اکبر الٰہ آبادی کو بابائے ظرافت یوں ہی تو نہیں کہا جاتا‘ کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی… تو حضرات! وجہ صرف اتنی سی ہے کہ اکبر نے ’’جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی‘‘ ان کے ہر شعر میں مقصدیت ہوتی تھی، بلا کا طنز ہوتا تھا‘ وہ معاشرے پر گہری نظر رکھتے تھے‘ جو خامیاں نظر آتیں انہیں شعری پیراہن دے دیتے تھے جس میں طنزومزاح کے ساتھ اصلاحی پہلو بھی ہوتا تھا اور سب سے اچھی بات یہ کہ ان کے اشعار میں آسان الفاظ کا استعمال ہوتا تھا۔ دقیق اور مشکل الفاظ نہ ہوتے تھے ہر خاص و عام کی عقل میں آسانی سے آجاتے تھے پچھلے دنوں شاہ نواز فاروقی کے ایک مضمون میں اکبر کا ایک شعر پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی آسان الفاظ میں اکبر نے کیا غضب کی بات کہہ دی:
یہی کہتے رہے تلوار سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
ساری دنیا کو پتا ہے کہ توپ سے کیا پھیلا ،توپ سے انسانوں کا قتلِ عام ہوا ،زمین کے لیے کبھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کبھی اپنی شہنشاہیت برقرار رکھنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی گئی غرضیکہ خونریزی اور بربادی کے سوا کچھ اور نہ پھیلا پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں بے گناہوں کا خون ہوا لاکھوں گھر برباد ہوئے زمینیں تہس نہس ہوئیں حکمرانی مردوں کی تھی مرد کی فطرت میں خونریزی کشت و خون دہشت گردی ہوتی ہے اس کے برعکس خواتین امن پسند ہوتی ہیں وہ تو ایک چھپکلی سے بھی ڈر جاتی ہیں مرد تلوار چلاتا ہے، عورت زبان چلاتی ہے اب اگر ساری دنیا میں عورتوں کی حکومت ہوتی تو کیا ہوتا یہ خیاّم سرحدی سے سنیے:
ساری دنیا میں حکومت جو زنانی ہوتی
عالمی جنگ جو ہوتی وہ زبانی ہوتی
بیوٹی پارلر کا قیام خواتین کا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے اس کے بہت سارے فوائد ہیں مثلاً بے شمار غریب لڑکیوں کو روزگار کی سہولت حاصل ہوئی کاسمیٹک بنانے والے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا خواتین کے پسندیدہ شوق کی تکمیل یہیں سے ہوتی ہے دلہنیں یہیں سجائی جاتی ہیں غرضیکہ فائدے ہی فائدے ہیں کراچی کے بازاروں میں ہر گلی کوچے میں سب سے زیادہ قمقموں سے جگمگاتی ہوئی بارونق جو عمارت نظر آئے گی وہ بیوٹی پارلر ہی ہوگی… ایک خاتون جنہوں نے کبھی بھی بیوٹی پارلر کا رُخ نہ کیا تھا جوانی یوں ہی گزر گئی کسی تقریب میں جانا تھا خیال آیا کہ کیوں نہ بیوٹی پارلر کی خدمات حاصل کی جائیں آخر ہم بھی تو جانیں کیا خاص بات ہے ان بیوٹی پارلر میں جو خواتین وہاں بھاگ بھاگ کر جاتی ہیں…بہت ہی نامی گرامی بیوٹی پارلر سے میک اپ زدہ ہو کر جب اپنے گھر میں داخل ہوئیں تو محترمہ جس حادثے سے دوچار ہوئیں اس وقت ان کے کیا جذبات تھے میں نے ضمیر جعفری کے ایک شعر میں تحریف کر کے بیان کرنے کی کوشش کی ہے ملاحظہ کیجیے…
بیوٹی پارلر نے کیا اس طرح بیگانہ مجھے
میرے شوہر نے بڑی مشکل سے پہچانا مجھے
جوان لڑکا ہو یا لڑکی ہر کسی کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ بس جلد از جلد شادی کے بندھن میں باندھ دیے جائیں، لڑکیوں میں کچھ زیادہ ہی کیونکہ انہیں شادی سے کہیں زیادہ خوشی دلہن بننے میں ہوتی ہے ۔پانچویں جماعت میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے استاد ِمحترم نے سوال کیا کہ بڑے ہو کر تم لوگ کیا بننے کی خواہش رکھتے ہو اکثر لڑکوں نے جواب دیا ڈاکٹر یا انجینئر مگر لڑکیاں خاموش تھیں استاد نے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تم کیا بننا چاہتی ہوں لڑکی نے بڑے پیار سے جواب دیا ’’سر میں بڑی ہو کر دلہن بننا چاہتی ہوں ‘‘تو جناب یہ ہے صورت حال ہر جواں دل میں شادی کی خوشیاں انگڑائیاں لیتی ہیں خواب ہو یا خیال ہو شادی کے افسانوں سے رنگین ہو جاتے ہیں …دورِ حاضر کے معروف مزاح گو مرزا عاصی اختر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
شادی کے جو افسانے ہیں وہ رنگین بہت ہیں
لیکن جو حقائق ہیں وہ سنگین بہت ہیں
شادی کے بعد کے حقائق کتنے سنگین ہیںیہ تو شادی زدہ معاف کیجیے گا میرا مطلب ہے شادی شدہ افراد ہی بتا سکتے ہیں جو اس رنگین حادثے سے دوچار ہوچکے ہوتے ہیں کچھ نوجوان بہت ذہین ہوتے ہیں وہ اپنے مستقبل پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں وہ شادی کرنے سے قبل ہر طرح سے چھان بین کر لیتے ہیں کہ جس گھر میں وہ داماد بن کر اسے عزت بخشنے والے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ شادی کے بعد ان کا مستقبل تابناک کے بجائے المناک ہو جائے لہٰذا وہ اس گھر کا ماحول ،سُسر جی کی آمدنی‘ ان کا کاروبار‘ان کی جائداد اور لڑکی کا بینک بیلنس وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیتے ہیں اس کے بعد رشتہ دیتے ہیں اور شادی حاصل کرنے کے بعد گھر کا داماد ہونے کے بجائے ’’گھر داماد‘‘ بننے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ سُسر جی کی ساری دولت پر عیش کر سکیں اور دولت کا صحیح اور جائز استعمال ہوسکے اسے کہتے ہیں’’ ایک تیر سے دو شکار‘‘ مگر قسمت کے کھیل نرالے ایسے ہی ایک نوجوان کی داستان ِپُردرد… اس کی روشن خیالی روشن ضمیری روشن مستقبل کی روشن تمنائیں اسے کس روشن خانے میں لے گئیں ایک بار پھر مرزا عاصی اختر کی زبانی:
اس نے سُسرال میں قیام کیا
زندگی بھر کچن میں کام کیا
٭
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا
محبت کرنے کے لیے نہ تو کسی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی تعلیمی سر ٹیفکیٹ کی یہ ایک فن ہے اور اس فن کی تکمیل کے لیے سینے میں ایک محبت کرنے والا دل ہونا چاہیے اب ایسا دل بھی نہ ہو کہ جہاں بھی گئے جسے بھی ایک نظر دیکھا بس اسے دل دے بیٹھے اور گھر واپسی پر اپنے ایک دوست سے فرماتے ہیں…یار غضب ہو گیا:
’’آج پہلو میں ہمارے دلِ ناشاد نہیں
کس کو دے آئے کہاں بھول گئے یاد نہیں‘‘
کچھ محبت کرنے والے محبت کا آغاز تو کر دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کارزار میں کامیابی ہوتی بھی ہے یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ناکامی ہوگئی تو پھر کیا ہو گا… بس اسی خیال کو غلام محمد قاصر نے اپنے ایک شعر میں ڈھال کر کافی شہرت حاصل کی ہے :
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
دلاور فگار کی اہلیہ نے ایک دن جھلّا کر اُن سے کہہ دیا کہ ’’مجھ سے اتنی ہی شکایت ہے تو دوسری کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘
اس پر دلاور فگار نے جواباًکہہ دیا ’’دو بار کوئی ایک حماقت نہیں کرتا‘‘ دلاور فگار کی نظر میں پہلی بیوی کا حصول ہی حماقت انگیز تھا، جو سرزد ہو چکا تھا مگر ان کے شاگردِ رشید خالد عرفان کی نظر میں ایک بیوی رکھنا اور تا حیات اسے برداشت کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ جنت میں اس مرد ِ مجاہد کا مقام اعلیٰ ہو گا۔ خالد عرفان فرماتے ہیں:
ایک بیوی پہ جو کرتا ہے قناعت تا عمر
وہ تو شوہر نہیں ہوتا ہے ولی ہوتا ہے