ولیرس اور اس کے ساتھی یکے بعد دیگرے کشتی سے اُترے۔ کلاڈیوس اور عاصم نے آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ لیکن سین الائو کے سامنے کھڑا رہا۔ کشتی سے اُترنے والے کچھ دیر دبی زبان میں عاصم اور کلاڈیوس کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد آگے بڑھے۔ ایک طویل قامت آدمی جو ایک بھاری قبا میں ملبوس تھا اپنے ساتھیوں سے دو قدم آگے تھا سین نے آگ کی روشنی میں اس کے پروقار چہرے پر نگاہ ڈالی اور مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’جناب یہ ہمارے شہنشاہ ہیں‘‘۔
سین نے اضطراری حالت میں دوزانو ہو کر ہرقل کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ اور پھر اُٹھ کر ادب سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’عالیجاہ! آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں آپ سے ملاقات کیے بغیر کسریٰ کے پاس جانے کا ارادہ کرچکا تھا۔ اب آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں کسی تاخیر کے بغیر کسریٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کی کوشش کروں گا۔ اور مجھے معلوم ہے کہ وہاں پہنچ کر مجھے کیا کرنا ہے‘‘۔
ہرقل نے کہا۔ ’’اگر قدرت کو ہماری بھلائی مقصود ہے تو ہمیں یقین ہے کہ آپ اپنی مہم میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں صرف اس بات کا ملال ہے کہ ہم اس سے قبل آپ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’مجھے کسریٰ کا یہی حکم تھا کہ میں صلح کے لیے گفتگو نہ کروں۔ اور یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ آپ کی طرف سے ایک ایسا آدمی صلح کا پیغام بر بن کر آئے گا جسے دیکھ کر میں اپنے شہنشاہ کی حکم عدولی پر آمادہ ہوجائوں گا۔ یہاں میرا ایک چھوٹا سا خیمہ آپ کے شان شایان نہیں۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ خود تشریف لارہے ہیں تو میں اس سے کوئی بہتر انتظام کرتا۔ بہرحال اب آپ وہیں تشریف لے چلیں‘‘۔
ایک سفید ریش بزرگ صورت آدمی نے کہا۔ ’’خدا نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ آپ اس حکم کی منشا پر چل رہے ہیں جس کے سامنے دنیا کے کسی حکمران کو سر اٹھانے کی مجال نہیں۔ دنیا کے تمام مظلوم اور بے بس انسانوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ ناکام نہیں لوٹیں گے۔
یہ عمرر سیدہ آدمی قسطنطنیہ کا اسقفِ اعظم سرجیس تھا اور سین کو اُسے پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ وہ اچانک دوزانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ’’مقدس باپ میرے لیے دُعا کیجیے۔ میں یقین اور اعتماد کی نعمتوں سے محروم ہوچکا ہوں۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ میری منزل کہاں ہے؟‘‘۔
سرجیس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرے بیٹے! میں دُعا کرتا ہوں کہ باپ بیٹا اور روح القدس تمہاری رہنمائی کریں اور تم ستم رسیدہ، مایوس اور بددل انسانوں کو امن کا پیغام دے سکو‘‘۔
سین اُٹھ کر ہرقل سے مخاطب ہوا۔ ’’چلیے عالیجاہ! یہاں ایک چھوٹا سا خیمہ آپ کے شایانِ شان تو نہیں۔ بہرحال وہاں ہم زیادہ اطمینان سے باتیں کرسکیں گے‘‘۔ ہرقل نے کہا۔ ’’چلیے، لیکن میں زیادہ دیر آپ کے پاس نہیں ٹھہر سکوں گا۔ طلوعِ سحر سے قبل میرا واپس پہنچ جانا ضروری ہے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ خیمے کے اندر داخل ہوئے اور سب لوگ ادب کے ساتھ ہرقل کے سامنے بیٹھ گئے خیمے کے اندر کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ بالآخر سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! موجودہ حالات میں صرف آپ کے ایلچی کو کسریٰ کے دربار تک پہنچانے کا ذمہ لے سکتا ہوں۔ لیکن میری سب سے بڑی اُلجھن یہ ہے کہ صلح کے لیے کسریٰ کی شرائط بہت سخت ہوں گی۔ میں ایک سپاہی کی حیثیت میں یہ سمجھانے کی ہرامکانی کوشش کروں گا کہ ہمارے لیے جنگ کی طوالت سود مند نہیں ہوگی۔ لیکن صلح کی شرائط کو نرم کرنا یا آپ کے لیے قابل قبول بنانا میرے بس کی بات نہیں ہوگی‘‘۔
’’یہ بات ہمیں معلوم ہے اور ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے کہ ہمارے ایلچی کو کسریٰ کے سامنے ہمارے احساسات کی ترجمانی کا موقع مل جائے۔ موجودہ حالات میں ہمارے ایلچی کو تمہارے شہنشاہ سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں ہوگی۔ اور ہم اسے ہر قیمت پر صلح کرنے کے مکمل اختیارات دے کر آپ کے ساتھ روانہ کریں گے۔ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ یہاں سے کب تک روانہ ہوں گے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’میں دو دن کے اندر اندر تیار ہوجائوں گا۔ اور اس عرصہ میں آپ اپنے ایلچی کو میرے پاس بھیج سکتے ہیں‘‘۔
ہرقل نے ایک معمر آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارا ایلچی یہاں موجود ہے۔ ان کا نام سائمن ہے۔ میرے انتہائی قابل اعتماد دوست ہیں۔ میں تمہارے سامنے انہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ ایران کے ساتھ صلح کرنا ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور ہم اس کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ کلاڈیوس اور ولیریس بھی اس کے ساتھ جائیں گے۔ کسریٰ کے لیے چند تحائف ہماری کشتی میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
سین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’اگر یہ لوگ ناکام لوٹے تو میرا انجام بھی شاید زیادہ قابل رشک نہ ہو میں آپ سے صرف یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ آپ آبنائے باسفورس کے پار میری بیوی اور بیٹی کو سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ دے سکیں گے‘‘۔
ہرقل نے جواب دیا۔ ’’اگر یہ لوگ ناکام لوٹے تو آبنائے باسفورس کے پار ہمارا کوئی شہر یا بستی محفوظ نہیں ہوگی۔ اگر ایرانیوں کی تلواریں ہماری شہ رگ تک نہ پہنچ سکیں تو شمال مغرب سے وحشی قبائل ہمیں اپنے گھوڑوں تلے روند رہے ہوں گے۔ اگر خدا نے ہمیں مکمل تباہی کے لیے پیدا نہیں کیا تو یہ لوگ ناکام نہیں لوٹیں گے۔ اب صرف پرویز کی انسانیت اور رحم دلی ہم سب کا آخری سہارا ہے۔ اور اگر پرویز اس درجہ مغرور ہوچکا ہے کہ ہم ہار مان کر بھی اسے متاثر نہیں کرسکتے تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ خدا ہمارے لیے موت کے دروازے کھول دے اور ہمیں ذلت اور رسوائی کی اس زندگی سے نجات دے‘‘۔
’’نہیں نہیں‘‘۔ سرجیس نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ قیصر کو ظلم کی ان اندھی طاقتوں کے خلاف سیسہ سپر ہونے ی ہمت دے۔ جو برسوں سے قدرت کے انتقام کو پکار رہی ہیں۔ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو بالآخر قدرت کی اَن دیکھی اور اَن جانی قوتیں ایک ایسے طوفان کی طرف نمودار ہوتی ہیں جو سنگلاخ چٹانوں کو تنکوں کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ خدا کسی بے بس اور مجبور انسان کو یقین اور ایمان کی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے اور اس کے کمزور ہاتھ ظالم اور جابر شہنشاہ کے تاج نوچ لیتے ہیں۔ اگر کسریٰ کے ساتھ صلح کی تمام تدبیریں ناکام ہوجائیں تو ہمیں صرف یہ دعا کرنی چاہیے کہ خدا قیصر کو ایک ایسے حکمران کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے جن پر لاکھوں انسانوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘‘۔
ہرقل نے سین سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ پرویز کو میری طرف سے یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ اگر میرے لیے ایران کے راستے بند نہ ہوتے اور مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ میرا اعترافِ شکست اسے رحم پر آمادہ کرسکتا ہے تو میں ننگے سر اس کے دربار میں حاضر ہونے سے دریغ نہ کرتا۔ اب میں نے ایک چور کی طرح اس کے سپہ سالار تک رسائی حاصل کی ہے۔ لیکن اگر میرا یہ اقدام اس کے غرور کی تسکین کے لیے کافی نہ ہو تو میں اپنی رہی سہی سلطنت کی مکمل تباہی دیکھنے کی بجائے اس کے سامنے سرنگوں ہونا زیادہ آسان سمجھتا ہوں۔ میں کسریٰ سے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس نہیں مانگتا۔ میری درخواست صرف یہ ہے کہ آبنائے باسفورس کے پار میری رہی سہی سلطنت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تا کہ میں اطمینان سے خونخوار قبائل کا سامنا کرسکوں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’میں نے آپ کے ایلچی کو کسریٰ کے دربار میں پیش کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور میں اسے پورا کروں گا۔ پھر اگر مجھے اپنی طرف سے کچھ کہنے کا موقع ملا تو میری کوشش یہی ہوگی کہ کسریٰ آبنائے باسفورس عبور کرنے کا ارادہ ترک کردے لیکن اپنی کامیابی کے متعلق میں بہت زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ مجوسی کاہن میرے عزائم کے متعلق سنتے ہی ایک طوفان کھڑا کردیں گے۔ تاہم میں آپ کے ساتھ ایک وعدہ کرسکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر مجھے اس میں ناکامی ہوئی تو آپ مجھے ایرانی لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے اس محاذ پر نہیں دیکھیں گے‘‘۔
ہرقل نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’میرے خیال میں ہماری ملاقات کا مقصد پورا ہوچکا ہے۔ میں اب سین سے کچھ اور کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ تم جہاز سے تحائف کا صندوق لے آئو۔ ہمارے لیے طلوع سحر سے قبل واپس پہنچنا ضروری ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے عاصم کی طرف دیکھا اور وہ دونوں اُٹھ کر خیمے سے باہر نکل گئے ایک ساعت بعد ہرقل نے کشتی پر سوار ہو کر اپنے جہاز کا رُخ کیا۔ سین کچھ دیر سمندر کی طرف دیکھتا رہا۔ اور پھر جب کشتی رات کی تاریکی میں روپوش ہوگئی تو اس نے سائمن کے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میرے خیال میں اب ہمارے لیے قلعے میں پہنچ کر آرام کرنا بہتر ہوگا۔ آپ کے لیے گھوڑے موجود ہیں اور میرے آدمی آپ کا سامان لے آئیں گے۔ آپ کو اتنی بے آرامی کے بعد سفر کرنے میں تکلیف تو نہیں ہوگی؟‘‘۔
سائمن نے جواب دیا۔ ’’ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی‘‘۔
سین نے ایک سپاہی کو گھوڑے لانے کا حکم دیا اور پھر چند ثانیے توقف کے بعد سائمن سے مخاطب ہو کر کہا ’’میرے ساتھ سفر کرتے ہوئے آپ سے کوئی یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ آپ کون ہیں۔ تاہم جب تک آپ کسریٰ کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔ آپ کو ہر ممکن احتیاط سے کام لیان پڑے گا۔ آپ اناطولیہ کے یہودی تاجروں کے بھیس میں میرے ساتھ سفر کریں گے۔ آپ کے لیے مناسب لباس کا انتظار کردیا جائے گا‘‘۔
فسطنیہ فصیل پر کھڑی باہر کی سمت ٹیلوں اور وادیوں میں بل کھاتی ہوئی سڑک کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک حد نگاہ پر ایک ٹیلے کی اوٹ سے چند سوار نمودار ہوئے اور اس کی ساری حسیات سمٹ کر نگاہوں میں آگئیں۔ کچھ دیر بعد اچانک اس کا مغموم چہرہ مسرت سے چمک اُٹھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ عاصم ان کے ساتھ تھا۔ اس کی رات بھر کی دعائیں قبول ہوچکی تھیں اور وہ تشکر کے آنسوئوں سے بھیگی ہوئی مسکراہٹوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ نیچے اُترنے کے ارادے سے زینے کی طرف بڑھی۔ اچانک کچھ سوچ کر رک گئی۔ پھر واپس مڑ کر برج کے ایک ستون کی آڑ سے باہر جھانکنے لگی۔ سوار گھوڑے دوڑاتے ہوئے قلعے کی اندر داخل ہوئے تھوڑی دیر بعد فیروز ہانپتا ہوا زینے سے نمودار ہوا اور اس نے کہا۔ ’’بیٹی وہ آگئے ہیں۔ عاصم بھی ان کے ساتھ ہے اور تمہاری امی تمہیں بلاتی ہیں‘‘۔
(جاری ہے)