھے گی کہ آپ مستقل اس کی باتوں میں آتے جارہے ہیں اور کسی حد تک پریشان بھی ہورہے ہیں تو وہ کسی بہانے سے ایک میسیج میں نمبر بھیجے گی، پھر اس کی ویری فکیشن کے لیے کبھی وائس میسیج یا کسی اور طریقے سے وہ میسیج آپ سے منگوائے گی۔ بس ادھر وہ نمبر اُن تک پہنچا کسی بھی شکل میں، اُدھر چند سیکنڈوں بعد ایک میسیج آئے گا اور آپ کا بینک اکاؤنٹ خالی ہوجائے گا۔
ایسے ہی ایک دن، نہیں بلکہ ایک رات آپ گھر پر ہوں گے، گھنٹی بجے گی۔ آپ دروازہ کھولیں گے تو ایک نوجوان لڑکا پیزا ڈیلیوری لے کر آپ کے پاس آئے گا، آپ کی بنیادی معلومات دے گا، مگر آپ یہی کہیں گے کہ میں نے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ شروع میں تو وہ سادہ کوشش کرے گا کہ آپ وہ پیزا یا آرڈر لے لیں، 99 فیصد کیسز میں آپ منع ہی کریں گے کیونکہ آرڈر 500-600 کا نہیں بلکہ 2000روپے سے اوپر کاہی ہوگا۔ وہ آپ کا نمبر بتائے گا، آپ لازمی فون نکال کر کہیں گے کہ دیکھ لو میں نے تو ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ اب موبائل نکلنے کے بعد وہ اپنی مظلومیت، نوکری، پیسے کٹ جانے کا بہانہ کرے گا۔ آپ کو ٹیکنالوجی کی کسی خرابی کا احساس ہوگا تو آپ کے اندر نرمی آئے گی۔ پھر وہ کہے گا کہ آپ پلیز آرڈر کینسل کرادیں۔ آپ کہیں گے کہ میں نے تو آرڈر دیا ہی نہیں، تو وہ کہے گا کہ آپ میری منیجر سے بات کرلیں تاکہ مجھ پر بوجھ نہ پڑے۔ اب ڈیلیوری بوائے اپنے فون سے کال ملا کر، ظاہری باتیں کرکے آپ کو فون تھما دے گا۔ دوسری طرف سے ایک خاتون منیجر آپ سے انتہائی اخلاق سے بات کرے گی، وہ آپ کو مطمئن کرے گی کہ اب وہ آپ سے بات کرکے یہ آرڈر کینسل کررہی ہے، بس تصدیق کے لیے آپ کے فون نمبر پر جو کوڈ آیا ہے وہ پڑھ کر بتا دیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ آپ نے خود کینسل کیا ہے۔ بس یہ باریک لمحہ ہوگا آپ کے اس جھانسے میں آنے کا۔ اِدھر آپ نے کوڈ بتایا اُدھر اس نے کہا کہ آرڈر کینسل۔ پھر وہ ڈیلیوری بوائے آپ کو دعائیں دیتا چلا جائے گا۔ وہ تو چلا جائے گا مگر آپ کے اسمارٹ فون پر بینکنگ سہولت ہوئی تو ایک ایس ایم ایس آئے گا جس میں اطلاع ہوگی کہ آپ کے اکاؤنٹ سے اتنی رقم منتقل ہوچکی ہے۔ اس کے بعد آپ کی کئی راتوں کی نیند ضرور اڑ جائے گی، مگر وہ ڈیلیوری بوائے آپ کو کبھی نہیں مل سکے گا۔
فیس بک پر مستقل فعال ہمارے ایک محترم استاد عارف الحق عارف صاحب نے چند دن قبل ہی اپنی کچھ تصاویر والی ایک پوسٹ لگائی اور ہمیں بتایا کہ یہ اکاؤنٹ اُن کا نہیں ہے۔ ’’یہ میری جعلی فیس بک آئی ڈی ہے۔ دوست اور احباب کسی کو ہمارے نام پر پیسے نہ دیں۔ فیس بک پر جعل ساز فراڈیوں کا گروہ ایک بار پھر سرگرم عمل ہوگیا ہے اور وہ ہماری جعلی آئی ڈی بناکر ہمارے رشتے داروں اور دوستوں کو دوستی کی درخواست بھیج رہا ہے۔ ڈونگی (کھوئی رٹہ) آزاد کشمیر سے ہماری بہن کے نواسے عثمان خورشید نے اطلاع دی ہے کہ اس آئی ڈی سے اس کے پاس یہ درخواست آئی ہے۔ ہم اپنے فیس بکی دوستوں اور رشتے داروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی ہمارے نام سے کوئی رقم نہ دیں، اس کے ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔‘‘ ایسے کئی میسیج ہمارے کئی فیس بک دوست لگا چکے ہیں۔
اب بینک والے کئی بار بتا چکے ہیں، لکھ چکے ہیں کہ ہم کبھی بھی، کسی بھی نمبر سے کسی بھی سلسلے میں، کسی بھی حالت میں، کسی بھی قسم کی معلومات لینے کے لیے کبھی فون نہیں کرتے۔ مگر دوسری طرف جو دماغ کام کررہے ہیں وہ پوری معاشرتی نفسیات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اُن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو لوگوں نے نامعلوم ’نعمت‘ سمجھ کر اپنا لیا ہے، ان کو اس کا استعمال بھی نہیں آتا اور ان کو اس بات کا فہم بھی نہیں کہ اس میں آپ کہاں کہاں سے، کس کس طرح لوٹ لیے جاتے ہیں۔ بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ مالی طور پرلُٹ چکے ہیں۔
بات یہیں تک نہیں رہتی، اب جب آپ کی کوئی نجی چیز، کوئی تصویر، کوئی وڈیو، کسی کے بھی ہاتھ لگ جائے اور وہ اِس کو کوئی بھی رنگ دے سکتا ہو، کوئی بھی شکل دے سکتا ہو تو اس میں کیا مسئلہ ہے کہ اس کے بدلے وہ آپ سے خوب پیسے بھی بٹور سکے۔ بے وقوفی کی کوئی قیمت تو ہوتی ہے، تو چکانے میں مضائقہ کیسا؟ آپ کے فون نمبروں مطلب ’کانٹیکٹ لسٹ‘ تک رسائی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آپ کے تمام نمبرز، ای میل ایڈرسز تک رسائی… پھر آپ کی تصویر کو جس شکل میں بھی ترتیب دینے کے بعد اگر وہ آپ کے ’کانٹیکٹ‘ کو بھیجی جائے تو اس کے اثرات سمجھتے ہیں آپ؟
دنیا کی نام نہاد ’ترقی‘ سے جو تباہی اب تک سامنے آئی ہے، پوری انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مطلب یہ کہ دنیا ایسی ’ترقی‘ کا سامنا کررہی ہے جس سے خود ’دُنیا‘ کا وجود ہی خطرے میں آیا ہوا ہے۔ ’خطرہ‘ بھی ایسا جس کا تدارک ممکن ہی نہ ہو۔ اس صورت حال نے جدید طرزِ جرائم بھی پیدا کی ہے، جس نے تمام انسانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جہاں جہاں ٹیکنالوجی کا سفر ہورہا ہے وہاں ’سنگین جرائم‘ کی نئی دنیا آباد ہوتی جارہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب تو نہیں مگر 99.9 فیصد جرائم کے پیچھے صرف حصولِ مال اور جنسی تسکین ہی ہوتی ہے۔ یعنی سادہ لفظوں میں ’دنیا پرستی‘، ’دنیوی لذات‘ کا زیادہ سے زیادہ آسان حصول۔ اس جدید نظام نے حقوق کے نام پر حاسد، حریص اور مریض انسان پیدا کیے ہیں جو صرف طالبِ لذات جانور کی مانند سرمائے میں کسی طور اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ یہی کیفیت سائبر کرائم میں نظر آتی ہے، اُن تمام جرائم کو سائبر کرائم کہتے ہیں جو انٹرنیٹ اور الیکٹرانک ڈیوائسز کی مدد سے اِسی انٹرنیٹ کے دائرے میں انجام دیا جائے۔ اس کے تدارک کے لیے سب سے اہم کام اس وقت یا تو اس کا استعمال محدود کرنا ہے یا پھر اِس سے منسلک فراڈز کی زیادہ سے زیادہ آگہی دینا ہے۔ اِس آگہی کا دائرہ صرف عوام یا استعمال کنندگان تک نہیں، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں تک بڑھانا بھی لازمی ہے۔