عزم و استقلا ل

935

عزم و استقلال وہ خوبی ہے جس سے انسان کو مقصد تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو کس قدر قیمتی بات کی رہنمائی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی ہے:
وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَعِلِينَ (آل عمران : 159/3)
(اے نبی !) امور سلطنت میں صحابہ کرام ؇ سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کیجیے، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی پر بھروسا کرتے ہیں۔
آپ ﷺکی حیات طیبہ عزم و استقلال کا بہترین نمونہ ہے، پورے استقلال کے ساتھ نا مساعد حالات میں تئیس برس دور نبوت گزارنا اور اس طرح گزارنا کہ ہر روز طلوع ہونے والا سورج کامیابی اور امید کی کرنیں بکھیر رہا ہوتا۔
نبی کریم ﷺ نے جس طرح ایک غیر فلاحی معاشرے کو ایک مکمل انسانی اور اسلامی فلاحی معاشرے میں تبدیل کیا، جور و ستم میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو عدل و انصاف سے روشناس کرایا اور اس راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو صبر و استقلال سے کام لیتے ہوئے عبور کیا، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے بڑے حوصلے کا کام ہے۔
آپ ﷺ کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالیے، مصائب و مشکلات سے گھری ہوئی ہے، آپ ﷺپر اور آپﷺ پر ایمان لانے والوں پر ہر ظلم و ستم کو روا رکھا گیا، مگر اُن کے پائےاستقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔
جب ہر طرح کی ایذا رسانی، تشدد اور ظلم و ستم سے قریش مکہ ناکام ہو گئے تو انہوںنے نئی چال چلی، وہ کیا تھی؟ مال و دولت، حکومت و بادشاہت عطا کرنے اور امیر گھرانے میںخوبصورت ترین عورت سے نکاح کرانے کی پیشکش کی گئی مگر یہ تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔
پھر قریش مکہ نے تنگ آکر رسول اللہ ﷺکے سر پرست اُن کے چچا ابوطالب کواس قدر ڈرایا کہ وہ بھی آپ ﷺکو نرمی کا مشورہ دینے لگے۔ اس پر رسول اللہ ﷺنےعزم و استقلال سے ایسے کلمات فرمائے جو ہمت و جرات کی نشاندہی کرتے ہیں: ”اے چچا!قریش میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر ماہتاب بھی لاکر رکھ دیں تا کہ میں اپنی یہ دعوت کا عمل ترک کر دوں، تب بھی حق کے اعلان سے باز نہ آؤں گا، یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا میں اس راستے میں کام آ جاؤں۔“
یہ عزم راسخ کا بہترین جواب ہے۔ صحابہ کرام ؇بھی اللہ کو بھی اسی بات کی تلقین فرمائی جب انہوں نے قریش کے ظلم وستم کا تذکرہ کیا تو فرمایا: ”تم سے پہلے جو لوگ گزر چکے ہیں اُن کے جسموں پر آرے چلائے گئے ، اُن کی کھالیں اتاری گئیں، مگر یہ باتیں انہیں راہ حق سے نہ ہٹا سکیں، اللہ کی قسم! دین اسلام اپنے کمال کو پہنچ کر رہے گا حتیٰ کہ صنعا سے حضر موت تک کا سفر ایک خاتون تن تنہا کرے گی تو اسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا ڈر نہ ہوگا۔“
پھر غور کیجیے، مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، رسول اللہ ﷺصحابہ کرام ؇کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال کا طویل عرصہ ٹھہر نے پر مجبور ہو گئے جس میں مکہ سے کوئی راشن نہ پہنچ سکا، بھوکے اور پیاسے دن رات کھلے آسمان کے نیچے گزارے۔ پھر مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا اور وہاں کے حکمران نجاشی کا اچھا معاملہ کرنا، اُس کے بعد مکہ سے مدینہ (یثرب) کی ہجرت اور راستے کی مشکلات، مدینہ پہنچ کر غزوات کا سلسلہ، یہ سب عزم و استقلال کی صبر آزما داستانیں ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل فرما دیا۔
اس وقت امت مسلمہ پر پھر ادبار کی گھٹائیں چھا رہی ہیں، انہیں اپنے اندر اتحاد پیدا کر کے ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے تو پھر ہی دنیا میں عدل و انصاف کی بہاریں آئیں گی، پھر ہی اسلام کا پرچم بلند ہوگا
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز
(ماہنامہ چشم بیدار۔دسمبر2019ء)

حصہ