نیاز مندانِ کراچی کانعتیہ مشاعرہ

338

کراچی کی ادبی تنظیم نیازمندانِ کراچی نے آرٹس کونسل کراچی ڈسٹرکٹ سینٹرل کے تعاون سے نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ مہمانان خصوصی میں آصف رضا رضوی اور پروفیسر ڈاکٹر مرزا سلیم بیگ شامل تھے جب کہ ریحانہ روحی اور نجمہ عثمان مہمانانِ اعزازی تھیں دیگر مسند نشینوں میں بشیر احمد سدوزئی اور شکیل احمد خان تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلام مجید اور نعت رسول پیش کرنے کی سعادت محمد ابرار حسین نے حاصل کی۔ جن شعرا نے اس مشاعرے میں نعتیہ کلام پڑھنے کی سعادت پائی ان میں ساجد رضوی‘ ریحانہ روحی‘ نجمہ عثمان‘ طاہر سلطانی‘ احمد سعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ سحر علی‘ عدنان عکس‘ فخر اللہ شاد‘ آسی سلطانی‘ حیدر حسنین جلیسی‘ نعیم انصاری‘ شارق رشید ‘نظر فاطمی‘ امت الحی ٔوفا عتیق الرحمن‘ مصطفی ایوب‘ شائق شہاب‘ پروفیسر محمد اقبال‘ شہناز رضوی‘ یاسر سعید صدیقی‘ تنویر سخن‘ افضل شاہ اور چاند علی شامل تھے۔ صدر مشاعرہ ساجد رضوی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ نعت گوئی کا سلسلہ آنحضرت محمد مصطفیؐ کے زمانے سے چل رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا‘ نعتیہ ادب کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ اس صنفِ سخن غلو کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ رسالت مآبؐ کے شمائل و فضائل بیان کرے لیکن اب نعت میں امت مسلمہ کی حالتِ زار پر بھی بات ہوتی ہے کیوں کہ تمام تر مسائل کا حل اسوۂ رسول میں موجود ہے۔
حُبِ رسول کے بغیر نعت نہیں ہو سکتی‘ رفیعہ جاوید
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر خاک دان آب و گل میں بھیجا ہے اور اس کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے ہر نبی اور رسول اپنے وقت کا نمائندہ ہوتا تھا لیکن ہمارے نبی اور رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کے لیے نبی و رسول ہیں‘ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے جس کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ان خیالات کا اظہار شاعرہ‘ ادیبہ اور ماہر تعلیم رفیعہ جاوید ملاح نے کورنگی ٹائون کے ایک مقامی اسکول میں عیدمیلادالنبیؐ اور نعتیہ مشاعرے میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حبِ رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہو سکتی‘ نعتیہ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ شعرائے متقدمین اور شعرائے متوسلین کی نعتوں میں جمال مصطفی کے رویے کو کثرت سے برتا گیا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ نعت گو شعرا پر اس حقیقت کی تہیں کھلتی چلی گئیں کہ دراصل نعتِ مصطفی سرکار دو عالمؐ کے جمال اور سیرت کے امتزاج ہی کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر اسکول میں بزمِ ادب کے تحت ادبی پروگرام کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر اسکول کے اساتذہ کے علاوہ سلیمان صدیقی‘ رانا خالد محمود‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ سرور چوہان نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ سلمان صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں جن مدارس میں یہ اہتمام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہیں۔ آج کے پروگرام میں طلبا و طالبات نے بہت اچھی تقریریںکیں اور عمدگی کے ساتھ نعتیں سنائیں اس کا تمام تر سہرا اسکول انتظامیہ کے سر ہے۔ انہوںنے مزید کہا کہ نعت گوئی میں بڑی ذمہ داری ہے ذرا سی عدم توجہ سے بات خراب ہو سکتی ہے ہمیں تقدیس رسالت کا خیال رکھنا ہوتا ہے‘ ہم نعت میں تبلیغ اسلام کے مضامین بھی شامل کرسکتے ہیں نعت کہنا اور نعت سماعت کرنا باعث ثواب ہے۔
ڈاکٹر ساجد رحیم کے اعزاز میں محفل مشاعرہ
اسلامک سینٹر کھیل و ثقافت عائشہ منزل کراچی میں ڈاکٹر ساجد رحیم کے اعزاز میں مشاعرہ ہوا جس میں ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’کسی اور دکھ‘‘ کی تعارفی تقریب بھی ہوئی۔ ڈاکٹر سید رحیم کا پہلا شعری مجموعہ ’’اک دیوار گراتا ہوں‘‘ 2020ء میں شائع ہوا تھا۔ پروگرام کی صدارت شہاب الدین شہاب نے کی۔ شکیل حیدر مہمان خصوصی تھی۔ ثبین سیف اور ڈاکٹر ندیم نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ساجد رحیم نے کہا کہ وہ کراچی ریزیڈنسی‘ بارگاہ ادب اور میٹرو ون کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے ایک شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ یہ بات بھی میرے لیے باعث اعزاز ہے کہ پروگرام میں کثیر تعداد میں سامعین بھی موجود تھے جو کہ ہر شاعر کو داد و تحسین سے نواز رہے ہیں۔ شہاب الدین شہاب نے کہا کہ ڈاکٹر ساجد رحیم ایک کہنہ مشق شاعر ہیں‘ ان کا مجموعہ کلام اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے میں انہیںاس کامیاب کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس پروگرام میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ ڈاکٹر ساجد رحیم‘ ریحانہ روحی‘ سہیل احمد‘ قیصر وجدی‘ راشد نور‘ ڈاکٹر ندیم‘ فرح اظہار‘ ڈاکٹر رومانہ‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عمران آثم‘ عزیز مرزا‘ ہدایت سائر‘ نعیم سمیر‘ رمزی آثم‘ منصور ساحر‘ کشور عروج‘ فرحانہ‘ سدرہ طارق اور سدرہ کریم نے اپنا کلام پیش کیا۔ تمام مسند نشینوں کو گل دستے اور ڈاکٹر ساجد رحیم کی کتاب پیش کی گئی۔

حصہ