ملک میں ہونے والی مردم شماری پر مختلف سیاسی جماعتوں کے تحفظات واعتراضات کا سلسلہ جاری ہے، خصوصاً کراچی کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے شہر میں ہونے والی مردم شماری پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا ہے بلکہ عدم اعتماد تک کر ڈالا، جس پر وفاقی حکومت نے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اِس دور میں انسان خلاؤں کے سفر پر جا نکلا ہے اور ہم ہیں کہ انسانوں کی گنتی میں لگے ہوئے ہیں! یہاں مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔
ہمارے بچپن میں جب دوست اکٹھے ہوتے تو وقت گزاری کے لیے کوئی نہ کوئی کھیل ایجاد کرکے کھیلتے۔ ماضی میں دوستوں کے ساتھ کھیلے گئے ان کھیلوں کی یادیں اب بھی میرے ذہن میں ایسے ہی تازہ ہیں، جیسے کل کی بات ہو۔ ہم عمر دوست جمع ہوکر زمین پر پانی سے مربع اشکال میں لائنیں کھینچ کر جو کھیل کھیلتے، اسے سُر پالا کہا جاتا۔ گرمیاں آتے ہی سارے دوست رات گئے تک یہی کھیلتے۔ دوسری طرف محلے کی لڑکیاں کھوکھو، نیلا سمندر، پہل دوج اور پِٹو باری کھیلا کرتیں، جو اپنے وقت کے مشہور کھیل تھے۔ اسی طرح برسات کے موسم میں بچے لوہے کی سلاخ زمین میں زور لگا کر گاڑا کرتے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی کھیل ہوا کرتا تھا، جس میں ایک بچہ زمین میں سلاخ پیوست کرتا اور باقی لڑکے ایک ٹانگ سے اُچھلتے ہوئے دور تک جاتے۔ اگر سلاخ زمین میں نہ گاڑی جاتی تو کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا۔ بچپن کے وہ سارے ہی کھیل بڑے دل چسپ اور نرالے تھے۔ اُس وقت اکثریت مڈل کلاس یا غریب طبقے سے تعلق رکھتی تھی، اس لیے بچوں کے پاس اتنے وسائل نہ ہوتے کہ وہ کرکٹ، ہاکی یا فٹ بال جیسے کھیلوں پر توجہ دیتے۔ ظاہر ہے جب جیب ہی خالی ہو تو کس طرح ان کھیلوں کا سامان لایا جا سکتا تھا! خیر اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس وقت بچوں نے جو سمجھا، اسے کھیل بنا ڈالا۔ میری عمر کا ہر شخص، جو مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کھیلوں سے آگاہی رکھتا ہوگا۔ اِنہیں ٹائم پاس کھیلوں میں ایک ایسا بھی تھا جس میں کوئلے سے دیواروں پتھروں، درختوں اور محلے کے گھروں میں خاص کر دروازوں کے پیچھے لکیریں کھینچی جاتیں، یعنی ایک گروپ دوسرے گروپ سے چھپ کر کوئلے سے چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچتا، اور دوسرا گروپ لگائی گئی ان لکیروں کو تلاش کرتا۔ جو لکیریں نظر سے بچ جاتیں، ان کو شمار کیا جاتا۔ گنتی مکمل ہونے کے بعد اس تعداد کو ہارنے والے گروپ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا۔ اس کھیل کا نام بڑا انوکھا سا تھا، یعنی ’’کل کل کانٹا‘‘۔ اس کھیل میں لگائی گئی لکیروں کی تلاش اس قدر مشکل ہوتی کہ ہار ماننا پڑتی۔ بعدازاں جتنی تعداد دوسرا گروپ دکھاتا، اسے خاموشی سے ماننا پڑتا۔ یہ انتہائی سر کھپانے والا کھیل ہوتا تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہار کی صورت جیتنے والے کی ہر بات کو تسلیم کرنا پڑتا۔ جو وہ کہتا، اس پر آمین کہنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہوتا۔ یعنی جیتنے والا گروپ ہارنے والوں سے کھانے تک کی فرمائش کرتا، یا پھر کوئی سزا تجویز کرتا جس پر لازمی عمل کرنا ہوتا تھا۔
آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا جارہا ہے، بڑی تیزی سے دنیا ترقی کرتی جارہی ہے۔ آج بچوں کو ماضی کی حقیقتوں کے بارے میں بتایا جائے تو جواب میں اُن کے پاس ہنسی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ سائنس کی ترقی نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے، آج کا بچہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون میں منہمک ہے۔ وہ اِنہیں بڑی مہارت اور چابک دستی سے چلاتا ہے۔ اسے اس طرح ان اشیا کا استعمال کرتا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر اتنی مہارت سے ہم اسمارٹ فون استعمال کرنا چاہیں تو اس مہارت کو حاصل کرنے میں عرصہ لگ جائے گا، اور پھر اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ ہم اس مہارت کو حاصل کر بھی سکیں۔ جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تیزی کے ساتھ بدلتی دنیا میں جہاں ہر چیز میں جدّت بڑھتی جا رہی ہے اور بنی نوع انسان خلاؤں کے سفر پر نکلا ہوا ہے،وہاں 21 ویں صدی میں بھی ہمارے حکم ران”کِل کِل کانٹا“جیسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔آج کے دور میں جہاں ساری دنیا ایک فنگر ٹپس پر ہے، ہمارے اربابِ اختیار پتھروں کے زمانے کی یاد تازہ کرنے میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔یعنی وہ مردم شماری کرنے کے نام پر آج”کِل کِل کانٹا“ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔دنیا بھر میں جہاں آج پرندوں،عمارتوں اور جانوروں تک کی تعداد مختلف طریقوں سے معلوم کی جارہی ہے،وہاں ہماری حکومت ایک مرتبہ پھر گھر گھر جاکر انسانوں کا شمار کرنے کی ٹھان چکی ہے، یعنی در در جا کر گھر میں رہنے والے سے ہی پوچھا جارہا ہے کہ یہاں کتنے افراد ہیں؟جواب میں مکین جو بھی بتائے،وہ کاغذ پر لکیریں لگا کر یا چھوٹی سی ڈیوائس میں Save کر کے اگلے گھر کی راہ لے کر یہی مشق دہرائی جا رہی ہے۔جبکہ اس بات کی کسی کو خبر نہیں کہ بتائے گئے افراد کی تعداد ٹھیک ہے یا غلط… کہہ دیا،سُن لیا،اللہ اللہ خیرسلا۔ ایسے میں فلم شعلے کا وہ ڈائیلاگ خوب یاد آتا ہے،جب امجد خان اپنے ساتھیوں سے پوچھتا ہے ”کتنے آدمی تھے؟“ دوسری طرف سے جواب آتا ہے”سردار! دو“۔بس یوں سمجھیے ہر مرتبہ بس اسی فارمولے کے تحت ہمارے ملک میں مردم شماری شروع ہوجاتی ہے اور اسی فارمولے کے تحت یہاں بسنے والوں کی تعداد کا تعین کر لیا جاتا ہے، پھر اسی بنیاد پر ملک میں وسائل کی تقسیم ہوتی ہے۔
دنیا بھر کے ممالک میں محکمہ شماریات کی ذمّے داری ہوتی ہے کہ اصل اعداد وشمار اس محکمے کے پاس ہوں، اور حکومت کو اس بات کا علم ہوکہ اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ہونے والی مردم شماری کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مردم شماری کرنے والے افراد کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ متعلقہ گھر سے بتائے جانے والے اعداد و شمار ٹھیک ہیں بھی کہ نہیں! کیونکہ ہر گھر میں رہنے والے افراد کا تعیّن کرنا مردم شماری کرنے والوں کے بس کی بات نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان اہلکاروں کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہوتا ہے،جس کو رگڑ کر معلوم کیا جاسکے کہ معلوم کیے گئے گھرانے میں کتنے افراد ہیں۔ ان کے پاس بتائی گئی معلومات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یعنی ایک خاندان کے متعلق اس گھرانے کی جانب سے جو بھی معلومات فراہم کی جاتی ہیں وہی حتمی تسلیم کی جاتی ہیں۔
میں مردم شماری کے خلاف نہیں بلکہ میں تو ماضی اور حال میں کی جانے والی مردم شماریوں پر اٹھائے جانے والے سیاسی جماعتوں کے اعتراضات پر بات کررہا ہوں جبکہ ذاتی طور پر میں ملک میں رائج اس طریقے سے خاصا اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت یہاں لوگوں کا شمار کیا جاتا ہے۔ میں تو اپنی تحریر کے ذریعے صاحبان اقتدار کو ان خرابیوں کی اطلاع دینے کی کوشش کررہا ہوں، جن کا سامنا حکمرانوں کو مردم شماری کے دوران یا اختتام پر کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں ہوئی مردم شماری کو کون بھلا سکتا ہے! وہ ہمارے سامنے ہے۔ اُس وقت کیا صورتِ حال بنی؟ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جس ملک میں زبان و علاقے کے نام پر سیاست کی جاتی ہو، وہاں اس قسم کے مسائل کا ہونا انوکھی بات نہیں، مثلاً اگر ہم صوبہ سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دے گا کہ یہ صوبہ زبان کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اب شہری علاقوں میں سیاست کرنے والی جماعتوں کو جن کی اکثریت اردو بولتی ہے، اپنے علاقوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ لکھوانے سے کون روک سکتا ہے؟ اسی طرح اندرونِ سندھ، جہاں سندھی بولی جاتی ہے، ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ تعداد ان کی مرضی کے مطابق لکھی جائے۔ یوں ایک دوسرے سے زیادہ تعداد لکھوانے کے کھیل کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے صرف اتنا بتادینا ہی کافی ہے کہ دونوں جانب سے دھاندلی کا شور ہی بلند ہوگا جس کی ابھی سے آوازیں سنائی دینے لگی ہیں، جس سے آنے والے طوفان کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ اس طرح کی صورت حال صرف صوبہ سندھ میں نہیں بلکہ یہ جھگڑا صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی نظر آتا ہے، جہاں پختون اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ آگے بڑھیے، اسی طرح صوبہ بلوچستان میں پختون اور بلوچی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ پنجاب میں یہ چکر سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے والوں کے درمیان چلے گا۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اربوں روپے لگا کر گھر گھر جاکر انتشار بڑھانے کے سوا کیا حاصل؟ میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ میں مردم شماری پر نہیں بلکہ اس کے طریقہ کار پر انگلیاں اٹھا رہا ہوں۔ ہاں اگر ماضی کی طرح کی جانے والی مردم شماریوں اور اِس مرتبہ ہونے والی مردم شماری میں کوئی فرق ہے تو بالکل ٹھیک۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ ترقی کے اس دور میں اگر کوئی کام سائنسی بنیادوں پر نہ کیا جائے تو وہ کام مکھی پر مکھی مارنے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ مردم شماری کے بعد حکمرانوں کے لیے جو سب سے بڑا چیلنج ہوگا، وہ اس مردم شماری کو تسلیم کروانے ہی کا ہوگا۔ مجھے احتجاج کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، اور نہ ہی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات دکھائی دے رہے ہیں جن کی وجہ سے کہا جاسکے کہ سب ٹھیک ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک میں مردم شماری کے نام پر نئے احتجاج ہونے لگیں،پاکستان میں بسنے والے عوام کو اعتماد میں لے کر ایسی مردم شماری کی جائے،جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔اس سلسلے میں گھر گھر جا کر انسانوں کی گنتی کرنے سے بہتر ہے کہ نادرا جیسے ادارے کی مدد حاصل کی جائے،جس کے پاس بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر شناختی کارڈ تک کا ریکارڈ موجود ہے۔عوام کو نادرا سے تمام کاغذات مکمل کروانے کی آگاہی دینے والے پروگرام بنانے ہوں گے۔ان خطوط پر کام کرنے سے آئندہ آنے والے ماہ و سال میں ایک ایک فرد کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایسے قوانین بنائے جاسکتے ہیںجن کی وجہ سے ہر شہری کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں، یعنی جب ہر شہری کا ڈیٹا موجود ہوگا تو بڑے احسن طریقے سے عوام کی تعداد اکٹھی کی جاسکتی ہے۔اس کے باوجوداگر کسی علاقے یا صوبے میں خرابی ہو تو اداروں کی مدد سے اصل تعداد لی جاسکتی ہے۔اگر اس طرح سے کوششیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک کا ڈیٹا نہ حاصل کیا جا سکے۔
ہاں یہ حقیقت ہے اور اس بات سے انکار نہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور عوام کو دستاویزات کی اہمیت کا احساس نہیں،لیکن میرا ایمان ہے کہ سخت قوانین بنانے سے لوگوں کو ضرور پابند کیا جاسکتا ہے۔یہ کام آج ہی سے شروع کردیا جائے تو کچھ ہی عرصے میں اچھے نتائج نکل کر سامنے آسکتے ہیں،جس سے اربوں روپے ضائع ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں،جو ہر مرتبہ انسانوں کی گنتی کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔