عالمی یوم مزدور۔۔کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

608

مزدوروں کا عالمی دن، جسے یوم مئی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک سالانہ تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے ،جو دنیا بھر میں محنت کشوں کی کامیابیوں کو یاد کرنے کا دن کہلاتا ہے۔یہ دن مزدور تحریکوں اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کی علامتی یاد دہانی ہے۔ مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ 19ویں صدی کی مزدور تحریک سے جڑی ہوئی ہے۔ 1800 کی دہائی کے آخر میں،بہت سے ممالک میں ایسے قوانین تھے جن کے تحت کارکنوں کے کام کرنے کے اوقات کار محدود تھے۔اس کی وجہ سے کارکنوں میں عدم اطمینان بڑھتا گیا،کیونکہ وہ کم گھنٹے کام کرنا اور بہتر اجرت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

یہ کہانی یکم مئی 1886ء سے شروع ہوتی ہے ’’ مارکیٹ اسکوائر‘‘ شکاگو امریکا میں ایک بڑا حادثہ رونما ہوا جس کا اثر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا پر پڑا،، ریاستہائے متحدہ کے ارد گرد ہزاروں مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام کے دن کا مطالبہ کرنے کے لیے ہڑتال کی۔ ہڑتال کو پولیس و ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک ہوئے۔جس کے بعد سے یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن قرار دیا گیا ۔یہ اعلان مزدور تحریک کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد میں ہونے والی پیش رفت کی نشاندھی کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ عالمی استحصالی دنیا میں مزدروں کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے۔ اس دن، بہت سے کارکنان مزدوروں کو درپیش مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے ریلیوں اور احتجاج کا اہتمام کرتے ہیں۔دین اسلام میں محنت کش اللہ کا دوست ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے سماج میں وہ عزت اور اپنے اصل مقام سے محروم رہے۔ جو شخص سب کے لیے دن رات محنت کرتا ہے اور اپنا پسینہ بہاتا ہے اس کی بے بسی و بے کسی کو اقبال نے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے کہ :

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

پوری دنیا کی طرح ہمارے یہاں بھی یوم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طورپرمنایاجاتاہے۔اس دن کی مناسبت سے تقریبات اورریلیوں کااہتمام کیا جاتا ہے۔اور ایسا لگتا ہے کہ مزدوروں کے تمام مسائل یوم مئی کے ساتھ ختم ہوجائیں گے لیکن دوسری طرف ہمارا مزدور اس دن بھی مختلف چوک چوراہوں پر ان نعروں اور اپنے حقوق سے بے خبرصرف روزی کی تلاش میں نظرآئے گا اور اس کے لیے یہ چھٹی کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی ۔اور مزدوری کے لیےبیٹھے ان بے بس افرادکی حالت زاران کی داستان غم سنارہی ہے۔آنکھیں ہرآنے جانے والے شخص پرلگی ہوتی ہیں کہ شایدکوئی انہیں ساتھ لیجا کر ان کی روزی روٹی کاسبب بن جائے۔

سو جاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کے
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا

مزدور ہمارے سماج کی قوت اورمعاشرے کی شان ہیں ۔مزدوروں اور محنت کشوں کی ترقی کے بغیر ملکی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے ،معاشرے کی حالت اس وقت تک نہیں بدلی جاسکتی جب تک مزدور کی حالت نہ بدلی جائے۔حکومت ہر سال مزدوروں کا عالمی دن تو مناتی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ دکھاوے کے اعلانات اور رسمی اقدامات کے علاوہ ملک کی حکومتیں مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کرتیں ان کی تمام پالیسیاں سرمایہ دارانہ طبقے کے لیے ہوتی ہے۔اس وقت مزدور طبقہ سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے ،اور کورونا میں تو اس کی زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے ۔

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

یہ دن درحقیقت مزدوروں اور محنت کشوں کو امید،حوصلے اور ظلم و استحصال سے آزادی کا پیغام دینے کا دن ہے اور متحد ہوکر حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے کا دن ہے ۔اس وقت ملکی صورت حال یہ ہے کہ کسان، مزدور، دیہاڑی دار، سرکاری ملازم سب پریشان ہیں، حالات کی وجہ سے ملک کا ہر پانچواں شہری ڈپریشن کا شکار ہے، صرف حکمرانوں کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے، عوام کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے، توانائی کا بحران منہ کھولے کھڑا ہے۔ہماری صنعتوں کی پیداواری صلاحیت پہلے ہی محدود ہے، اس وقت صنعتی شعبے میں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، گیس کی کمی نے مزید مشکل صورتِ حال پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے ملازمین صنعتوں سے فارغ ہورہے ہیں اور بے روزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس وقت ملازمین کو فارغ کرنے اور کچھ پاکستان سے نکلنے کا بھی سوچ رہی ہیں کیونکہ ایک تو ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اُن کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، دوسرے اُن کے منافع کو ڈالروں کی صورت میں باہر لے جانا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مڈل کلاس کی تعداد 46فیصد سے کم ہوکر 36فیصد ہوگئی ہے اور حکمرانوں کے رویے اور طرز عمل سے آئندہ دنوں میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے،غریب کے لیے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات میسر نہیں اور دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تر ہوتا جارہا ہے،ایک طبقہ امیرسے امیر تر اور دوسرا طبقہ غریب سے غریب تر ہورہا ہے،فیکٹریوں میں مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں،خواتین ملازمین کو ان کا جائز حق معقول تحفظ اور بنیادی سہولت میسر نہیں جو ان کو عورت ہونے کی حیثیت سے ملنی چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے مزدوروں کو ظلم سے نجات کیسے مل سکتی ہے جواب صرف ایک ہی بنتا ہے کہ جہاں دیانت دار لوگ اور قیادت ہوگی وہاں انہیں حقوق بھی ملیں گے اور انصاف بھی ملے گا اور یہ کام اسلامی نظام کے قیام اور اسلامی انقلاب سے ہی ممکن ہے۔
اقبا ل نے اپنی طویل نظم خضرراہ میں کہا تھا کہ :

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پيام کائنات

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمايہ‌‌ دار حيلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفريں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ خضرراہ پر لکھا ہے کہ :

اقبال کا اشارہ1917ء کے روسی انقلاب کی طرف ہے۔چوں کہ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اب روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہوگئی ہے، اس لیے اقبال مزدورسے مخاطب ہوتے ہیں کہ تیرے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دنیا پر سرمایہ دار انہ نظام مسلط تھا اور ہر جگہ مزدورں کا استحصال ہو رہا تھا اس لیے روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہونے کا تاثر پھیلا اور سرمایہ داری اور مغربی سا مراج کے جبر و استبداد کے مقابلے میں روسی انقلاب کو با لعموم سراہا گیا۔ اقبال نے بھی اسی تاثر کے تحت مزدور کو آفتابِ تازہ کی نوید سنائی ، تاہم ابھی روسی اشراکیت کے حقیقی خدوخال سامنے نہیں آئے تھے اور بعد میں جب اس کے بھیانک چہرے سے نقاب ہٹی تو اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے۔

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

اقبال مسلمانوں کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ ظاہری حسن کے بجائے باطن کی پاکیزگی پر نظر رکھیں۔ سائنسی قوت ،مہلک ہتھیاروں کی وجہ سے اہل مغر ب اپنے منفی رویوں سے دنیا مسخر کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نظام پائیدار نہیں ہے ۔ اقبال نے مغربی مادہ پرستی کو اخلاقیات کی موت قرار دیا ہے ۔ اُن کے نزدیک حقیقی زندگی کا دار و مدار سکونِ قلب اور ظاہر و باطن کی یک سوئی میں مضمر ہے ۔ اقبال اس بات کے متمنی تھے کہ شاخ ہاشمی از سر نو پھل پھول لائے گی اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا کہ ہم دنیاوالوں کے لیے ایک مثال بن جائیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ جہاں حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مزدروں کی تکلیف اور پریشانی کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے یکم مئی مزدوروں کے حقوق منایا جاتا ہے، آپ منائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے حق کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ سڑکوں پربے بس طبقہ سارا سارا دن روزی کی تلاش میں پریشان،مایوس اور بھٹکتا ہوا نظرنہ آئے اور وہ گھر پہنچے تو اس اس کے ہاتھ میں بھی بچوں کے لیے کچھ کھلونے اور کھانے کی اشیا ہوں۔وہاں ہمیں انفرادی سطح پر بھی مزدوروں کے عالمی دن کو عزت دینے کے ساتھ روز مرہ میں رویے تبدیل اور اچھے کرنے، ان کو اجرت کے ساتھ عزت و احترام دینے کی ضرورت ہے۔

ورنہ دیکھا جائے سال گزر جاتا ہے چھٹی منالی جاتی ہے لیکن ہمارا مزدور آج بھی اقبال کے ان اشعار کی تصویر بنا سوال ہی کررہا ہے کہ

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

حصہ